English   /   Kannada   /   Nawayathi

گورنروں کے ذریعہ اپوزیشن کی ریاستی حکومتوں کو گرانا بند ہو

share with us

اسی دستور کے تحت آزادی کے بعد سے ۱۹۶۷ء تک ملک کا نظام حکومت بخیر وخوبی چلتا رہا لیکن اس کے بعد جس رفتار سے مختلف ریاستوں میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی غیر کانگریسی حکومتیں تشکیل پانے لگیں ریاستوں کے حقوق واختیارات اور ان کے دائرہ کار میں اضافہ کا مطالبہ بھی ہونے لگا لہذاکوئی ۳۲ برس پہلے ۱۹۸۴ء میں ریاستوں کے دباؤ اور مطالبات سے مجبور ہوکر مرکز کی کانگریسی سرکار نے مرکز اور ریاستوں کے روابط کا جائزہ لینے کی غرض سے سپریم کورٹ کے ایک سبکدوش جج جسٹس سرکاریہ کی قیادت میں ایک کمیشن تشکیل دیا، جس کو سبھی ریاستوں بالخصوص اپوزیشن سے متعلق سرکاروں نے اپنی تجاویز پیش کرکے مرکز اور ریاستوں کے حقوق واختیارات پر نظر ثانی پر زور دیا اس وقت کی پنجاب میں اکالی سرکار کی طرف سے تو ’’سرکاریہ کمیشن‘‘ سے یہ مانگ بھی کی گئی تھی کہ دستور ہند کے ہدایتی اصولوں میں ترمیم کرکے اس کے وفاقی کردار کو مزید طاقتور بنایاجائے اسی طرح مرکز کے اختیارات اور ریاستوں کے حقوق کی فہرست دوبارہ مرتب کی جائے۔
یہ مطالبات نئے نہیں تھے بلکہ اس سے قبل مغربی بنگال کی بائیں محاذ کی حکومت جموں اور کشمیر کی شیخ عبداللہ سرکار، کرناٹک کی جنتاپارٹی اور آندھرا پردیش کی تیلگودیشم وزارتیں بھی یہی مانگ کرتی رہی تھیں، انہیں مرکز اور ریاستوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم میں جانبداری گورنروں کے تقرر میں مرکز کے سیاسی مفاد کا لحاظ، صدر راج کا بے جا استعمال اور ریاستی اسمبلیوں کو بار بار تحلیل کرنے پر سخت اعتراض رہا تھا مگر ’’سرکار یہ کمیشن‘‘ کی تمام تر کارروائی اور تجاویز کے باوجود ریاستوں کی شکایات آج بھی برقرار ہیں۔خاص طور پر مرکزی حکومت کے اشارے پر گورنروں کا غیر دستوری کردار پہلے بھی تنقید ومذمت کا نشانہ بنتا رہا ہے۔ اتراکھنڈ اور اروناچل کی حکومتوں کو گرانے کے بعد تو سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک کے بعد ایک فیصلوں کے ذریعہ یہ واضح کردیا کہ مرکزی حکومت کو اپنے اقتدار کے بل بوتے پر یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ریاستوں میں اپوزیشن کی منتخب حکومتوں کو گورنر کے اختیارات کا بیجا استعمال کرکے گرادے اور اپنی من چاہی سرکاریں قائم کرلے، خاص طو رپر اروناچل پردیش جسی چین کی سرحد پر واقع ریاست، جہاں کی جمہوری سرگرمیاں، چین کی آنکھوں کی کرکری بنتی رہی ہیں، وہاں پچھلے سات ماہ تک گورنر کی صوابدید پر حکمراں بی جے پی کی قیادت میں ایک غیر منتخب سرکار کا کام کرتے رہنا تو اور بھی جمہوریت کیلئے بدنمائی کا پہلو بنا ، جس کو سپریم کورٹ کے سخت فیصلے کے نتیجے میں بدلا جاسکا ہے۔ اس فیصلے کے بعد گورنروں کے کام کاج کے طور طریقوں اور ان کے کردار پر ازسرنو بحث ومباحہ ہونا چاہئے تاکہ اپوزیشن سے متعلق ریاستوں میں زبردستی صدرراج تھوپنے یا حکومتیں تبدیل کرانے کے واقعات پر قابو پایا جاسکے، ۱۹۹۴ء میں ایس آر بومئی کیس میں پہلے بھی سپریم کورٹ اس بارے میں تنبیہ کرچکی ہے کہ آئین کی دفعہ ۳۵۶ کا غلط استعمال کرکے ریاستی حکومتوں کو گرانے پر روک لگنا چاہئے، لیکن سرکار یہ کمیشن کی سفارشات کی طرح اس پر توجہ نہیں دی گئی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا