English   /   Kannada   /   Nawayathi

دلتوں،غریبوں اورکمزوروں کے حقوق کا محافظ قرآن کریم

share with us

بعض مسائل کو قرآن نے نہیں بیان کیا ہے مگر جو زیادہ ضروری مسائل ہیں ان کے احکامات بیان کردیئے گئے ہیں، چنانچہ کمزرو طبقات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس سے ان کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اب ان میں دنیا کے لوگوں کو کسی قسم کا کنفیوژن نہیں رہناچاہئے۔ کمزور طبقات کی مختلف قسمیں ہیں اور قرآن نے ان سبھی کے حقوق کو بیان کیاہے‘ مگر ہم یہاں صرف چند کمزور طبقات کا ذکر کرتے ہیں۔
یتیم کے حقوق
کم عمر اور ناسمجھ بچے اپنے جسم اور دماغ دونوں سے کمزور ہوتے ہیں‘ اسی لئے ان کی ذمہ داری ان کے والدین پر ہوتی ہے جو، ان کی پرورش وپرداخت کرتے ہیں اور تعلیم وتربیت سے سنوارتے ہیں۔ یہ بچے اگر اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو جائیں یا کسی بچے کی ذمہ داری اٹھانے والا باپ ہی دنیا میں نہ رہے‘ تو عموماً ایسے بچوں کی پرورش اور تربیت درست طریقے پر نہیں ہوپاتی۔ ایسے بچوں کی ایک بڑی تعداد گھریلو صنعتوں‘ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کرتی ہوئی ملتی ہے۔ ان میں ایسے بچے بھی ہوتے ہیں‘ جو یتیم نہیں ہوتے پھر بھی والدین غربت کے سبب انہیں اسکول بھیجنے کے بجائے کام پر لگا دیتے ہیں۔ حکومت بچہ مزدوری کے خلاف محض قانون بناکر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی ہے اور ملک کا مستقبل تباہ ہوتا رہتا ہے۔ قرآن مجید نے خاص تاکید فرمائی ہے کہ یتیموں کا حق ادا کیاجائے‘ ان کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے اور ان کے مال پرقبضہ نہ کیاجائے۔ ارشاد ربانی ہے:
’’ جو یتیم ہے اسے مت دباؤ‘‘( سورۃ الضحیٰ‘آیت9) 
دوسری جگہ حکم الٰہی ہے:
’’اور یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو‘ مگر اس طریقہ سے‘ جو اس کے حق میں بہتر ہو(سورۃاسراء آیت 34) 
دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں‘ جو ظلم وزیادتی سے یتیموں اور بے سہارا بچوں کے حقوق چھین لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آخرت کے عذاب سے ڈرایاگیا اور فرمایاگیا:
’’جولوگ ظلم وزیادتی سے یتیموں کا مال ہڑ پ کر رہے ہیں‘ وہ تو بس اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے‘‘ (سورۃ انساء ‘آیت 10)
مذکورہ آیات کے علاوہ بھی قرآن میں بہت سے مقامات پر یتیموں کے مال سے دور رہنے کی تاکید آئی ہے اور ان کے اموال پر زبردستی قبضہ کرنے پر جہنم کے عذاب کا خوف دلایاگیا ہے۔ یتیموں کے زمرے میں وہ بچے بھی آتے ہیں‘ جن کے والدین زندہ تو ہیں‘ مگر کسی مجبوری کے سبب اپنے بچوں کے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتے۔
مسکین کے حقوق
ہمارے سماج میں ایک کمزور طبقہ ایسا بھی پایاجاتا ہے‘ جو کم سن بچہ تو نہیں‘ مگر اپنی ناداری اور غربت کے سبب قابل رحم حالت میں زندگی بسر کر رہاہے۔ اس طبقے کو مسکین کہہ سکتے ہیں‘یعنی ایسا غریب انسان‘ جس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ نہ تو ایک وقت کا کھانا ہے اور نہ ہی بدن چھپانے کے لئے لباس‘ ایسے انسان کو مال زکوٰۃ کا مستحق قرار دیا گیاہے اور زکوٰۃ کے مستحق سات طبقات میں قرآن نے اسے بھی شمار کیا ہے۔ یعنی یہ وہ طبقہ ہے‘ جس کا حق ہر صاحب ثروت مسلمان کے مال میں ہے۔ اگر مالدار شخص اپنے مال سے اس کی مدد نہیں کرتا‘ تو اللہ کی بارگاہ میں اس سے باز پر س ہوگی۔ قرآن نے ایسے شخص کی تحسین کی ہے‘ جو مسکینوں کو کھاناکھلاتا ہے‘ چنانچہ فرمایاگیا:
’’اور وہ مسکین کو کھاناکھلاتے ہیں‘‘۔
مسکینوں کے حقوق نہ ادا کرنا قانون الٰہی کی نظر میں جرم عظیم ہے اور اس کے لئے جہنم کے عذاب کی خبر دی گئی ہے۔قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا:
’’اس کو پکڑو‘ پھر اس کی گردن میں طوق ڈالو‘ پھر اس کو جہنم میں جھونک دو۔ یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور نہ مسکینوں کے کھلانے پر لوگوں کو ابھارتا تھا‘‘۔ (الحاقہ‘آیت 30-34)
اوپر صرف چند آیات قرآنیہ کا مفہوم بیان کیاگیاہے۔ ان کے علاوہ بھی قرآن میں جگہ جگہ مسکین اور سماج کے کمزورو پسماندہ طبقات کے حقوق کی تاکید آئی ہے۔
فقیر کے حقوق
فقیر ایسے شخص کو کہتے ہیں‘ جس کے پاس بہت کم دولت ہو۔ اتنی کم کہ اس کی اور اس کے گھرگرہستی کی ضرورتیں پوری نہ ہوسکیں ۔ غریبی کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں۔ بعض اوقات اچھے خاصے مالدار لوگ بھی رفتار زمانہ کے سبب غریب ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گجرات کے فسادات سے متاثرہ خاندانوں کو ہی دیکھاجاسکتا ہے‘ جن کے پاس بڑے بڑے شوروم تھے اور بڑی دولت کے مالک تھے‘ فسادات کے نتیجے میں سڑکوں پر آگئے۔ ان کے بچوں کو مجبوری میں کیمپوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس طرح جولوگ مکہ معظمہ میں صاحب ثروت تھے‘ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہجرت کرکے مدینہ شریف چلے آئے‘ وہ غریب ہوگئے تھے۔ قرآن مجید نے غریبوں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے اور ایسے لوگوں کو صدقہ دینا بھی جائز ہے۔ قرآن میں ان کے حقوق کے تعلق سے فرمایاگیا :
’’یہ ان فقیروں کے لئے ہے‘ جو خدا کی راہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ زمین میں کاروبار کے لئے نقل وحرکت نہیں کرسکتے۔ بے خبر، خود داری کے سبب ان کو غنی خیال کرتا ہے۔ تم ان کو ان کی صورت سے پہچان سکتے ہو‘ وہ لوگوں سے لپٹ کر نہیں مانگتے۔ 
(سورۃالبقرہ‘آیت 273)
اصل میں یہ وہ سادہ پوش افراد ہیں‘ جو اپنی غربت کو سفید پوشی کی چادر میں چھپائے رہتے ہیں۔ ان کی ضرورتیں پوری نہیں ہوپاتیں‘ مگر شرم وغیرت کے سبب کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلاپاتے۔ ایسے لوگ بھی انہیں کمزور طبقات میں شمار ہوتے ہیں‘ جن کی مدد کی تاکید قرآن کریم میں آئی ہے۔
مسافر کے حقوق
قرآن مجید نے مسافروں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ مسافر وہ شخص ہے‘ جو حالت سفر میں ہے اور اپنے گھر وخاندان سے دور ہے۔ وہ اپنے گھر میں ممکن ہے مالدار ہو‘ مگر حالت سفر میں وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔ آئے دن میڈیا میں مسافروں کے لٹنے کی خبریںآتی رہتی ہیں۔ ٹرینوں میں چوروں کے گروہ بے ہوشی کی دوائیں کھلاکر انہیں لوٹ لیتے ہیں۔ یہ بیحد افسوسناک پہلو ہے۔ عہد قدیم میں قافلے لوٹے جاتے تھے اور ڈاکوؤں کے گروہ ویرانوں میں پناہ لئے ہوتے تھے‘ مگر آج دور بدل چکا ہے‘ تو لٹیرو ں کے طریقے بھی بدل چکے ہیں۔ البتہ قرآن کریم کے احکام ہر دور کے لئے ہیں۔ فرمایاگیا:
’’ کہہ دو‘ جو مال تم خرچ کرتے ہو‘ وہ والدین‘ قرابت داروں‘ یتیموں‘ مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے۔(سورۃ البقرہ215/)
’’اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اوروالدین‘ قرابت داروں‘یتیموں‘ مسکینوں‘ پڑوسیوں‘ اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘۔ (سورۃالنساء آیت 36)
مذکورہ آیات میں مسافروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیاگیا ہے ۔ اسی کے ساتھ والدین‘ رشتہ دار‘ یتیم‘مسکین اور پڑوسی کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرنے کا حکم ہے۔ حسن سلوک کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس میں غوروفکر کرناچاہئے۔
کمزور طبقات کی فہرست
کمزور طبقات کی فہرست بہت لمبی ہے۔ قرآن مجید نے ان میں سائل‘ غلام ونوکر‘ مقروض‘ قیدی اور محروموں کو شمار کیا ہے اور ان کے حقوق کی
طرف سماج کو متوجہ کیا ہے۔ اس مضمون میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ سب کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاجائے۔ اگر قرآنی احکام کو سمجھ کر پڑھا جائے اور ایمانداری کے ساتھ انہیں زندگی میں اپنا لیاجائے ‘تو سماج میں کوئی بھی فرد کمزور اور پسماندہ نہ رہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا قرآنی احکام سے ناواقف ہے اور مسلمان بھی اس کی صرف رسمی تلاوت کرتے ہیں کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا