English   /   Kannada   /   Nawayathi

جدیددنیا کا اخلاقی زوال اور قرآنی تعلیمات

share with us

ان میں کچھ پیغامات یوں ہوتے ہیں کہ ’’ہیلو! میں پریتی ہوں۔ تنہا ہوں اور آپ کا ساتھ چاہتی ہوں‘‘ ہیلو میں پرینکا ہوں ،میری عمر انیس سال ہے ،میرا کوئی ساتھی نہیںآپ سے دوستی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ اس قسم کے پیغامات صرف میرے پاس نہیں آتے ہمارے ملک میں کروڑوں لوگوں کو بھیجے جاتے ہیں، جو ظاہر ہے ان گروہوں کی طرف سے بھیجے جاتے ہیں جو آن لائن جسم فروشی کے لئے گاہکوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ایسے نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کی بھی کمی نہیں جو مرد و خواتین کو ملانے کا کام کرتے ہیں۔ فیس بک جو بظاہر عوام کے لئے ہے مگر اس کا استعمال بھی ایسے کاموں کے لئے دھڑلے سے ہوتا ہے۔ اصل میں یہ سب ہمارے سماج کے اخلاقی دیوالیہ پن کی ایک مختصر تصویر ہے۔ یہ باتیں سماج میں اس قدر عام ہوچکی ہیں کہ ہم کبھی ان کی جانب سنجیدگی سے نظر بھی نہیں ڈالتے۔خاص طور پر شہروں کے لوگ تو اس کے عادی ہوتے ہیں۔ یہ کلچر نہ برصغیر ہندوپاک کا ہے اور نہ ہی ایشیا میں اسے کبھی اچھا مانا گیا ہے۔ یہ مغرب سے امپورٹیڈ ہے اور جس طرح سے ہمارا مغرب سے مرعوب ذہن ہر مغربی چیز کو دیسی چیز سے بہتر مانتا ہے، اسی طرح مغربی تہذیب کو بھی تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔مغرب میں بنی ہوئی اشیاء ہی نہیں وہاں کی موسیقی، فلمیں،اشیاء خوردنی مثلاً چاکلیٹ، کولڈ ڈرنکس، پزا، برگر وغیرہ بھی ہمیں اس لئے اچھی لگتی ہیں کہ وہ بیرون ملک سے درآمد شدہ ہیں۔ ہم دیسی چیزوں کو بھی تب اچھا مانتے ہیں جب مغرب اس کی اہمیت کو تسلیم کرلیتا ہے۔ہمارا بالکل یہی نظریہ مغربی کلچر کے معاملے میں بھی ہے۔ مغرب نے ہمیں جو کچھ دیا ہے اس میں سب سے زیادہ
ہلاکت خیز ہے جنس زدہ کلچر۔
مغرب کا شہوانی کلچر
مغربی تہذیب جنسی معاملے میں بالکل آزاد ہے۔ اس کی نگاہ میں عفت وعصمت کا تصور باقی نہیں رہا۔ یہاں انسان ایک مہذب سماجی جانور ہے جو جنسی معاملات میں بھی دیگر جانداروں کی طرح آزاد ہے۔ بس اتنا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کسی کے ساتھ جنسی تعلق اس کی مرضی کے بغیر نہ ہو۔ یہاں ریپ اسی کو مانا جاتا ہے جس میں ساتھی کی رضاشامل نہ ہو۔ یہی سبب ہے کہ مغربی ملکوں میں پیدا ہونے والے بیشتر بچے بغیر شادی کے ہی پیدا ہوتے ہیں۔یہاں بن بیاہے جوڑوں کی تعداد میں روزبروزاضافہ ہوتا جارہا ہے اوربوائے فرینڈ و گرل فرینڈ کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ لوگ شادی کر کے ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں اور کسی ایک کے ساتھ بندھ کر رہنا نہیں چاہتے۔ امریکہ کے سابق صدر بل کلینٹن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ’ امریکہ میں ہر تیسرا شخص بغیر شادی کے پیدا ہوا ہے۔‘ یہی مغربی تہذیب ہمارے ملک میں بھی فروغ پارہی ہے اور پورے ایشیا کو اپنی گرفت میں لیتی جارہی ہے۔ مسلم معاشرہ بھی اس سے الگ نہیں ہے۔ جس طرح ہماری نئی نسل پزا، برگر اور پاپ موسیقی کی دیوانی ہے اسی طرح اسے مغرب سے درآمد شدہ شہوانی کلچر بھی بھارہا ہے۔ آج جو ہمارے ملک میں ریپ کی وارداتیں بڑھی ہیں اس میں اس کلچر اور سوچ کا بھی یوگدان ہے۔ ابھی معاشرہ بدلاؤ کے دور میں ہے۔ ایک طرف ہماری پرانی تہذیب دم توڑ رہی ہے تو دوسری طرف نئے کلچر کی آمد آمد ہے لہٰذا ہم نے مغربی معاشرے کی خرابیوں کو تو اپنا نا شروع کردیا ہے اور اس کی اچھائیوں کو نہ اپنا سکے ہیں۔ مسلمان بھی اس طوفان میں بہتے جارہے ہیں اور اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہوکر مغربی تہذیب سے متاثر ہورہے ہیں:
سمجھو تو بڑی چیز ہے تہذیب بدن کی
ورنہ یہ بدن آگ بجھانے کے لئے ہے
قرآنی معاشرہ
قرآن کریم کی تعلیمات انسان کو اخلاقی دیوالیہ پن سے بچانے کا کام کرتی ہیں۔ جو معاشرہ قرآن کریم کے احکام کے مطابق فروغ پائے گا، اس میں انسان کی کچھ اخلاقی ذمہ داریاں ہونگی۔وہ ایک سماجی جانور نہیں بلکہ دنیا میں اللہ کا نائب ہوگا جو اس کے حکم کے مطابق زندگی گذارے گا۔قرآن ایسے سماج کو قبول نہیں کرتا جس کے افراد سماجی اور اخلاقی قدروں کا احترام نہ کریں۔وہ ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے جس میں ہر شہری ذمہ دار ہو اور ایک دوسرے سے مربوط ہو۔ وہ ایک دوسرے سے خود کو الگ نہیں سمجھیں کیونکہ وہ تمام انسانوں کو ایک ہی ماں باپ کی اولاد مانتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا فرمایا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا فرمایا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلائے، اور ڈرتے رہواللہ سے جس کے حوالے سے تم سوال کرتے ہوباہم، اور قرابت والوں سے ۔بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔‘‘( النساء،آیت ،۱)
سماجی انارکی کا حل
اسلام کی نظر میں معاشرہ بے حد اہمیت کا حامل ہے ، لہٰذا اسے ٹوٹ پھوٹ سے بچانا ان سبھی لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اس میں رہتے سہتے ہیں۔ اسی طرح اگر سماجی سسٹم ٹھیک ہوگا تو خاندانی نظام کو بہتر طریقے سے چلایا جاسکتا ہے،کیونکہ خاندانی نظام پر ہی انسانی معاشرے کا دارومدار ہے۔ جانوروں میں بھی یہ طے ہوتا ہے کہ بچوں کی پرورش کون کرے گا،مگر مغربی معاشرے نے اخلاقی دیوالیہ پن کے سبب جس سماجی انارکی کو جنم دیا ہے اس میں بچوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری بھی طے نہیں ہوپاتی۔ اسی طرح وہاں یہ بھی طے نہیں ہوپاتا کہ بزرگ والدین کی دیکھ بھال کون کریگا؟یہی وجہ ہے کہ یہاں بچوں کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داریاں سرکار اور بعض سوشل اداروں پر آپڑی ہے۔ یونہی بزرگوں کی پناہ گاہیں یعنیOld age homesمیں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سماج میں جو ٹوٹ پھوٹ آئی ہے اس کا ایک بڑا سبب زنا کاری کی عمومیت بھی ہے۔ جو سماج صرف جنسی لذت کے لئے ہمبستر ہوتا ہو اور اس کے فطری نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہ ہو، اس میں یہ بکھراؤ لازمی ہے۔ یہاں اسی ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے کے لئے Live In Relationکو فروغ دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ہم جنس پرستی کو بھی قانونی طور پر جواز فراہم کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ’’سماجی جانور‘‘ جنسی لذت بھی حاصل کرلے اور ذمہ
داریوں سے بھی بچا رہے۔ قرآن کریم نے بغیر شادی کے جنسی عمل کو گناہ عظیم قرار دیا ہے۔شادی کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس کے فطری نتائج کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار ہے، اور اس بچے کی پرورش و پرداخت کی ذمہ داری اس کے سر آئے گی جو ان کے جنسی تعلق کے نتیجے میں وجود میں آئے گا۔ یونہی بچہ بھی اپنے والدین کی خدمت اور دیکھ بھال کے لئے ذمہ دار ہوگا۔ زنا خاندانی نظام کا سخت ترین دشمن ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا:
’’اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، بیشک وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل،آیت ۳۲)
زنا سے نہ صرف بے حیائی اور بدکاری میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ نسب میں بھی خلل پڑتا ہے۔ کوئی شخص اپنے بچے کی پرورش کے لئے تو ذمہ دار ہے مگر وہ دوسرے کے بچے کی دیکھ بھال اور وراثت میں حقدار بنانے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ زناکے سبب نہ صرف میاں، بیوی میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور اس کے اثرات ان کے اخلاق و کردار پر پڑتے ہیں بلکہ سماجی ذمہ داری میں بھی خلل آتا ہے۔ جنسی عمل ایک چھوٹے سے وقفے کے لئے ہوتا ہے مگر وہ دائمی لعنت کا سبب نہ بن جائے لہٰذا زنا سے قرآن کریم نے روکا ہے۔ 
اخلاقی دیوالیہ پن کا اسلامی حل
قرآن کی نظر میں شادی کے بغیر جنسی تعلق گناہ اور زنا ہے۔ جب کہ آج کی دنیا اباحیت کو قانونی طور پر جائز ٹھہراتی ہے۔ یعنی اگر عورت کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ جنسی عمل ہوتو وہ ریپ ہے اور اس کی مرضی کے ساتھ ایسا ہوتو اس میں کچھ بھی غلط نہیں۔ یہ قانون اب تقریباً پوری دنیا میں رائج ہے مگر قرآن کی نظر میں زنا تو زنا ہے۔ خواہ زبردستی ہو یا رضامندی سے ہو۔ وہ نکاح پر زور دیتا ہے جو اس کی نظر میں جنسی عمل کا جائز طریقہ ہے۔ وہ رانڈوں ،بیواؤں اور غلاموں و باندیوں کو بھی نکاح کرنے کا حکم دیتا ہے اور جو لوگ مالی اعتبار سے کمزور ہوں انھیں بھی نکاح کا حکم دیتا ہے:
’’ اوراس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری صنف سے تمہارے لئے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت و رحمت رکھی۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں غور وفکر کرنے والوں کے لئے۔‘‘ (الروم،۲۱)
’’اور اپنے درمیان موجود رانڈوں کا، اپنے نیک غلاموں اور باندیوں کا نکاح کردو اگر نادار ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا، اور اللہ وسعت والا اور علم والا ہے۔‘‘ (النور،آیت۳۲)
اس سلسلے میں رسول اکرم ﷺ کی زندگی بھی نمونہ عمل ہے کہ آپ نے نہ صرف خود نکاح فرمایا بلکہ اپنی اولاد، رشتہ دار اور ساتھیوں کو نکاح کا حکم دیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔ مجالس نکاح میں آپ خود شریک ہوا کرتے تھے ۔ چنانچہ ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
’’اے نوجوانو! تم میں سے جو بھی طاقت رکھتا ہے اسے شادی کرلینی چاہئے۔ اس لئے کہ نکاح ، نگاہ کی پاکی اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور جس کے پاس شادی کرنے کے لئے استطاعت نہیں ہے اسے روزہ رکھنا چاہئے، یہ اس کے لئے محافظ ہے۔‘‘ (ابوداؤد، کتاب النکاح) 
قرآن کریم نے زانی اور زانیہ کے لئے سخت سزا مقرر کی ہے اورسرِ عام اس کے نفاذ کا حکم دیا ہے تاکہ دوسروں کو بھی اس سے عبرت حاصل ہوسکے۔ یہ تمام اقدامات انسان کو اخلاقی دیوالیہ پن سے بچانے اور سماج کو ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ رکھنے کے لئے کئے گئے ہیں۔ان کا مقصد عورتوں کی حفاظت بھی ہے، حالانکہ ان سزاؤں اور شرعی احکامات کا پاکستان اور سعودی عربیہ جیسے ملکوں میں بعض اوقات خود عورتوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ آج جو ہمارے ملک میں ریپ کا طوفان آگیا ہے اوربھارت میں ہر بیس منٹ پر ایک ریپ کی واردات ہورہی ہے اس کی روک تھام میں قرآنی احکام سے مدد لی جاسکتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا