English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلمانوں کی وفاداری کو مشکوک قرار دینے کی ذہنیت ملک کیلئے نقصاندہ

share with us

اس نظریہ کے پیچھے جو ذہنیت کام کررہی ہے وہ اکثریت کو ملک کی مختار اعلیٰ سمجھنے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کرنے کا احساس ہے جس کی بنیاد پر کبھی مسلمانوں سے اپنا ’’سول کوڈ‘‘ تبدیل کرکے ’’کامن سول کوڈ‘‘ اپنانے کا مطالبہ ہوتا ہے کبھی ان کے ملی تشخص پر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو کبھی ان پر ملک وطن کے تئیں وفاداررہنے کے لئے زور ڈالا جاتا ہے۔
ایسے لوگ اول تو اس حقیقت سے آگاہ نہیں یا اپنی عددی برتری کے زعم میں جان بوجھ کر اس سچائی کو فراموش کرجاتے ہیں کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو کسی جغرافیائی تقسیم کا قائل نہیں اس کے لئے مسلمہ عقائد حتمی اور ابدی ہیں۔ جغرافیائی دائرے ان کو تبدل نہیں کرسکتے۔ جہاں تک رہن سہن پر مقامی اثرات کا سوال ہے تو ان کو ہندوستانی مسلمانوں میں بھی باآسانی دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ مختلف ملکوں میں مسلمانوں کے ثقافتی امتیازات یا مسلکی اختلافات کو بعض علاقوں کے مخصوص اسلام سے تعبیر کرنا اور اس کی بنیاد پر ہندوستان میں بھی تبدیلی کی بات کرنا اگر شرارت نہیں تو ناسمجھی ضرور کہی جائے گی۔
اس ذہنیت کے حامل یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ملک کے ساتھ وفاداری، روحانی عقیدت، تہذیبی خصوصیات اور تعلق ورشتہ داریاں یہ سب جداجدا نوعیت کی مظہر ہیں جن کو باہم خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کی کوئی بھی اقلیت اپنے مذہب پر کاربند رہتے ہوئے ہندوستانی ہوسکتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح کہ برما اور جاپان کے بودھ، بودھ بھی ہیں اور برمی وجاپانی بھی۔ یا نیپال کے ہندو ہندو بھی ہیں اور نیپالی بھی ایسا تو نہیں ہے کہ ہندوستان کے باہر جتنے بھی بودھ یا ہندو رہتے ہیں ان سب کی ابتدائی وفاداری ہندوستان کے ساتھ ہو اور صرف ثانوی وفاداری ان ملکوں سے جہاں وہ رہتے بستے ہیں۔ اگر سری لنکا، برما، جاپان کے بودھ سارناتھ، گیا اور سانچی کے ساتھ نیز ہندوستان کے سکھ پاکستان میں واقع ننکانہ صاحب اور پنجہ صاحب سے روحانی عقیدت کا رشتہ رکھتے ہوئے بھی اپنے ملک کے وفادار شہری بن سکتے ہیں تو ہندوستانی مسلمانوں کی وفاداری پر محض اس لئے شبہ کرنا کہ وہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے ہیں یا حج کرنے حجاز جاتے ہیں یا ہندوستانی قومیت کا ایک حصہ ہونے کے ساتھ وہ ایک عالمی روحانی کنبہ کے بھی رکن ہیں کیا شرارت نہیں؟
دراصل اجتماعی زندگی کے سیاسی وشخصی دو پہلو ہوتے ہیں اور ملک ایک خالص سیاسی ادارہ ہے شخصی نہیں، جب یہ بنیادی سچائی فراموش کردی جاتی ہے تو اکثریت ملک کے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کرالیتی ہے اور ملک وحکومت کی ایجنسیوں کو کم تعداد والے گروہوں پر اپنی شخصی خصوصیات مسلط کرنے کے لئے استعمال کرنے لگتی ہے۔اکثریت واقلیت کے درمیان بدگمانی منافرت اور تصادم کی ابتداء اسی سے ہوتی ہے۔ ہندوستان میں فرقہ وارانہ رجعت پسندی کے حامل عناصر آج اس غلط فہمی میں گرفتار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کو ہندوستانی مسلمانوں کی وفاداری مشکوک نظر آتی ہے جو اکثریت کے شخصی ڈھانچے میں ڈھل جانے پر آمادہ نہیں، جب یہ ذہنیت عام ہوجاتی ہے تو اقلیتوں کی ملی انفرادیت کا ہر مظہر قومیت کے متوازن اشتراک کے بجائے ناقابل برداشت زیادتی نظر آنے لگتا ہے اور آگے چل کر یہی ملک کے بکھراؤ کا باعث بنتا ہے۔
ہندوستان میں آج سے نہیں کوئی ساٹھ ستر سال سے اسی نظریہ کی تبلیغ ہورہی ہے اور اکثریت کی بعض شدت پسند تنظیمیں یہی بات زور دیکر کہہ رہی ہیں کہ سیاسی زندگی میں مذہبی، تہذیبی اور فرقہ وارانہ وفاداریوں کی کوئی گنجائش نہیں اور کوئی بھی قوم پرست سیاسی نظام انہیں برداشت نہیں کرسکتا مثلاً مسلمان اگر ملک وقوم کے وفادار بننا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے اپنی ملی شناخت یا بالفاظ دیگر اجتماعیت کو ختم کرنا پڑے گا۔ حالانکہ ملی شناخت ہو یا اجتماعیت یہ بعض انسانی ضرورت کی تکمیل کا کام انجام دیتے ہیں اور انہیں نظر انداز کرکے اس ملک کا بھلا نہیں کیا جاسکتا۔ 
حقیقت میں سنگھ پریوار کا نظریہ ہے کہ ہندوستان میں صرف ایک قوم آباد ہے اور وہ ’’ہندوقوم‘‘ ہے ، لوگوں کے طریقہ عبادت جداجدا ہوسکتے ہیں مگر بنیادی طو رپر وہ سب ہندو کلچر سے بندھے ہوئے ہیں لہذا یہاں کا ہر شہری ہندو ہے جو خود کو ہندو کہنے یا سمجھنے سے پرہیز کرے وہ ملک سے نکل جائے اس کے لئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اگرکثر کوئی شخص یا فرقہ اپنے آپ کو ہندوستانی کہتا ہے تو اس کی بھی چندا ں اہمیت نہیں اسے خود کو ہندو ہی کہنا اور سمجھنا پڑے گا۔
ہندو کہلوانے پر آر ایس ایس کا یہ اصرار اس لئے ہے تاکہ کچھ عرصہ بعد ذہنی طو رپر مسلمان اور دوسری اقلیتیں یہ فراموش کردیں کہ حقیقتاً وہ کون ہیں اور کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں؟ جب ان کے بچے اپنے گھروں میں ماں باپ سے یہ سن کر ہوش سنبھالیں گے کہ ہم ہندو ہیں تو آگے چل کر نئی پود خود کو ہندو تصور کرنے لگے گی۔ پہلے وہ رسم ورواج اور تہذیب وثقافت کے لحاظ سے ہندوانہ رنگ میں رنگے گی۔پھر وقت کے ساتھ وہ اپنے مذہب سے اور اپنے بنیادی عقیدے سے برگشتہ ہوجائے گی۔ اسی لئے سنگھ پریوار ہندوستان میں ’’ہندوتوا‘‘ کی سربلندی پر زور دیتا رہا ہے اور سیکولرازم سے ملک کی وابستگی کو ختم کردینا چاہتا ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ ہندوستان جیسے وسیع وعریض ملک میں جہاں مختلف مذاہب ، زبانیں، تہذیبیں اور ذیلی قومیتیں آباد ہیں ان کو اکثریت کے رنگ میں نہیں رنگا جاسکتا اور اس سلسلے کی تمام کوششیں نتائج کے اعتبار سے ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہوں گی لیکن اس کی فکر جارج ہندوقومیت کے علمبرداروں کو نہیں ان کے دل ودماغ میں تو بس اقلیتوں کو اپنے اندر ضم کرلینے کا جذبہ لہریں مار رہا ہے حالانکہ یہ ملک کومتحد ومستحکم نہیں کرسکتا، اس کیلئے فراخ دلی، رواداری اور اپنائیت کی ضرورت پیش آئے گی

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا