English   /   Kannada   /   Nawayathi

صدقہ فطرکے مقاصد کو سمجھیں

share with us

گویا صدقہ فطر کے دو مقاصد ہیں ایک روزے کی کوتاہیوں کی تلافی دوسرے امت کے مسکینوں کے لئے عید کے دن رزق کا انتظام۔ لہذا جسے اللہ نے دولت سے نوازا ہے اسے چاہئیے کہ صدقہ فطر کی واجب مقدار پر اکتفانہ کرے بلکہ صدقہ فطر کے مقصد کو ذہن میں رکھ کہ غریبوں کی داد رسی کرے کیونکہ یہی معمول صحابہ کرام? کا تھا چنانچہ ایک حدیث شریف میں ہے کہ عید کی نماز کے بعد صحابہ غریبوں کو صدقہ دیا کرتے تھے اسی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ صدقہ فطر کے علاوہ تھا۔ ایسے ہی ابوداؤ د میں ہے کہ جب حضرت علی? بصرہ تشریف لائے اور یہ دیکھا کہ گیہوں کا بازاری بھاؤ سستاہے تو آپ?نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمہیں مالی اعتبارسے بہتر کردیاہے اس لئے اگر تم صدقہ فطر ہر چیز کا ایک صاع کے حساب سے نکالو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔یعنی گیہوں آدھا صاع یہ واجب مقدار ہے آپ نے اس کا دو گنا نکالنے کی ترغیب دی۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ترجمہ : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیدالفطر کے دن ( کھانے کے غلہ سے ) ایک صاع نکالتے تھے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارا کھانا ( ان دنوں ) جَو ، کشمش ، پنیر اور کھجور تھا۔ (صحیح البخاری،حدیث نمبر:۵۱?۰)
ہندستان میں چونکہ گیہوں سستا اور کھجور ، کشمش، پنیر مہنگے ہیں اس لئے مالداروں کو چاہئے کہ صدق? الفطر ایک صاع( یعنی پونے تین) کلو کھجور ،کشمش یا پنیر سے اداکریں۔ چونکہ مہنگائی کے اس دور میں پچاس روپے میں کیسے غریب کے گھر بھی اچھا کھانا بن پائے گا یا ان کے بچے کیسے ہمارے بچوں کی طرح اچھے کپڑے پہن پائیں گے۔اس لئے کھجور سے ساڑھے تین سوروپے کے حساب سے یا کشمش سے گیارہ سو روپے کے یا پنیر سے سولہ سو روپے کے حساب سے صدقہ فطر نکالنا چاہئے۔
ایسے ہی روزے کا ایک مقصد یہ بتلایا گیا حدیث پاک کے اندر کہ اس سے روزے کے اندر جو جانے یا انجاے میں کوتاہی ہو جاتی ہے، اس صدقہ فطر کی وجہ سے اللہ تبارک تعالی اس کو ختم کردیتے ہیں۔ اس لئے صدقہ فطر اگرچہ صرف صاحب نصاب پر واجب لیکن بہتر ہے کہ غریب بھی نکالے چونکہ روزے کی کوتاہیوں کی تلافی کی ضرورت ظاہر سی بات ہے کو اس کو بھی ہے۔
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ترجمہ: ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ صدق? فطر ایک صاع کھجور یا جو ہے،یہ لازم ہے ہر غلام آزاد، مرد عورت ،بڑے چھوٹے مسلمان پر ، اورآپ? نے حکم دیا کہ یہ (عید کی) نماز سے پہلے ادا کیا جائے۔
مذکورہ احادیث کی روشنی میں صدقہ فطر کے احکام درج کئے جاتے ہیں:
صدقہ فطر ہر مسلما ن عاقل بالغ پر اپنی طرف سے اور اپنی نا بالغ اولاد کی طرف سے واجب ہے۔ صدق? فطرکی مقدار ایک صاع کجھور یا جو ، یا آداھاصاع (ڈیڑھ کیلوچوہترگرام چھ سوچالیس ملی گرام) گیہوں یا اس کی قیمت ہے۔ بالغ اولاد، ماں باپ اور چھوٹے بھائی بہن کاصدق? فطر ہم پرواجب نہیں ایسے ہی بیوی کا صدقہ فطرشوہر کے ذمہ نہیں ہے البتہ اگر کوئی ان کی طرف سے ادا کردے تو ادا ہوجائیگا۔ صدقہ فطر میں بازار بھاؤ کا اعتبا رہوتاہے، کنٹرول یا راشن کی دکان کے ریٹ کا اعتبار نہیں ہے۔ صدقہ فطر عید کے دن عید گاہ جانے سے پہلے نکالنا مستحب ہے۔ لیکن اگر کوئی اس نیت سے کہ غربا ء4 اپنی ضروریات سہولت سے پوری کر سکیں رمضا ن ہی میں صدقہ فطر نکا ل دیتا ہے تویہ بھی درست ہے بلکہ اس نیت کی وجہ سے مزید ثواب کا بھی اسے امید وار رہنا چاہیے۔ صدقہ فطر اور زکوۃ کے نصاب میں فرق یہ ہے کہ زکوۃ میں مال نامی یعنی بڑھنے والا ہونا ضروری ہے مثلا سونا چاندی، پیسہ ، مویشی، مالِ تجارت جبکہ صدقہ فطر میں مال کا نامی ہونا ضروری نہیں۔ مثلا اگر کسی شخص کے پاس ضرورت اصلیہ سے زائد زمین ہواور اسکی قیمت اتنی ہو کہ وہ نصاب یعنی۶۱۲ء4 ۳۶ گرام چاندی (چھ سو ساڑھے بارہ گرام)تک پہنچ جائے تو اس پر صدقہ فطر واجب ہے جبکہ زکوۃ اس پرفر ض نہیں۔صدقہ فطر اگر چہ صرف صاحب نصاب پر فرض ہے، لیکن غیر صاحب نصاب کو بھی اداکرناچاہئے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا کہ صدقہ فطرروزہ کے اندر ہونے والی کو تاہی کو صاف کردیتا ہے، اور ظاہر ہیکہ روزے کو پاک صاف کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے خواہ امیر ہو یاغریب۔ بہتر یہ ہے کہ ایک شخص کا صدق? فطر ایک ہی شخص کو دیا جائے لیکن اگرکئی لوگوں کا ایک شخص کودے دیا گیا تب بھی ادا ہوجائیگا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا