English   /   Kannada   /   Nawayathi

ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی اور رجب طیب اردغان کو غیبی مدد

share with us

تاریخ نے ہمیشہ طیب اردغان اور ان کے حمایتی عوام کو سنہری الفاظ میں یاد کیا جاتا رہے گا۔ جنہوں نے بدنیت، اقتدار کی لالچ میں غیروں کے آلہ کار فوجی عناصر کو ایک ایسا سبق سکھایا جس سے دنیا کے دوسرے ممالک بالخصوص اسلامی مملکتوں کی عوام سیکھ سکتے ہیں۔
رجب طیب اردغان سے میرے دوستانہ روابط رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کی صاحبزادی سومیہ کی شادی میں میں نے اپنے ارکان خاندان کے ساتھ شرکت کی۔ ترکی جیسی مملکت کے سربراہ کی بیٹی کی شادی اس قدر سادگی سے کی گئی کہ حیرت بھی ہوئی، رشک بھی آیا اور تاریخ میں مسلم حکمرانوں کے انداز حکمرانی، ان کی سادگی کے پڑھے ہوئے واقعات بھی یاد آنے لگے۔ ترکی میں اپنے قیام کے دوران میں نے ہر مکتب فکر کے افراد سے ملاقات کی۔ مجھے کوئی بھی طیب اردغان کا مخالف نہیں ملا۔ پورے ملک کا ماحول پُرسکون محسوس ہوا۔ کہیں کسی قسم کی بے چینی محسوس نہیں ہوئی۔ جس سے بھی بات ہوئی اس نے اپنے صدر کی ستائش کی۔ ان کے اقدامات کو سراہا اور کیوں نہ سراہتے ملک کا صدر کسی یتیم بچے کی خواہش پر اس سے ملاقات کے لئے اس کے گھر یا جہاں وہ زیر علاج ہے وہاں پہنچ جاتا ہے۔ عام آدمی کی طرح لوکل ٹرین میں سفر کرتا ہے۔ کسی بھی مسجد میں عام مصلی کی طرح نماز پڑھتا ہے‘ عوام سے ملاقات کرتا ہے۔ ساتھ ہی دنیا میں بالخصوص اسلامی ممالک میں غیروں کی مداخلت اور امن کو یقینی بنانے کے بہانے تسلط کی مخالفت کرتا ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسلام کو بہ بانگ دہل دین حق قرار دیتا ہے۔ اپنے معاشی اصلاحات کی بدولت ملک میں خوشحالی کو یقینی بناتا ہے۔
فوجی بغاوت کو کچلنے کے بعد حالات قدر معمول پر آئے تو میں نے رجب طیب اردغان سے رابطہ قائم کیا۔ انہیں مبارک باد دی تو ترکی کے صدر نے جذبات سے مغلوب لہجے میں کہا ’’یہ سب اللہ کا شکر ہے‘ اللہ کی مدد شامل تھی جس کی بدولت حالات قابو میں آگئے‘‘۔
میں ماہر نفسیات ہوں۔ لگ بھگ چالیس برس سے امریکہ میں ہوں۔ محمد علی کلے سے لے کر طیب اردغان تک سے میرے تعلقات رہے ہیں۔ بات چیت کے دوران مجھے اُن کی نفسیات کا انداز ہوتا ہے۔ محمد علی مرحوم سے مل کر میرا ایمان مضبوط ہوتا تھا۔ طیب اردغان سے بات چیت کرکے مجھے عجیب سی روحانی کیفیت محسوس ہوتی۔ اس لئے کہ طیب اردغان جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ اِن کا اللہ پر توکل مثالی اور قابل رشک ہے۔ اور گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران ترکی جن حالات سے گزرا‘ جن طرح سے حالات بیرونی طاقتوں نے پیدا کئے اس میں طیب اردغان کی برقراری کو دیکھ کر یہ یقین پختہ ہوجاتا ہے کہ بلاشبہ غیبی طاقت نے جو سوائے خدا کے کسی کی نہیں ہوسکتی‘ اِن کی مدد کی۔ فوج سے عوام ڈرتے ہیں۔ مگر یہ کیسا جذبہ تھا کہ عوام باغی فوجیوں کو زدوکوب کررہے تھے۔ لاکھوں افراد ترکی کی شاہراہوں پر مرکزی چوک پر اپنے محبوب قائد کی مدافعت کے لئے چوکس ہوگئے۔ یہ کیسی محبت‘ یہ کیسا اعتماد ہے۔ اسے سمجھنا مشکل ہے۔ الفاظ میں بیان کرنا اور زیادہ مشکل ہے۔
ترکی یورو ایشیا کا حصہ ہے۔ یہ قدیم یونانی ایرانی رومن بازی تانی عثمانی تہذیب کا امتزاج ہے۔ یہ آٹھ ممالک سے گھرا ہوا ہے۔ شام عراق جنوب میں ایران، آرمینیا، آزربائجان، جارجیا، شمال مشرق میں‘ بلغاریہ شمال مغرب میں‘ یونان مغرب میں، بحر اسود شمال جنوب میں اور بحر روم مغرب میں ہے۔ یہ ناٹو فوج کا رکن ہے جو شام اور عراق میں داعش کو شکست دینے کے لئے تعینات کی گئی ہے۔ اس نے امریکی جٹ طیاروں کو اپنے فضائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ روس کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اس نے دوبارہ کوششیں شروع کردی تھیں۔ یاد ہوگا حال ہی میں ترکی نے ایک روسی طیارہ مار گرایا تھا۔ طیب اردغان کی پالیسی ان کے موقف پر وقتاً فوقتاً اسلام دشمن طاقتیں تنقید کرتی رہیں۔ ان کا تختہ الٹنے کے مطالبات بھی کئے جاتے رہے۔ ان کے خلاف بغاوت کے لئے جلاوطن اسلامی اسکالر محمد فتح اللہ گولن کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے تاہم گولن نے خود کو اس تحریک سے لاتعلق ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم طیب اردغان نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کو اِن کے حوالے کردے جو1999 سے پنسلوانیہ میں پناہ گزین ہیں۔ طیب اردغان نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پنسلوانیہ میں رہ کر کوئی ترکی کے امور انجام نہیں دے سکتا۔
ناکام فوجی بغاوت میں 265 افراد ہلاک ہوئے جن میں 104 فوجی سپاہی اور 161 پولیس اہلکار اور عام شہری ہیں۔ لگ بھگ 1500 افراد بشمول پولیس اور فوجی سپاہی کے زخمی ہوئے ہیں۔ تقریباً 2900 سپاہیوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ جنرل امید دندار جنہوں نے کارگذار فوجی سربراہ کے طورپر جائزہ لے کر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی‘ ہلاک ہوگئے۔ جبکہ محروس جنرل آکار کو باغیوں کی قید سے چھرا لیا گیا۔ ترکی میں فوجی بغاوت کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ملک جو بارہویں صدی سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوا تھا۔ 1923ء میں اسلامی تشخص سے محروم ہوا جب مصطفےٰ کمال عطا ترک نے عالم اسلامی کے آخری خلیفہ عبدالمجید کا تختہ الٹ دیا تھا اور خود ملک کی باگ ڈور سنبھال لی تھی۔ اُس نے ترکی کو ماڈرن بنانے کے نام پر یہاں سے اسلامی اصولوں کو برخواست کیا سیکولرزم کے نام پر اس نے مسلمانوں کے مذہبی حقوق سلب کئے۔ اور یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا۔ اس کے بعد 1960ء میں صدر سلامی بائر اور وزیر اعظم عدنان مندریس کے خلاف فوجی بغاوت کامیاب ہوئی۔ عدنان مندریس کو پھانسی دی گئی اور فوجی جنرل جمال خود صدر بن گئے۔ 1971ء میں فوجی جنرل ممدوح نغمات نے وزیر اعظم سلیمان دامیرل کو ا لٹی میٹم دے کر انہیں اقتدار سے سبکدوش ہونے کے لئے مجبور کیا اور انتظامیہ پر فوج کا تسلط قائم ہوا۔ 1980ء میں اڈمیرل بومنٹ اولوسو نے خود وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ 1999ء میں فوج کی سفارشات کو قبول کرتے ہوئے اربکان نے استعفیٰ دیا تھا۔
جہاں تک رجب طیب اردغان کا تعلق ہے‘ یہ ترکی کے بارہویں صدر کی حیثیت سے 2014ء سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ 1994ء سے 1998ء تک استنبول کے مےئر رہے۔ 2003ء میں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہے۔ وہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی AKP کے قائد ہیں۔ اِن پر مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے کا الزام ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ترکی کے موجودہ صدر کٹر مسلمان ہونے کے باوجود مذہبی رواداری کے قائل ہیں‘ وہ صرف اپنے ملک کے علاوہ دوسرے اسلامی ممالک میں سامراجی طاقتوں کا تسلط نہیں چاہتے۔
ترکی میں طیب اردغان کی حکومت کی برقراری کے لئے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کو مثالی ترقی عطا کرے اور طیب اردغان کی قیادت کو برقرار رکھے‘ انہیں اور بھی مستحکم بنائے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا