English   /   Kannada   /   Nawayathi

معاشی طور پر کمزور مسلم عورتوں کی پریشانیاں

share with us

ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ انہیں گھر کے تمام کام و کاج جیسے کھانا پکانا ،کپڑے دھونا ،جھاڑنا جھوڑنا سب کچھ کر نا پڑ تا ہے ۔کئی جگہ خود عورتوں کو ملازمت کر کے گھر چلانا پڑ تا ہے کیونکہ شوہر بیکار رہتا ہے یا شراب پی کر سویے رہتا ہے یا بیوی کے حاملہ ہو نے پر بغیر اجازت دوسری شادی کر کے الگ رہنے لگ جاتا ہے اور اپنی پہلی بیوی اور بچے کی ذمہ داری سے دستبردار ہو جا تا ہے،یہ وہ تکلیف دہ سچائیاں ہیں جنہیں ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔اسکالر شپ دینے والے ایک ادارے سے تعلق رکھنے کے سبب میں دن رات ایسے نظارے دیکھتا اور سنتا رہتا ہوں۔ 90 فیصد معاملات میں عورتیں ہی اپنے بچوں کو اسکالر شپ دلانے کے لئے جد و جہد کر تی ہیں جبکہ مرد اس پر بلکل توجہ نہیں دیتے۔ایک کیس ایسا بھی دیکھنے کو ملا جسمیں باپ جو آٹو ڈریور تھا اس نے اپنے بیٹے کی پڑھائی کے لئے ایک روپیہ بھی دینے سے انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ اگر تم اسے پڑھا نا چاہتی ہو تو تم خود اسکا خرچ برداشت کرو۔چناچہ وہ عورت گھر گھر جا کر کام کر نے لگی اور اسکالر شپ دینے والے اداروں کے چکر لگاتی رہی۔ایسے حالات میں بچوں کا غلط راستوں پر نکل جا نا کوءئی عجیب بات نہیں ہے۔یہی سبب ہے کہ آپکو غریب مسلم علاقوں میں مسلم بچے اور نوجوان غیر غلط حرکتیں کر تے ہوے ،گالیاں بکتے ہوے ،سگریٹ نوشی کر تے ہوے اور وہ سب کچھ کر تے ہوے ملیں گے جو معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے۔جب باپ ہی ایسے ماحول میں پروان چڑھا ہے تو اس سے یہ امید کر نا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھا ماحول دیگا غلط ہے۔یہی کہانی نسل در نسل چلی آ رہی ہے ۔ایسے ماحول میں پل کر جوان ہو نے والے بچے نہ اپنی ماں کی عزت کر تے ہیں اور نہ ہی اپنی بیوی کی اور اگر عورت کمزور ہو تی ہے تو اسکے ساتھ مارا پیٹی بھی کر تے ہیں ۔درمیانی طبقہ سے تعلق رکھنے والی عورتیں بھی بہت حد تک ایسے ہی ماحول سے گزر تی ہیں۔وہ اپنی فیمیلی کی خوشحالی کے لئے دن رات کوشش کر تی ہیں ۔جہاں تک مالدار طبقہ کا سوال ہے وہاں عورتوں کو خاص مقام ،عزت اور اہمیت دی جا تی ہے ۔ہمارا معاشرہ غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے مسائل کو ہمیشہ سے نظر انداز کر تا چلا آ رہا ہے۔ہمارے علماء ،ہمارے ادارے ،ہمارے سوشیل ورکرس ،ہمارا اوقافی دارہسب کے سب پر مردوں کا قبضہ ہے۔میں نے قریبا تیس سال ایک سرکاری افسر ہو کر ریٹایر ہو نے کے ناطے اور محکمہ اوقاف،میناریٹی کمیشن اور حج کمیٹی میں برسوں کام کر نے کے بعد محسوس کیا ہے کہ ہمارے ہاں عورتوں کے مسائل کو سننے اور انہیں حل کر نے کے لئے نہ کوئی میکانزم ہے اور نہ ہی وہ سوچ ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے جان بوجھ کر یا انجانے میں مسلمانوں کی آدھی آبادی جو عورتوں پر مشتعمل ہے اسے معاشی،ترقیاتی ،معاشرتی اور مذہبی معاملات میں نظر انداز کر دیا ہے۔اس طرح جو ہم صرف مردوں کو ہر میدان میں نشانہ بنا کر کام کر نے میں لگے ہیں اس سے ہماری ترقی کافی حد تک رکی ہوی ہے اور ہم اس رفتار سے ترقی نہیں کر رہے ہیں جس تیز رفتاری سے ہمیں ترقی کر نا چاہیے تھا۔اکثر ایسا ہی ہو رہا ہے ۔مثال کے طور پر آپ کرناٹک کے تیس ہزار اوقافی اداروں کو لے لیجیے وہاں ایک ادارے میں بھی ٓعورت متولی نہیں ہے اور ڈسٹرکٹ وقف مینیجنگ کمیٹی میں عورتیں نہیں ہیں جبکہ قانون میں ایسی کوئی کلاز نہیں ہے۔تاریخ اسلام گواہ ہے کہ عورتیں حضرت محمدؐ کے ساتھ جنگوں میں شرکت کر تی تھیں ۔ہمارے علماء اپنے خطبات میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کے کئی احادیث بیان کر تے ہیں مگر کتنی مساجد کی کمیٹیاں ہیں جو دینی علم رکھنے والی عورتوں کو مساجد میں خطبے دینے کی اجازت دے رہے ہیں ۔خلیفہ عمرؓایک صحابیہ حضرت شفا بنت عبد اللہ کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ کئی مرتبہ سیاسی معاملات میں اور حکومتی معاملات میں ان سے رائے مشورہ کر تے تھے۔آپ اکثر انہیں ملکی تجارت اور سوداگری کے معاملات کی ذمہ داری سونپا کر تے تھے۔حضرت محمد ؐ کے زمانے میں عورتیں سرجری ،تجارت،سوداگری،شعر و شاعری اور ادویات میں ماہر ہو تی تھیں اور اس مہارت کا فائیدہ تمام مسلمان حاصل کر تے تھے۔ان حالات میں ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرح عورتوں کو انکے مسائل حل کر نے کے سلسلے میں مدد کر سکتے ہیں۔غیر مسلموں نے اپنے درمیان مہیلا ویلفیر آرگنائزیشن قائم کیے ہیں جو عورتوں کے مسائل کو لے کر بہت سر گرم ہیں۔اگر کسی عورت پر ظلم ہو تا ہے تو وہ فورا وہاں پہنچ جا تے ہیں اور نہ صرف پولیس پر دباو بنا تے ہیں بلکہ میڈیا میں بھی اس ظلم کو اجاگر کر تے ہیں ۔یہ ادارے ذات پات دیکھے بغیر ہر مظلوم عورت کے لئے اٹھ کھڑے ہو تے ہیں اور انکی مدد کرنے پہنچ جا تے ہیں ۔ہم مسلمانوں نے اس سلسلے میں آج تک کوئی کام نہیں کیا ہے حالنکہ ہمارے درمیان بھی سنگین مسائل ہیں اور انکے حل کے لئے کوشش کر تے رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ان مسائل کو حل کر نے کے لئے ہمیں چاہیے کہ سب سے پہلے چند مساجد میں عورتوں کی ویلفیر کمیٹیاں قائیم کریں ۔ ان کمیٹیوں کو چاہیے کہ مسجدوں کے وسائل کو استعمال کر تے ہوے نماز کے بعد کے اوقات میں انکا استعمال کریں ۔ان عورتوں کی کمیٹیوں میں عورت اڈوکیٹس،سوشیل ورکرس،پروفیسرس،ڈاکٹرس،انجنیرس اور مذہبی عورتوں کو ممبر شپ دیں تاکہ وہ عورتوں سے تعلق رکھنے والے تمام مسائل پر غور و خوص اور ڈبیٹ کریں اور انکے حل تلاش کریں۔ مسجد کے اطراف رہنے والی عورتوں کو موقعہ ملے کہ وہ اپنے مسائل اس کمیٹی کے سامنے پیش کریں ۔کمیٹی کو اس بات کا اختیار بھی ہو نا چاہیے کہ وہ اپنے آپ سے کچھ مسائل میں بغیر کسی کے شکایت کر نے کے مداخلت کر سکیں۔شہر بنگلور میں غیر مسلموں کے چار ہیلپ لائن موجود ہیں جو مشکل میں پھنسے لوگوں کی مدد کر تے ہیں۔کرناٹک میں مسلمانوں کا صرف ایک ہیلپ لائن ہے جو بنگلور کے ٹیانری روڈ میں آسرا نامی ادار ہ فون نمبر5 151سے چلا رہا ہے جسکی سرپرستی محترمہ ساجدہ بیگم کر رہی ہیں۔ ہمیں فوری طور پر ہر شہر میں ایک اور بنگلور جیسے بڑے شہر میں دار القضاوں کے زیر انتظام چار ہیلپ لائن قائم کر نا ہے ۔اسی طرح بنگلور میں الامان ویلفیر ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک بزرگوں کا گھر آشیانہ کے نام سے جناب محمد فاروق چلا رہے ہیں جبکہ بنگلور جیسے بڑے شہر میں غیر مسلموں کے پانچ ایسے گھر ہیں ۔ یہ ادارے مالی مدد کے بھی مستحق ہیں۔ کرناٹک کے کچھ دانشورون نے مسلمانوں کے ایسے سنگین مسائل پر غور و خوص کر نے کے لئے اور انکے حل تلاش کر نے کے لئے ایک ادارہ "ویژن کرناٹکا "قائم کیا۔اس ادارے نے کئی مساجد کو خطوط لکھے کہ وہ اس طرح کی ویمن ویلفیر کمیٹیاں قائم کریں اور عورتوں کو وہاں کام کر نے کا موقعہ دیا جائے۔ اگر مسائل پر غور و خوص ہوا تو انکا حل بھی نکل آئے گا ۔"ویژن کرناٹکا "کو یقین ہے کہ اگر عورتوں کو موقعہ دیا گیا تو وہ یقیناًاپنے مسائل اپنے آپ سلجھا لیں گے ۔ہمارے مسلم معاشرے میں بیشمار ایسی عورتیں ہیں جو اس رول کو بخوبی نبھا سکتے ہیں ۔ویژن کرناٹکا مسجد کمیٹیوں سے گزارش کر تا ہے کہ وہ اس سلسلے میں پہل کریں اور ہر محلے کی ایک مسجد میں ایسی کمیٹی قایم کریں اور اس طرح ہر ریاست کے مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ بنے۔ویژن کرناٹکا نے مسلمانوں کا ایک دیرینہ مسلہ لیڈر شپ کے فقدان کو جناب روشن بیگ صاحب ، وزیر حج اور شہری ترقیات کو اپنا لیڈر اور ترجمان مان کر حل کر لیا ہے ۔ امید ہے کہ دوسری ریاستوں میں بھی مسلمان کسی نہ کسی کو اپنا لیڈر مان کر کامیابی کا راستہ اپنائیں گے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا