English   /   Kannada   /   Nawayathi

لڑکیاں حاصل نہ کرسکیں، ایسی کوئی چیز نہیں

share with us

کرینا کپور نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ ابھی بھی لڑکیوں کو لعنت سمجھا جاتا ہے۔ سماج انہیں کمتر مانتا ہے جبکہ ہر میدان میں لڑکیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ماہواری کے دوران عورتوں کو مندر میں جانے سے روکنے پر کرینا نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیریڈ اوپر والے نے بنائے ہیں، اس میں لڑکیوں کا کوئی دخل نہیں بلکہ ماہواری ہی لڑکی کو عورت میں تبدیل کرتی ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ جس کی وجہ سے عورت ماں بنتی ہے وہ گندی کیسے ہوسکتی ہے۔ اگر بھگوان کو ماں کے روپ میں پوجاجاسکتا ہے تو عورت کو کسی بھی حالت میں اس کے پاس جانے سے نہیں روکا جاسکتا۔ کرینا نے لڑکیوں کو مخاطب کرکے کہاکہ آپ اچھے پروڈکٹ، صاف ٹائلیٹ کی مانگ کیجئے تاکہ آپ کے وہ دن آسان بنیں۔انہوں نے مردوں سے بھی کہا کہ ان ایام میں وہ ان کو سپورٹ کریں۔ ان کی پرائیویسی کا خیال رکھیں۔
یہ پروگرام گریما ماڈل کے تحت تین اضلاع کی لڑکیوں کا رویہ تبدیل کرنے میں ملی کامیابی کو سیلی بریٹ کرنے کیلئے منعقد کیاگیا تھا۔ اس موقع پر ریاست میں صاف صفائی اور محفوظ ماہواری کو فروغ دینے کیلئے روڈ میپ جاری کیا گیا۔ گریما پروجیکٹ میں ستی مارگ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ لڑکیاں و طالبات تفریح کے ساتھ پڑھائی اور محفوظ ماہواری کے بارے میں کھل کر باتیں کرتی ہیں۔ اس پروگرام کے ذریعہ 121000 لڑکیوں کو ماہواری کے دوران خیال رکھنے والی باتوں سے واقف کرایا گیا۔ اس نے لڑکیوں میں چپی توڑو سنستھا بناؤ جیسے پروگراموں سے جڑنے کا حوصلہ پیدا کیا۔
اس پروگرام میں مہمان خصوصی کے طورپر شریک ہوئی ممبر پارلیمنٹ ڈمپل یادو نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب بھارت میں سوچھ ماہواری کے مسئلہ پر ہم ایک دوسرے سے کھل کر بات کررہے ہیں۔ لوگ اس مدے پر اپنی بیٹیوں سے بات نہیں کرتے۔ میں نے دیکھا کہ مائیں بھی بات کرنے سے کتراتی ہیں جب تک بات نہیں کریں گے، ان کو سمجھائیں گے نہیں، تب تک وہ روتی رہیں گی۔ انہوں نے کہاکہ ان ایام میں 60فیصد لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ صرف 12فیصد لڑکیاں اور عورتیں ایسی ہیں جوسینیٹری نیپ کن کا استعمال کرتی ہیں۔ 70فیصد پرانے کپڑے اور دوسری چیزیں کام میں لاتی ہیں جو محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 86فیصد لڑکیاں اس بائیلوجیکل تبدیلی کیلئے ذہنی طوپر تیارنہیں ہوتیں اور 90فیصد کوسینیٹری نیپ کن کے علاوہ دوسری چیزوں کے استعمال کا ان کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے اس کی واقفیت نہیں ہوتی۔ان کے لئے محفوظ ٹوائلیٹ ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہاکہ اس مسئلہ پر بات کانہ ہونا ایک طرح کی ’’سماجی پابندی‘‘ ہے۔
امت کمار پرنسپل سکریٹری وزرارت ہیلتھ اترپردیش سرکار نے کہاکہ ریاست میں کشوری سرکشا یوجنا، ٹوائلیٹ بنوانے اور بچوں میں کوپوشن کو روکنے جیسی اسکیموں میں ڈمپل یادو کی رہنمائی حاصل رہی ہے۔ اب گریما پروجیکٹ کے تحت مرزا پور، سون بھدر اور جونپور میں لڑکیوں کو سینیٹری نیپ کن تقسیم کئے گئے ہیں۔انہوں نے بتایاکہ 2013 میں سوچھ بھارت مشن کے تحت اس کی شروعات مہوبا ضلع سے ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 8نیپ کن کا پیکٹ دس روپے میں فرہم کیا تھا تاکہ لڑکیاں آسانی سے اس کا استعمال کر سکیں۔ ان کے مطابق لڑکیوں کے 44ہائی اسکول وانٹر کالجوں میں اسے متعارف کرایاگیا تھا۔ 2013میں مہوبا میں رہی ڈی ایم شریمتی کاجل سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ انہوں نے انل سینگر کو سستے نیپ کن بنانے کیلئے تیار کیاتھا۔ انہوں نے بتایاکہ مہوبا سے لوگ کام کی تلاش میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ وہاں زیادہ تر عورتیں گھروں میں رہتی ہیں۔ غیر محفوظ کپڑے، روئی یا دوسری چیزیں ماہواری کے دوران استعمال کرنے سے وہ بیماری ہوجاتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک ڈاکٹر ہوں، مجھے معلوم ہے کہ انہیں کس طرح بیماریوں سے محفوظ رکھا جاسکتا تھا۔ اس لئے میں نے عورتوں کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ محفوظ ماہواری کیلئے بیدار کیا۔ اس کام میں ہمارے ساتھ کام کرنے والوں کا بھی پورا تعاون رہا۔ آج انل سینگر کی دویونٹیں کام کررہی ہیں جن میں بہت سی عورتیں کام کرتی ہیں۔
اس موقع پر اپنے اپنے علاقوں میں سماجی بیداری کا کام کرنے والے بچوں، بچیوں، گرام پردھانوں اور ہیلتھ کونسلرس کو انعامات سے نوازا گیا تھا۔ ان میں سے شیوانگی مرزا پور کے بھینا گاؤں نے بتایا کہ ان کے گاؤں کی آبادی چھ سات سو ہے۔ لوگ سڑک کے کنارے رفع حاجت کرتے تھے، جن کے گھر میں ٹوائلٹ بنا ہوا تھا وہ بھی ٹوائلٹ استعمال نہیں کرتے تھے۔ شیوانگی کے ساتھ پڑھنے والی لڑکیاں اس کے گاؤں کی گندگی کی وجہ سے نہیں آتی تھیں۔ شیوانگی نے کھلے میں رفع حاجت کرنے والوں پر پانی پھینکنا شروع کیا۔ اس میں گاؤں کے سرپنچ نے بھی مدد کی۔ اس طرح اس کاگاؤں آج اس مسئلہ سے نجات پاچکا ہے۔ اسی طرح شہزادی نے اپنے گاؤں میں کمسن لڑکی کی شادی کو رکوایا۔ اس نے گاؤں کے بڑے لوگوں کی مدد لی اور آخر میں سرپنچ کو آگے آنا پڑا۔ شگفتہ چار لڑکیوں کی کونسلنگ کرچکی ہے جبکہ انجو نے 2321لڑکے لڑکیوں کی کونسلنگ کی ہے۔ گریما پروجیکٹ کا اترپردیش میں 19-10سال کی 23.5لاکھ لڑکیوں کو محفوظ ماہواری سے جوڑنے کا ٹارگیٹ ہے۔ ابھی پانچ لاکھ نیپ کن ہر سال تقسیم ہورہے ہیں۔ 
کمشنر وزارت زراعت اترپردیش نے بتایاکہ ریاستی سرکار تمام عوامی جگہوں جیسے روڈویژ بس اڈوں پر عورتو ں کیلئے صاف اور محفوظ بیت الخلاء بنارہی ہے۔ ساتھ ہی سرکار یونیسیف کی مدد سے ان مقامات پر وینڈنگ مشین لگائے گی تاکہ لڑکیوں وعورتوں کو نیپ کن کیلئے سفر کے دوران پریشان نہ ہوناپڑے۔ انہیں ان مقامات پر نیپ کن دستیاب ہوں۔ وہیں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں وعورتوں میں بیماریوں کی شروعات یورین انفیکشن سے ہوتی ہے۔ زیادہ تر معاملوں میں یہ انفیکشن ماہواری کے دوران پرانے کپڑے یا غیر محفوظ چیزوں کے استعمال سے ہوتا ہے۔ کبھی کبھی انفیکشن لڑکیوں میں بانجھ پن کی وجہ سے بھی بن جاتا ہے۔ تمام مذاہب نے ان ایام میں عورتوں کو خصوصی رعایت دی ہوئی ہے۔ مثلاً اسلام کے مطابق ماہواری کے ایام میں عورتوں کو نماز، روزے میں رعایت ہے۔ اس دوران اگر کوئی شخص طلاق دینا چاہے تو وہ واقع نہیں ہوتی۔ ان ایام میں مردوں کو عورتوں سے دور رہنے کا حکم دیاگیا ہے۔ ہندو مذہب بھی پیریڈ کے دوران عورتوں کو ناپاک مانتا ہے۔ شاید اسی لئے انہیں مندروں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ ماہواری کے دوران لڑکیوں و عورتوں کو پیٹھ، پیڑو اور ٹانگوں میں درد کی جس تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے، اس میں انہیں ہمت افزائی یا سپورٹ کی یقیناًضرورت ہے۔ یونیسیف کا یہ قدم اس لحاظ سے اہم ہے کہ ان خاص دنوں کیلئے لڑکیاں ذہنی طورپر تیار ہوں۔ والدین خاص طور پر مائیں ان کی رہنمائی کریں تاکہ وہ سوچھ اور محفوظ طریقہ سے اپنے ماہواری کے دن گزار سکیں ۔ لڑکیاں یا مائیں صحت مند ہوں گی تبھی بچے صحت مند ہوں گے جن سے ایک اچھے سماج کی تعمیر ہوتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا