English   /   Kannada   /   Nawayathi

بھڑکتی ’’قندیلیں‘‘ بجھ ہی جاتی ہیں!

share with us

قندیل بلوچ پاکستان کی متنازعہ بے باک ماڈل جسے سوشیل میڈیا کی کوئن بھی کہا جاتا تھا‘ جس نے پاکستان کے جانے کتنے سفید پوش‘ فرشتہ صفت‘ عوامی خدمت گذاروں کی عزت و ناموس کی دھجیاں اڑاکر رکھ دی تھیں‘ جس کے آئے دن کے سیلفیز اور آڈیو ویڈیو کلیپنگ سے جہاں پاکستان کا اوباش طبقہ سرشار ہوتا تھا وہیں شرفاء کی نیند حرام ہوکر رہ گئی تھیں۔
عمران خان سے شادی کی خواہش‘ شاہد آفریدی سے قربت کا دعویٰ اور پاکستان کے ورلڈ کپ چمپئن بننے پر مکمل برہنہ رقص کرنے کے اعلان اور اس سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پر یوٹیوب پر اس کی جھلک پوسٹ کرنے والی قندیل بلوچ کو شہرت کی بلندی پر پہنچنے کی اس قدر جلدی تھی کہ اس کے لئے وہ ہر شارٹ کٹ اختیار کرنے کے لئے تیار تھیں اور حالیہ عرصہ کے دوران تو وہ شہرت کے آسمان پر پہنچ گئی تھیں۔ اس پر تنقید بھی ہوئی، دھمکیاں بھی دی گئیں اور آخرکار اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں قتل کردی گئی۔ بھائی نے اپنی گرفتاری کے بعد اقبال جرم کیا کہ اس نے اپنی بہن کی حرکات اور اس کی فحاشی سے بیزار ہوکر یہ اقدام کیا۔ کیوں کہ قندیل بلوچ جس کا اصلی نام فوزیہ عظیم تھا‘ اس کی متنازعہ اور غلط حرکات کی وجہ سے پورے خاندان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔
حال ہی میں ایک پاکستانی فلم ’بول‘ ریلیز ہوئی تھی جو واقعی ایک بہترین فلم تھی۔ جس میں ایک باپ اپنے مخنث بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں گلا گھونٹ کر ہلاک کرتا ہے۔ اور یہ کہتا ہے کہ اگر وہ بیٹے کو نہ مارتا تو پورے خاندان کو ہر روز ہرپل شرم سے مرنا پڑتا۔
غیرت کے نام پر قتل کے واقعات عام ہے۔ یہ صرف پاکستان ہی میں نہیں دنیا کے ہر خطہ میں ہوتے ہیں۔ مہذب معاشرہ میں بھی جہاں بے حیائی، بے راہ روی، فیشن بن چکی ہے‘ جہاں نیم عریاں بیٹی بہن بیوی کے ساتھ گھومنے پھرنے، ان کی نمائش کرتے ہوئے مرد اپنی مردہ غیرت کو روشن آزاد خیالی کا نام دیتے ہیں۔ یہاں بھی غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں۔ آروشی قتل کیس اس کی مثال ہے۔ ڈاکٹر تلوار اور اس کی بیوی نے اپنی نوجوان بیٹی کو سرجری کے آلات سے محض اس لئے قتل کردیا تھا کہ انہوں نے اپنے ملازم کے ساتھ بیٹی کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا تھا۔ ایک ملازم کے ساتھ بیٹی کے روابط نے ان کی سوئی ہوئی غیرت کو جگایا اور جو کچھ ہوا وہ اب تک میڈیا میں پیش ہوتا رہا ہے۔ کبھی بیوی کی بے وفائی پر شوہر قاتل بن جاتا ہے تو کبھی بیٹی کی بے راہ روی یا دوسرے مسلک یا ذات پات کی پرواہ کئے بغیر شادیوں پر ماں باپ اپنی اولاد کے قاتل بن جاتے ہیں۔ یہ صرف اسی طبقہ تک محدود نہیں ہے بلکہ جب کبھی کسی کی غیرت جاگ اٹھتی ہے وہ حالات اور مستقبل کی پرواہ کئے بغیر انتہائی اقدام کرتا ہے۔ غیرت کے نام پر ہندوستان میں سب سے زیادہ قتل یا دوسرے قسم کے تشدد کے واقعات ہریانہ، پنجاب، راجستھان، اترپردیش میں ہوتے ہیں‘ کبھی کبھی دوسری ریاستوں سے بھی اس قسم کی خبریں سنائی دیتی ہیں۔ پاکستان اگرچہ کہ ایک اسلامی ملک کہا اور سمجھا جاتا ہے مگر خود پاکستانی کے الفاظ میں یہاں کا معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے۔ ایلٹ (Elite) سوسائٹی میں ایک کی بیوی دوسرے کے بانہوں میں نظر آئے تو کوئی معیوب بات نہیں۔ نصرت بھٹو کی تصاویر بہت پہلے امریکی صدر کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوئی تھی‘ اور حالیہ عرصہ کے دوران وینا ملک نے ہندوستان میں بھی اپنی بے حیائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ چوں کہ پاکستانی معاشرہ کی غیرت سورہی تھی۔ اس لئے وینا ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ قندیل بلوچ کے بھائیوں کی غیرت جاگ رہی تھی‘ اس لئے یہ قندیل بجھادی گئی۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر1999 سے 2004ء تک کم از کم چار ہزار قتل ہوئے ہیں۔ 2005ء میں اوسطاً ایک ہزار افراد کا قتل ہوا۔ 2007ء میں 1957 افراد جن میں بیشتر خواتین ہی تھیں‘ ارکان خاندان کی غیرت کی بھینٹ چڑھادی گئیں۔ ان میں 18فیصد 18سال یا اس سے کم عمر کی تھی اور 88 خواتین شادی شدہ تھیں۔ 
27؍مئی 2014ء کو ایک حاملہ خاتون کو اس کے ارکان خاندان نے پاکستان ہائی کورٹ کے روبرو محض اس لئے سنگسار کردیا کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی جس سے ان کی غیرت‘ عزت و ناموس پر حرف آگیا تھا۔ یوروپی ممالک میں مقیم عراق، شام، افغانستان سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں بھی خاندانی عزت کے نام پر قتل کے واقعات ہوتے ہیں۔ جنوبی لندن میں عراقی کرد خاتون بناز محمود کو اس کے باپ اور چچا نے اس کی مغرب زدگی سے ناراض ہوکر قتل کیا جس پر ایک ڈاکومنٹری فلم ’’بناز اے لو اسٹوری‘‘ بنائی گئی۔ شام میں جنگ سے متاثرہ علاقوں میں سپاہیوں کی جانب سے عصمت دری کی شکار خواتین کا بھی ان کے ارکان خاندان قتل کردیتے ہیں کیوں کہ عورت کے مظلوم اور بے قصور ہونے کے باوجود مرد کے گناہ کی سزا بھی اسی کو بھگتنی پڑتی ہے۔ سعودی عرب میں ایک باپ نے اپنی بیٹی کو نامحرم کے ساتھ انٹرنیٹ پر چیاٹنگ پر ہلاک کردیا۔ ایسے واقعات عام ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہر ایک واقعہ منظر عام پر نہیں آتا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال پانچ ہزار خواتین خاندانی وقار کیلئے ختم کردی جاتی ہے۔ جبکہ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد 20ہزار سے زائد ہے۔ عزت و وقار کے لئے صرف لڑکی یا خواتین کو ہی نہیں اکثر لڑکوں یا مردوں کو بھی قتل کیا جاتا ہے۔ یا خودکشی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ ترکی میں چند برس پہلے ایک باپ نے اپنے 17سالہ بیٹے کا برسر عام قتل کیا تھا کہ یہ لڑکا ہم جنس پرستی میں مبتلا تھا۔ 
قندیل بلوچ یا اس جیسی خواتین کے اپنے ارکان خاندان سے کیا اسی قسم کے سلوک یا اقدامات جائز ہیں۔یا اگر کوئی فوزیہ عظیم قندیل بلوچ بن جاتی ہے تو اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ پہلی بات تو یہ ہیکہ خوددار عزت دار گھرانے اپنی بیٹیوں، بیویوں اور بہوؤں کو اپنی عزت سمجھ کر اپنی جان سے زیادہ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ جیسے جیسے نئی تعلیم، نئی روشنی، آزاد خیالی، روشن خیالی، مہذب سماج، مساوات خواتین کے سماجی حقوق جیسی اصطلاحات پیش کی گئیں اور بے شرم عناصر نے اسے معاشرہ پر مسلط کیا‘ تب سے ہر ایک بے حیائی، بے راہ روی قابل قبول ہوگئی ہے۔ قندیل بلوچ غیرت دار مسلم گھرانے کی تھی‘ آج ہم ایمانداری کے ساتھ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں‘ ہر گھر میں ہم قندیل بلوچ پروان چڑھا رہے ہیں۔اس کا آغاز پہلے گھر سے ہوتا ہے‘ گیت اور موسیقی کی دھن پر ہماری چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں ناچتی تھرکتی ہیں تو ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ اسکولس چاہے وہ مسلم انتظامیہ کے ہوں یا کسی مشنری کے یا سرکاری‘ ان میں مختلف موقعوں پر پیش ہونے والے کلچرل پروگرامس میں ہماری بچیاں ہر قسم کے واہیات رقص کرتی ہیں۔ تماشائی تالیاں بجاتے ہیں‘ برقع پوش مائیں بڑے فخر سے اپنے موبائل پر اس کی تصویر کشی یا ویڈیو گرافی کرتی ہیں‘ بے غیرت باپ اسے دیکھ کر خوش ہوتا ہے‘ بچیوں کے ذہن میں جب کچی عمر سے یہ بات بیٹھ جائے کہ ان کے رقص، ان کی بے حیائی سے دنیا خوش ہوتی ہے تو وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ ان کی یہ عادت بھی پختہ ہوتی ہے‘ کچھ موقع تلاش کرکے قندیل بلوچ کا راستہ ا ختیار کرلیتی ہے‘ اور جو گھر گرہستی میں مصروف ہوجاتی ہیں‘ کبھی کبھی اپنی قسمت کو کوس لیتی ہیں۔ہم خود اپنی بیٹیوں کو بے راہ روی و بے حیائی کا راستہ ا ختیار کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ بہت سارے عیبوں پر تو ہم پردہ ڈال دیتے ہیں ورنہ اسکولس‘ کالجس کی لڑکیوں کی سرگرمیوں کا خفیہ طور پر جائزہ لیا جائے تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ یہ قندیل بلوچ تو بدنام ہوئی ورنہ یہ بدنامی تو ہم نے اپنے دامن میں بھی چھپا رکھی ہے۔
کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ تعلیمی اداروں کے جلسے اور تقاریب میں خوبصورت ترین لڑکیوں کو منتخب کرکے ان کے ذریعہ مہمانوں کو گلدستے پیش کروائے جاتے ہیں یا شہ نشین تک لانے کے لئے لڑکیوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔مرد مہمانوں کی گلپوشی، گلدستوں کی پیش کشی یا ا ن کی پذیرائی کے لئے اسکولس یا کالجس کے انتظامیہ لڑکوں کا استعمال کیوں نہیں کرتے۔ آخر کیوں یہ ہماری بچیوں کے دلال بن جاتے ہیں۔
قندیل بلوچ تو ایک علامت بن گئی تھی‘ بے حیائی اور اپنی قوم کی رسوائی کی۔ خدا را اپنی بچیوں کا بھی ہم جائزہ لیں۔ آج ہماری غفلت، نرمی، لاپرواہی سے ایسے حالات نہ پیدا ہوں کہ کل ہم اپنے ہاتھ سے اپنے گھر کی شمع یا قندیل بجھادیں!

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا