English   /   Kannada   /   Nawayathi

قمرالاسلام سے ناانصافی۔مسلمانوں کی توہین

share with us

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چالیس برس کے دوران اپنے سیاسی کیریئر میں 11میں سے سات الیکشنوں میں کامیاب ہوئے۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم رہا کہ سیاسی جماعتوں کو قمر صاحب کی ضرورت رہی اور قمر صاحب کسی بھی سیاسی جماعت سے مقابلہ کیا‘ کامیاب رہے۔
وہ مسلم لیگ، جنتادل، کانگریس سے منتخب ہوئے۔ وہ چھ مرتبہ ایم ایل اے، ایک مرتبہ رکن پارلیمان اور دو مرتبہ کرناٹک کے کابینی وزیر رہے۔ پہلی بار ایس ایم کرشنا کی کابینہ میں ہاؤزنگ، لیبر، اسمال اسکیل انڈسٹریز اور حج کی وزارت قلمدان انہیں تفویض کئے گئے تھے جبکہ مسٹر سدارامیا کی موجودہ حکومت میں انہیں میونسپل اڈمنسٹریشن، پبلک انٹرپرائزز، مائناریٹی ویلفیر کے قلمدان دےئے گئے ہیں۔ کرناٹک مائناریٹی ڈیولپمنٹ کارپوریشن، مائناریٹی ڈائرکٹوریٹ، اردو اکیڈیمی اور مائناریٹی کمیشن انہی کے تحت ہے۔ جناب قمرالاسلام نے بتایا کہ 1998ء میں چیرمین کرناٹک مائناریٹی کمیشن کی حیثیت سے انہوں نے کرناٹک اسٹیٹ ایکشن پلان حکومت کرناٹک کو پیش کیا تھا جس میں اقلیتیوں کی تعلیمی، معاشی، ثقافتی، ترقی، معیاری زندگی کو بلند کرنے کے لئے ایک ایکشن پلان شامل تھا جس میں مسلمانوں سے متعلق تمام محکموں پر مشتمل مائناریٹی ویلفیر منسٹری کی تجویز پیش کی تھی۔ اس ایکشن پلان کو 1999ء میں اس وقت کے وزیر فینانس (موجودہ چیف منسٹر) مسٹر سدارامیا نے قبول کیا تھا۔
جناب قمر الاسلام نے اپنی کارکردگی اور اپنی خدمات اور کامیابی کا سہرا ہمیشہ سدارامیا کے سر باندھا اور سدارامیا نے قمر صاحب کو وزارت میں دوبارہ شامل نہ کرکے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی کیوں کہ قمر صاحب کے ساتھ جو سلوک کیا گیا‘ اس سے حیدرآباد، کرناٹک کے مسلمان اور وہ لوگ جنہیں اردو سے محبت ہے‘ اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اور علاقہ حیدرآباد، کرناٹک کے علاقہ میں کانگریس اب یقینی طور پر دفن ہوجائے گی۔ یوں تو سدارامیا نے قمر صاحب کی بجائے سابق وزیر عزیز سیٹھ مرحوم کے فرزند تنویر سیٹھ کو کابینہ میں شامل کیا ہے‘ مگر وہ قمرالاسلام کامتبادل نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ ان کا تعلق ان مسلم قائدین میں ہوتا ہے جن کے بارے میں عام گمان یہی ہے کہ وہ اردو سے لگاؤ نہیں رکھتے۔ جبکہ قمر صاحب نے اردو کی ترقی، ترویج و اشاعت کے لئے جو خدمات انجام دےئے ہیں اقلیتی مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے ریاستی اور مرکزی حکومت کی اسکیمات پر جس طرح سے عمل آوری کرائی اس کا اعتراف خود مرکزی وزیر ڈاکٹر نجمہ ہبت اللہ نے کیا۔ قمرالاسلام شیر کرناٹک کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف انہوں نے ہمیشہ آواز بلند کی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں مسلمان بے حد چاہتے ہیں۔ گلبرگہ اور حیدرآباد و کرناٹک کے علاقے میں وہ غیر مسلموں میں بھی یکساں طور پر مقبول ہیں۔ ان کے ساتھ سدارامیا کے سلوک کے خلاف احتجاج کے طور پر گلبرگہ تمام 25کارپوریٹرس نے اور مختلف کارپوریشنوں کے عہدیداروں نے استعفے پیش کردےئے ہیں اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ قمرالاسلام کے ساتھ کی گئی ناانصافی کرناٹک میں کانگریس کو بہت مہنگی پڑے گی سمجھا جاتا ہے کہ کنڑا لابی میں بالخصوص میڈیا باقاعدہ منظم مہم چلائی‘ بار بار ان کے بارے میں یہ کہا گیا اور لکھا گیا کہ قمر صاحب کنڑی زبان سے نابلد ہیں اور ایوان میں ہر سوال کا جواب انگریزی میں دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے صحت پر بھی کئی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ان سب کے باوجود قمر صاحب کی کارکردگی شاندار رہی۔ سدارامیا کو چاہئے تھا کہ وہ ایک اور مسلم وزیر کا اضافہ کرتے اور قمر صاحب کے بوجھ کو کم کرتے اس کی بجائے انہوں نے قمر صاحب کو کابینہ سے ڈراپ کرکے ایک سینئر سیاستدان کی توہین کی۔ اور ان کے چاہنے والوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچایا۔ کرناٹک کے مسلمانوں کا یہ احساس ہے کہ مسلم سیاسی جماعتوں میں سیاسی اختلاف رائے کے باوجود اتحاد ضروری ہے۔ بہت پہلے عزیز سیٹھ مرحوم نے مسلم متحدہ سیاسی محاذ تشکیل دیا تھا جس میں ارکان مقننہ جماعتی اختلافات سے بالاتر ہوکر شامل تھے۔ اس محاذ کی طاقت تھی‘ اب اسکے بغیر مسلمانوں کی سیاسی طاقت کم ہوگئی ہے۔ اس محاذ کے احیاء کی ضرورت ہے۔
قمرالاسلام صاحب کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرنے کی ضرورت ہے‘ ورنہ کانگریس جو پہلے حالت نزع میں ہے‘ اپنی آخری ہچکی لے گی اور مسلمانوں کے لئے اسے ووٹ ڈالنا کوئی مجبوری نہیں رہے گی۔ اور کانگریس کو سبق سکھانے کے لئے حیدرآباد و کرناٹک کے مسلمان کوئی بھی فیصلہ کرسکتے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا