English   /   Kannada   /   Nawayathi

ذاکر نائک کو روکو ورنہ اسلام پھیل جائے گا

share with us

ایسے بہت سے سوالات اِن دنوں میڈیا نے اٹھائے ہیں اور اس کے جوابات بھی خود دے رہے ہیں؟ بلکہ جس طرح سے الیکٹرانک میڈیا نے متحدہ طور پر ’’ٹرائل‘‘ شروع کیا ہے اور منظم طریقے سے ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کی جارہی ہے‘ اس سے یہ لگتا ہے کہ بنگلہ دیش بم دھماکے میں ملوث روہن‘ امتیاز کا یہ بیان کے وہ ذاکر نائک کے تقاریر سے متاثر تھے‘ محض ایک بہانہ ہے۔ ذاکر نائک کو شکنجے میں پھانسنے‘ ان کی زبان بندی کی منصوبہ بندی بہت پہلے کردی گئی تھی‘ آخر کیوں؟ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ساری دنیا میں میڈیا پر کنٹرول صیہونی طاقتوں کا ہے۔ جن ممالک میں صیہونی لابی نہ بھی ہو تب بھی اس کے ہم خیال اور زیر اثر طاقتیں میڈیا کنٹرول کررہی ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف گمراہ کن پروپگنڈہ کیا جاتا ہے اور وقفہ وقفہ سے انہیں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہندوستان چند ایک غیر اردو اخبارات کے چھوڑ کر سبھی مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی آواز یا اس کے ترجمان کا رول زیادہ تر اردو اخبارات ہی کرتے رہے۔ اور جو باقی مسلم ترجمان ہیں‘ انہیں ہر دور میں مختلف حکومتوں کی جانب سے مختلف طریقوں سے ہراساں پریشاں کیا جاتا رہا اور وہ اخبارات جو خود کو سیکولر ثابت کرتے رہے انہیں نوازا جاتا رہا۔ مسلم مسائل کو قومی اخبارات چاہے وہ کسی بھی زبان میں کیوں نہ ہو‘ توڑ موڑ کر پیش کرتے رہے جس کی وجہ سے مسائل کی یکسوئی کے بجائے ان میں اضافہ ہوتا رہا۔ اِن حالات کے پیش نظر مسلمانوں نے کئی بار اپنے ایک قومی انگریزی اخبار کی اشاعت کا آغاز کا ارادہ کیا کافی رقم بھی اکٹھا کی گئی مگر جو تحریک شروع کی گئی تھی اس میں نامور ہستیاں بھی شامل ضرور تھیں تاہم غلبہ ملت فروش، مفاد پرست افراد کا تھا جس کی وجہ سے جو رقم جمع کی گئی تھی وہ بھی غائب ہوگئی اور قومی انگریزی اخبار کی اشاعت کا خواب بھی ادھورا رہ گیا۔ گذشتہ 15برس کے دوران الکٹرانک میڈیا اور گذشتہ پانچ برس کے دوران سوشیل میڈیا کے اثرات بڑھ گئے ہیں۔ چوں کہ الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ اَن پڑھ جاہلوں تک بھی اپنی بات پہنچائی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوا جسے دیکھتے ہوئے ہندوستان کے ارب پتی صنعتی اداروں نے اس پر قبضہ کیا اور یہ کہنا یا لکھنا قطعی غلط نہ ہوگا کہ اِن اداروں کی ذہنیت بھی صیہونی ہی ہے جس کا ثبوت مختلف ٹیلی ویژن چیانلس کے وہ Shows ہیں جس میں مسلمانوں کے سلگتے مسائل کو اِس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمان دیگر ابنائے وطن کی نظروں سے گرجاتے ہیں۔ اس پس منظر میں 2000 ء میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے حیدرآباد میں منعقدہ عالمی طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کانفرنس کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلمانوں کے ایک سٹیلائٹ ٹی وی چیانل کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ یہ دراصل پیس ٹی وی کے آغاز کا اشارہ تھا اور کچھ عرصہ بعد پیس ٹی وی کی نشریات کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
ساری دنیا پہلے ہی سے یہ بات جانتی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک مذاہب کے تقابلی جائزے کے لئے شہرت رکھتے ہیں۔ پیس ٹی وی کے آغاز سے پہلے دنیا بھر میں اپنے پروگرامس کے ذریعہ سوالات و جوابات کے سیشن کے ذریعہ انہوں نے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ چوں کہ ان کے ٹارگٹ سامعین اور ناظرین مسلمانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ غیر مسلم رہے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے انگریزی زبان کو اختیار کیا۔ ذاکر نائک سے پہلے ڈاکٹر احمد دیدات عالمی مذاہب کے تقابلی جائزے کے لئے شہرت کے حامل تھے۔ اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ احمد دیدات کی زندگی ہی میں ذاکر نائک نے ایک طرح سے ان کی وراثت سنبھالی اور ان سے کہیں زیادہ مقبولیت اور شہرت حاصل کی اور ہزاروں ان کے شاگرد پیدا ہوئے جو ملک و بیرون ملک انہی کے انداز میں مذاہب کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں اور یہ کوئی معمولی صلاحیت والی بات نہیں ہے۔ ذاکر نائک تمام مذاہب کے اسکالرس کے ساتھ مباحث میں حصہ لیتے ہیں اور انہیں کی مذہبی کتابوں کے حوالے سے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں۔ ہر موقع پر دوسرے مذاہب کے اسکالرس ذاکر نائک کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں اور بعض موقعوں پر وہ لاجواب ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی یادداشت سے نوازا ہے۔ مختلف مذاہب کے مقدس کتابوں کے حوالے وہ صفحہ نمبر کے ساتھ دیتے ہیں۔ اور یہی صلاحیت مخالف کو مسحور کردیتی ہے۔ اپنی صلاحیتوں کی بدولت ذاکر نائک ساری دنیا میں مشہور بھی ہوئے اور مقبول بھی ۔ وہ عالمی سطح پر چند گنے چنے مسلمانوں میں سے ہیں جنہیں دنیا ان کے نام سے جانتی ہے۔
ذاکر نائک سلفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں‘ بعض اوقات ان کا انداز جارحانہ ہوتا ہے‘ ان سے حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کا اختلاف رہا ہے‘ بعض موقعوں پر دارالعلوم دیوبند نے بھی ان کے بعض بیانات پر ناراضگی ظاہر کی۔ ان سے کئی معاملات میں اختلافات کے باوجود عالم اسلام کے لئے ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حال ہی میں خلیجی ملک میں منعقدہ ان کے ایک پروگرام میں ایک غیر مسلم نے ان سے شیعہ اور سنی اختلاف سے متعلق سوال کیا اس امید پر کہ ذاکر نائک کسی ایک مسلک کی تائید اور کسی ایک کی مخالفت کریں گے اور اس سے مسلمانوں کی باہمی اختلافات اور شدید ہوجائیں گے‘ تاہم سوال کرنے والے کو مایوسی اور لاکھوں حاضرین کو اور پیس ٹی وی کے ناظرین کو بے پناہ مسرت ہوئی جب ذاکر نائک نے قرآن مجید دکھاکر اپنے جواب میں کہا کہ قرآن مجید میں شیعہ اور سنی کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ جہاں کہیں ذکر آیا صرف مسلمانوں کا ذکر آیا ہے۔ ذاکر نائک چوں کہ صرف توحید کی بات کرتے ہیں‘ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی بات کرتے ہیں‘ اس لئے بعض مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے ان کے شدید مخالف ہیں۔ بلکہ ان کے خلاف جاری میڈیا، سنگھ پریوار کی سازش کا بھی وہ آلہ کار بن کر ان کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوئے حالانکہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مختلف مکاتب فکر کے مسلم علمائے کرام نے اس وقت مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے اگرچہ کہ ماضی میں ذاکر نائک سے اختلاف کیا ہے تاہم مولانا ارشد مدنی اور مولانا سالم قاسمی کے علاوہ ندوۃ العلماء کے مولانا سجاد نعمانی نے ببانگ دہل ان کے خلاف چلائی جانے والی مہم کی مذمت کی اور جماعت اسلامی نے بھی ذاکر نائک کی اگرچہ کہ تائید نہیں کی مگر مخالفانہ تحریک کی مخالفت کی۔ علمائے کرام کا یہ احساس ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران یکے بعد دیگر مسلم علمائے کرام کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے انہیں گرفتار کیا جارہا ہے‘ اس سے پہلے مولانانظر شاہ قاسمی کو گرفتار کیا گیا اس وقت دوسرے مکتب فکر کے علمائے کرام نے خاموشی اختیار کی اب ذاکر نائک پر شکنجہ کسا جارہا ہے۔ اگر دوسرے مکاتب فکر کے علمائے کرام خاموشی اختیار کریں گے تو انہیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اگلی باری ان کی ہوگی۔ ضرورت ا س بات کی ہے کہ اس وقت ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ سہیل اطہر نے جو کاروانِ اہل حق علمائے دیوبند واٹس ایپ گروپ میں شامل ہیں‘ مولانا تھانوی کے ملفوظات کے حوالے سے ایک واقعہ پیش کیا ہے کہ اجمیر میں کسی زمانے میں ہندوؤں نے اعلان کیا تھا کہ ہم شیعوں کو تعزیہ نکالنے نہیں دیں گے تو عام مسلمانوں میں یہ سوال اٹھا کہ شیعہ کا ساتھ دیں یا غیر جانبدار رہیں تو اس موقع پر مولانا یعقوب نانتویؒ نے شیعہ کی تائید کا فتویٰ دیا کیوں کہ اُس وقت ہندوؤں شیعہ سے نہیں بلکہ وہ شیعہ کو مسلمان سمجھ کر اسلام سے مقابلہ کررہا تھا۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتا تو یہی کہتا کہ دیکھو ہم نے اسلام کو مغلوب کردیا۔
ذاکر نائک جن کے خلاف میڈیا کی زہریلی اشتعال انگیز مہم کے بعد ملک کی خفیہ انجنسیاں شواہد اکٹھا کررہی ہیں بلامبالغہ دنیا بھر میں کسی بھی ٹی وی چیانل پر پیش ہونے والی شخصیت سے زیادہ مشہور اور مقبول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے ٹی وی چیانلس جو پیس ٹی وی کی ٹی آر پی کی مسابقت نہیں کرپاتے اور نہ ہی ذاکر نائک کی طرح مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے‘ احساس کمتری، حسد اور بغض کا شکار ہیں۔ یوں تو ہندوستان میں پیس ٹی وی امتناع عائد ہے تاہم مختلف ٹی وی چیانلس کے ذریعہ ذاکر نائک کا پیغام بہرحال پہنچتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو سینکڑوں ٹی وی چیانلس کے ذریعہ بدنام کرنے کی تمام سازشوں کا پیس ٹی وی چیانل اور ذاکر نائک تنہا مقابلہ کررہا ہے۔ اور یہی بات مسلم دشمن طاقتوں کو ناگوار گزری ہے۔ ذاکر نائک نے قادیانیوں کے بارے میں بھی بہت ہی موثر انداز میں حقائق بیان کیا۔ انہیں بہانہ چاہئے تھا ذاکر نائک کی زبان بندی کا۔ اگر ذاکر نائک کے خلاف قانونی کاروائی ہوتی بھی ہے تو ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش کرنا مشکل ہوگا۔ کیوں کہ ذاکر نائک جہاں مذاہب تقابلی جائزہ میں مہارت رکھتے ہیں وہیں دستوری اور قانونی معاملات میں بھی ان کی معلومات کچھ کم نہیں ہیں۔ غیر جانبداری کے ساتھ اگر تحقیقات ہوتی ہیں تو ذاکر نائک کا دامن بے داغ رہے گا اور اب جو ان کے خلاف گمراہ کن مہم جاری ہے وہ مستقبل میں ان کے لئے بونس ثابت ہوگی۔ گمراہ پروپگنڈہ کے نتیجہ میں وہ لوگ بھی ذاکر نائک کے یوٹیوب لکچرس دیکھنے لگے ہیں جنہوں نے صرف ان کا نام سنا ہوگا یا وہ ان سے واقف نہیں تھے اور یہ امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ذاکر نائک کے چاہنے والوں اور حلقہ بگوش اسلام ہونے والوں کی تعداد مزید اضافہ ہوگا۔ 
بہرحال اس وقت تمام طاقتیں جن میں کچھ نام کے مسلمان بھی شامل ہیں‘ اور کچھ وہ بھی جنہیں ذاکر نائک جیسے لوگوں سے اپنی مذہبی دکانیں بند ہونے کا خطرہ دکھائی دیتا ہے‘ ایک دوسرے کو یہی پیغام دے رہے ہیں۔روکو روکو اس ذاکر نائک کو روکو پیس ٹی وی کو بند کرو ورنہ اسلام پھیل جائے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا