English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا ہم قبلہ اول بیت المقدس کو بھول جائیں گے؟

share with us

ہفتہ اوراتوارکو چھٹی کی وجہ سے عموماً مسجد اقصٰی میں حاضری زیادہ رہتی ہے کہ دیگرشہروں سے بھی لوگ آجاتے ہیں۔ ویسے بھی اس ہفتہ اور اتوار کی درمیانی پہلی شب قدرتھی ،اس لئے مسجد اقصیٰ میں عبادت گزاروں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔جب کچھ عبادت گزاروں نے مسجد میں اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کے داخل ہونے پرتکلیف کا اظہار کیاتو سیاحوں میں شامل دریدہ دہن یہودیوں نے اول فول بکنا شروع کردیا۔ انہوں نے اس مقام پر عبادت کی بھی کوشش کی جہاں ان کو اس کی اجازت نہیں۔اقوام متحدہ کا ثقافتی ادارہ ’یونیسکو‘ نے مسجداقصیٰ اورگنبد صخرہ پر اسرائیلی اور عیسائی دعوے کویکسرمسترد کرچکا ہے اوراس کو صرف ’حرم الشریف ‘ یا ’اقصٰی‘ کے نام سے مسلم مقدس مقامات قراردے چکا ہے۔ چنانچہ ان یہودیوں سے اشتعال انگیزی سے باز رہنے پراصرار کیا گیا،تو تشدد شروع ہوگیااوران کی وہاں موجود اہل اسلام سے جھڑ پ ہوگئی ۔ایسا معلوم ہوتا ہے شرپسند پہلے ہی اس کے لئے ذہن بنا کرآئے تھے۔ اسرائیلی سپاہ نے بھی معتکفین پرحملہ کردیا اور ربر کی گولیاں چلائیں۔کئی مسلم نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔ اس واقعہ میں کوئی درجن بھرروزہ دارزخمی ہوئے۔ لبنان سے شائع ہونے والے ’ڈیلی اسٹارنیوز‘ کے مطابق شردوسرے دن (پیر،27جون ) کو بھی اٹھایا گیا مگرجلد دب گیا۔یہ واقعہ کیونکہ مسجد اقصٰی میں ہوا جو حرم کعبہ اور حرم نبوی ؐ کے بعد ہماری تیسری مقدس ترین مسجد ہے، اس لئے ہمارا ایمانی تقاضا ہے کہ ہم اس شر کا نوٹس لیں اوراپنا احتجاج درج کرائیں۔ اس مرحلہ پر ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کی حوصلہ مندی، جذبہ ایمانی اورتوکل علی اللہ کی بھی داد دیتے ہیں کہ وہ نہتھے ہوتے ہوئے بھی تن تنہا اسرائیلی ظالموں سے لوہا لے رہے ہیں اورہم اس آزمائش سے بے خبر ہیں،جس میں ہمارے یہ دینی بھائی مبتلا ہیں۔(اہل فلسطین کے جذبہ ایمانی سے ہی متاثرہوکرسابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے نسبتی بہن اورچوٹی کی صحافی محترمہ لورین بوتھ نے اسلام قبول کیا۔ یہ داستان ان کی زبانی یوٹیوب پر سنی جاسکتی ہے۔)
جون 1967کو گزرے ابھی 50سال بھی نہیں ہوئے اورایسا محسوس ہوتا ہے امت مسلمہ نے بھلا دیا ہے کہ اس سال کی 7جو ن کو اسرائیل نے چھ روزہ فوج کشی کے دوران ہمارے قبلہ اول ، مقدس شہر القدس پر ناجائز قبضہ کرلیا تھا۔ اسی شہر میں وہ مقام بھی ہے جہاں معراج پر تشریف لیجاتے ہوئے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری رکی تھی اورتمام انبیاء سابق سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہ وہی شہر ہے جوتوحیدی دین ابراہیمی ؑ کا مرکز رہا ہے، بڑی تعداد میں انبیاء کا میدان کار رہا ، جہاں بہت سے رسول و انبیاء اورصالحین کی آخری آرام گاہیں ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ایک پہاڑی پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے وہ عباد ت گاہ بنائی تھی جس کو یہودیوں کی بغاوت کے بعد رومن امپائر کی افواج نے مسمار کردیا تھا اور یہودیوں کو ان کی حرکت پر ذلت آمیز سزادی تھی۔ لیکن جب ایک معاہدے کے بعد سنہ637ء میں حضرت عمرؓ کے دورخلافت میںیروشلم اسلامی مملکت کا حصہ بنا تواہل اسلام نے وہاں آباد یہودیوں اورنصرانیوں کو کوئی گزند نہیں پہچائی۔ حتٰی کہ حضرت عمرؓ نے نمازکے لئے بھی ایک غیر متنازعہ جگہ کا انتخاب کیا، جہاں آج مسجد اقصیٰ کھڑی ہے۔ بدقسمتی سے بعد کے دورمیں اسلامی مملکت کمزور پڑ گئی اورپہلی ہی صلیبی جنگ کے دوران سنہ 1099ء میںیہ شہرمسلم قبضہ سے نکل کرعیسائی تسلط میں چلا گیا، جس کو سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے سنہ 1187ء میں پھر بحا ل کیا۔ لیکن سات جون سنہ1967ء کو یہ مقدس شہرصدیوں بعد پھر یہودیوں کے تسلط میںآگیا ۔سات جون ہرسال آتی ہے اور گزرجاتی ہے اورہماری صفوں میں کوئی اضطراب نظر نہیں آتا، کہیں کوئی جلسہ جلوس ، سیمینار نہیں ہوتا، کوئی مظاہرہ نہیں ہوتا کہ اسرائیل کے پنجہ استبداد سے اس شہر کو چھڑانے کی فکر کی جائے۔
اسی شہر القدس میں وہ احاطہ ہے جس میں مسجد اقصیٰ ہے اور ’قبۃ الصخرہ ‘ہمارا قبلہ اول ہے۔’ قبۃ الصخرہ ‘زرد رنگ وہ عظیم گنبد ہے جو اکثر خبروں اوررپورٹوں میں نظرآتا ۔ یہ ہشت پہلو عمارت اسلامی دورمیں اس پہاڑی پر تعمیر ہے جس کو انگریزی میں’ ٹمپل ماؤنٹ‘ اورعربی میں’ الحرم الشریف‘ کہتے ہیں۔ حضرت سلیمان ؒ نے اسی جگہ ایک عبادت گاہ تعمیر کی تھی جس کو ’ہیکل سلیمانی‘ کہتے ہیں۔ اسی جگہ بعد میںیہودی حکمراں ہادریان نے ایک عبادت گاہ بنوائی جس میں اس نے سیارہ مشتری کے اوراپنے مجسمے لگوائے ۔ یروشلم کے یہودیوں کی بغاوت کو کچلنے کے بعد سنہ 70ء میں رومن ایمپائر کی عیسائی سپاہ نے شاہ کے حکم پران دونوں عبادت گاہوں کو پوری طرح مسمار کردیا تھا۔مفسرین قرآن کہتے ہیں یہی وہ مقام ہے جہاں سفرمعراج کے وقت ، جس کا ذکر سورہ الاسراء (پارہ 15) میں ہے، حضورﷺ کی سواری رکی تھی۔ اوریہی قبلہ اول ہے۔ 
اس سے متصل احاطے میں ایک اورتاریخی یادگار ’قبۃ السلسلہ‘ بھی ہے۔ لیکن شاید ہم میں سے چند کو ہی ان مقدس شہر کی تاریخ اوراس کی اہمیت کا علم ہوگا۔ 6دسمبر 1992کو ہماری بابری مسجد شہید کی گی تھی۔ہرسال چھ دسمبر کو ہم اس کاذکر کرنا نہیں بھولتے۔ سانحہ کربلا 10اکتوبر 680ء کو پیش آیا۔ لیکن کیونکہ ہم عقیدت اور احترام کے ساتھ تسلسل سے اس کا ذکر اورتفصیلات بیان کرتے اورسنتے رہتے ہیں، اس لئے 1336سال بعد بھی یزیدی سپاہ کے ہاتھوں نواسہء رسولؓ اوران اہل خانہ کی شہادت عظمٰی کا واقعہ ہمارے ذہنوں میں تازہ رہتا ہے۔ لیکن اپنے قبلہ اول ، اور تیسری سب سے مقدس مسجد اقصیٰ پر صہیونی اسرائیل کے ناجائز قبضہ کو صرف پچاس سال میں ہی تقریباً فراموش کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ بھی کوئی اسرائیلی سازش ہے؟ ہونا یہ چاہئے کہ اہل اسلام اورحق پسند غیر مسلم بھائی ہرسال 7جون کوپوری شدومد کے ساتھ دنیا کو اسرائیل کی اس سفاکی یاد دلاتے رہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھاتے رہیں کہ اس ناانصافی کو ختم کر نے کی طاقت اورصلاحیت اپنے اندر پیدا کرنی ہوگی ،مگر یہ دن ایسے ہی گزرجاتا ہے جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
یوم قدس
اگرچہ 7جون کو تہ ہم بھول جاتے ہیں، لیکن غنیمت یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے رمضان کے آخری جمعہ کو یوم قدس کا ذکرہونے لگا ہے۔ دوسال قبل ہماری پڑوس کی مسجد اشاعت اسلام میں ڈاکٹرقاسم رسول الیاس نے خطبہ سے قبل ایک ولولہ انگیز تقریر بھی کی۔ لیکن عام طور پر یوم قدس کے موقع پر بھی کوئی خاص جوش و خروش نظرنہیں آتا۔ بیشک بعض ممالک میں اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے لیکن اکثرمقامات پرکچھ بھی نہیں ہوتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شہرالقدس (یروشلم) کی جو اہمیت اسلام میں اوراسلامی تاریخ میں ہے یا تووہ ہم پر واضح نہیں۔یا اس کی بازیابی کے لئے اپنی ذمہ داری کا احساس جاتا رہا ہے۔بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ مسلمانوں کے کسی خاص ملک، مسلک یا مذہب کا معاملہ نہیں۔ یہ پوری امت کا معاملہ ہے۔ میں مکرر عرض کردوں کہ یہ وہ شہر ہے جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد ہمارے لئے سب سے زیادہ مقدس ہے۔ آج اس شہرکا عبرانی یا یہودی نام یروشلم تو عام ہے لیکن اس کا اصل عربی نام القدس یا بیت المقدس کو ہم جانتے سمجھتے بھی نہیں۔
’یوم قدس‘ کی تاریخ یہ ہے کہ اسرائیل نے یروشلم یا القدس پرناجائز قبضہ کے بعد اس پر اپنا حق وراثت جتانے کے لئے، اور یہودیوں کے ذہنوں میں اس تصور کو بٹھانے کے لئے، سرکاری طور پر 1968سے یوم یروشلم منانے کی ابتدا کی۔(اسرائیل پارلیمنٹ نے اس دن کو قومی تہوار کے طور پر منانے کا قانون بعد میں 1998میں پاس کیا۔ ) سنہ1979ء میں رہبرانقلا ب ایران علامہ خمینی ؒ نے اس کے جواب میں عالم اسلام کو اس اہم مسئلہ پر متوجہ رکھنے کے لئے اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہاریگانگت اور صیہونیت کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے رمضان کے آخری جمعہ کو یوم قدس منانے کی اپیل کی۔ہرچند کہ بعض علماء کا قول ہے رمضان کے آخری جمعہ کی فضیلت دیگرجمعہ سے جدا نہیں، لیکن بہرحال اس کی ایک نفسیاتی اہمیت ہے اوربڑی تعداد میں لوگ مساجد میں حاضر ہوتے ہیں۔ دعا واستغفار کا ماحول ہوتا ہے۔ اس لئے اگرہم اپنی دعاؤں میں اپنے فلسطینی بھائیوں اوراپنے قبلہ اول کوبھی یاد رکھیں تو کیا یہ مناسب نہیں ہوگا؟ ہمارے خیال سے جب معاملہ قبلہ اول کے لئے دعا اوراحتجاج کاہو تو کسی کو یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ آواز کہاں سے آئی ، بلکہ اس پر آمین کہنی چاہئے۔
اگرچہ دنیا کے بعض ممالک میں اس دن کچھ نہ کچھ سرگرمی ہوتی ہے، لیکن ہندستان میں کوئی خاص سرگرمی نظر نہیں آتی۔ مناسب ہوگا کہ ہمارے خطیب صاحبان جمعہ کو اپنے خطاب میں جہاں دوسرے معاملات پر توجہ دلاتے ہیں وہیں بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی اہمیت بھی بیان کردیا کریں اورفلسطین پر اسرائیلی مظالم سے مصلیوں کو آگاہ کردیاکریں اوراپنی دعاؤں میں ان مقامات مقدسہ کی بازیابی اوراسرائیل مظالم کے خاتمہ کو بھی یاد رکھیں۔ اللہ بیشک دعاؤ ں کو سننے والا ہے۔ اگرکچھ اورنہیں کرسکتے تو ایک ظالم کے خلاف مظلومین کے حق میں دعا تو کر ہی سکتے ہیں۔ (ختم)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا