English   /   Kannada   /   Nawayathi

’’سارک‘‘ کو نئی زندگی اور وسعت دینے کی ضرورت

share with us

 


عارف عزیز

 


جنوبی ایشیا کے آٹھ ممالک ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور افغانستان پر مشتمل علاقائی تعاون تنظیم ’’سارک‘‘ کو ۳۳سال ہورہے ہیں لیکن مہینے گزر جاتے ہیں۔ اس تنظیم کے بارے میں کوئی خاص خبر نہیں ملتی، نہ اس کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں، گزشتہ دنوں ہندوستان آئے نیپال کے سابق وزیر اعظم پرچنڈ نے ضرور کہا تھا کہ ان کا ملک سارک کو دوبارہ سرگرم عمل کرنے کے ساتھ اس کے اجلاس کو جلد سے جلد منعقد کرانا چاہتا ہے۔ ان کے اس اعلان سے ایک مرتبہ پھر سارک کے بارے میں بات چیت ہونے لگی لیکن ہندوستان کے سیاسی وسفارتی حلقوں میں جنوب ایشیائی ملکوں کی اس علاقائی تنظیم کو تقریباً بھلا ہی دیا گیا ہے حالانکہ علاقہ کے کئی ممالک میں سارک کے نام پر پہلے کی طرح سرگرمیاں جاری ہیں مثال کے طور پر گزشتہ مئی کے دوران کولمبو میں ۸ واں سارک فلم فیسٹیول ہوا۔
پرچنڈ سے پہلے پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان سارک اجلاسوں کا رکا ہوا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کی رائے ظاہر کرچکے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسی سال سارک کا چوٹی اجلاس اسلام آباد میں کرانے کی کوشش کرینگے، ہندوستان بھی اس سلسلہ کو پھر سے شروع کرنے کے حق میں ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ اس کا اجلاس سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں ہو۔ پچھلا سارک چوٹی اجلاس کا ٹھمنڈو میں ۲۰۱۱ء میں ہوا تھا اس کے بعد اجلاس پاکستان کے اسلام آباد میں نومبر ۲۰۱۳ء میں ہونا تھا، وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس میں شرکت کی منظوری دیدی تھی لیکن اس سے پہلے جنوری ۲۰۱۳ میں پاکستان کی دہشت گرد تنظیم نے ہندوستان کے پٹھان کوٹ میں ہوائی اڈہ پر حملہ کردیا، جس کے نتیجہ میں ہند۔ پاک رشتوں میں تلخی بڑھتی گئی، آخر کار سارک چوٹی اجلاس سے قبل پاکستان اور نیپال کو چھوڑ کر باقی سبھی ممبر ملکوں نے کشیدہ ماحول میں اجلاس کے جواز پر سوال کرتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کردیا، اسی وقت سے سارک اجلاس ملتوی ہے۔ دوسری طرف بریکس میں ہندوستان کی بڑھتی سرگرمی کو دیکھ کر یہ کہاجانے لگا کہ ہندوستان سارک کو نظر انداز کرنے کے لئے ہی اسے استحکام بخش رہا ہے، اس طرح کا تاثر پیدا ہونا ہندوستان کیلئے مناسب نہیں ہے۔ دونوں تنظیموں کا اپنا کردار ہے، جنوب ایشیائی ممالک کے نزدیک سارک کی اہمیت ہے اور ہندوستان نے بھی اس میں شروع سے سرگرم حصہ لیا ہے۔ اس سب کے باوجود کہ تنظیم اب تک کوئی بڑا اور قابل ذکر کام انجام نہیں دے سکی، حالانکہ کانفرنسیں ہوتی ہی اس لئے ہیں کہ جن امور پر اتفاق ہو یا جن مقاصد کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا جائے، انہیں بعد میں حتی الامکان روبہ عمل لانے کی کوشش کی جائے لیکن اس تعلق سے اب تک مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔حالانکہ ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کو آپریشن یعنی ’’سارک‘‘ نام کی اس تنظیم کا اصل مقصد صرف ایک علاقائی تنظیم بنانا نہیں تھا بلکہ تنظیم سے وابستہ ممالک کے درمیان اول آزادانہ تجارت شروع کرنا اور بے جا روک ٹوک کے بغیر آزادانہ نقل وحمل کی سہولتیں فراہم کرنا تھا لیکن اس بارے میں کارگر پہل اس لئے نہیں ہوسکی کہ سارک کے دو بڑے ممالک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اعتماد کی فضا کا فقدان ہے، یہ ملک ایشیا اور اس سے باہر کے دیگر ملکوں سے تو تجارتی روابط بڑھاتے رہے ہیں لیکن نہایت قریبی ان دونوں ملکوں میں آزادانہ تجارت آج بھی خواب وخیال بنی ہوئی ہے لہذا اس سے آگے کا مرحلہ جو مشترکہ پارلیمنٹ ،یکجا مارکیٹ، جوائنٹ کرنسی، جوائنٹ فیڈریشن کلر ہے اس کی بات کو آگے بڑھانے کی کوئی ہمت نہیں کرسکا؟
سارک سے وابستہ ممالک نے علاقائی تعاون کے جس سفر کا ۳۳برس قبل آغاز کیا تھا، ان میں اسی علاقے کے دو ملک ایران اور میانمار بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ جن کو ملاکر جنوبی ایشا کے ممالک کی تعداد ۱۰ ہوجائے گی اور ان کی متحدہ طاقت پوری دنیا پر اثرانداز ہوگی جو ’’یوروپی یونین‘‘ جیسی تنظیموں کے مقابلہ میںیقیناًکئی گنا زیادہ ہوگی، یہ ممالک معدنی اشیاء بالخصوص گیس، تیل، شمسی توانائی اور پانی سے بجلی پیدا کرنے والے وسائل سے آراستہ ہوگی، یہاں خام لوہا اور بجلی پیدا کرنے کی اتنی صلاحیت موجود ہے جو جملہ دس ممالک کی ضرورتوں کو اگلے سو سال تک پورا کرسکتی ہے، ان ممالک کی زمین افزائش کی صلاحیت سے اتنی مالا مال ہے کہ اناج، پھل، مویشی، دودھ کی معیاری اشیاء پورے خطے کی ضرورت پورا کرسکتی ہیں،مذکورہ ممالک کے درمیان تہذیب وثقافت کابھی گہرارشتہ زمانہ قدیم سے استوار ہے جس کی قدر کرکے اس کا استعمال علاقہ کی غربت اور ایک دوسرے کے مسائل کو حل کرنے میں بہت پہلے سے ہوسکتا تھا لیکن اب تک نہ ہوا تو خیرآگے اس سمت میں موثر پہل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔
سارک کے مذکورہ ممالک کے درمیان اگرکارگر اتحاد ہوجائے ، تجارت ، لین دین اور ایک دوسرے کے دکھ درد میںیہ اپنا کردار ادا کرنے لگیں تو بہت جلد پورے علاقہ کی کایا پلٹ ہوسکتی ہے، ان ممالک کا سیاسی اتحاد بھی بین الاقوامی امور میں دنیا کی بڑی طاقتوں کو اپنے آگے جھکا سکتا ہے اور آئے دن یہاں جس بدامنی بیرونی سازش اور لڑاکر سیاسی مفاد حاصل کرنے کی سازشیں ہوتی رہتی ہیں ان سے بھی نجات مل سکتی ہے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
15ستمبر2018)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا