English   /   Kannada   /   Nawayathi

سدرامیا کو یہ ناراضگی مہنگی ثابت ہوسکتی ہے!

share with us

جن ارکان کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ان کی خوشی فطری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا ان کی وجہ سے پارٹی مستحکم ہوگی اور جن وزراء کو علاحدہ کیا گیا ہے ان کی ناراضگی اور پارٹی کے خلاف غم و غصہ کے جذبات اس کے استحکام کو متاثر نہیں کریں گے سدرامیا نے تما م وزراء سے اجتماعی طور پر استعفےٰ طلب کئے تھے اور جنھیں علاحدہ کرنا تھا ان کے استعفےٰ منظور کرلئے بقیہ جوں کے توں کابینہ میں برقرار رہے اس سے پہلے تو کانگریس ہائی کمان نے سدرامیا کی سے کابینی وزراء کے اجتماعی استعفےٰ کی طلبی کو مطلق العنانی قرار دیا۔ اس کے بعد معلوم ہوا کہ سدرامیا نے وزراء کو دھمکی دی کہ وہ خود استعفےٰ تحریر کردیں ورنہ وہ گورنر سے ان کی برطرفی کی سفارش کریں گے کیا یہ دھمکی پارٹی کو مضبوط بنانے کے لئے دی گئی یا وزیرا علےٰ خود کو مطلق العنان حکمراں ثابت کرنا چاہتے تھے۔ خود استعفےٰ دینا عزت وتوقیر کی بات ہے گور نر کی جانب سے بر طرف کیا جانا بے عزتی کی علامت ہوتی۔ یہ عجیب و غریب سچائی ہے کہ پار ٹی لیجسلیٹرس ا پنے لیڈر کا انتخاب کرکے اسے وزیر اعلیٰ بناتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار خود بخود مل جاتاہے کہ وہ اپنی کابینہ تشکیل دے۔ یااس میں ردو بدل کرنا چاہئے تو جس کسی کو چاہئے باہر کا راستہ دکھادے۔ وزیر اعلےٰ کو ملنے والا یہ اختیار اسے مطلق العنان بنانے کے لئے کافی ہے۔ اس پر کابینہ ارکان کے ساتھ پارٹی ارکان اسمبلی سے بھی مشاورت کی گرفت ہونی ہی چاہئے ۔ ہائی کمان سے منظوری کا جہاں تک سوال ہے صدر پارٹی کونہ سہی ان کیمشیروں اور دیگر ارباب مجاز کو اپنے موقف سے واقف کروانے کے حربے ہر وزیراعلیٰ استعمال کرتا ہے ۔ پارٹی صدر کا اپنا ایک نظام ہوتاہے جس کے ذریعے وہ خفیہ رپورٹ حاصل کرتا ہے اسکی روشنی میں وہ ریاستی امور کوفیصل کرتا ہے۔ اس نظام کو بھی متاثر و مرعوت کرنے کے راستے وزیر اعلےٰ کو معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے معاملات میں ہائی کمان کو خوش کرنے کے بعض ایسے صربے بھی وزیراعلےٰ استعمال کرتا ہے جن کی وجہ سے اس کی ذاتی اغراض پر پر دہ پڑجاتاہے۔ 
جمہوری پارلیمانی نظام کی برکتوں اور سہولتوں سے کسی وزیر اعلیٰ کو صرف اور صرف عوامی خدمت کے لئے استفادہ کرنا چاہئیے بد قسمتی سے آج کے زمانے میں ایسا نہیں ہورہاہے۔ جہاں تک سدرامیا کی قیادت کا سوال ہے وہ کمزور طبقات اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے ایک جہد کار کی حیثیت سے مقبول ہیں لیکن ان کے وزیر اعلیٰ بننے سے آج تک وہ اس الزام سے بری نہیں ہو سکے کہ وہ جنتادل کے اپنے پرانے ساتھیوں کو حکومت میں آگے بڑھا نے میں مصروف ہیں۔ کانگریس کے اصل ارکان ان سے کبھی متفق نہیں ہوئے۔ انھوں نے کابینہ میں پانچویں مرتبہ توسیع اور ردو بدل کیا ہے۔ لیکن اس بار ایک ساتھ (14) وزراء کی علاحدگی نے انھیں ایک زبردست طوفان میں پھنسادیاہے ۔ 2018میں ہونے والے اسمبلی الیکشن میں کانگریس کا کیا حال ہوگا اس بارے میں کوئی پیش قیاسی قبل از وقت ہوگی لیکن یہ بات یقینی طورپر کہی جاسکتی ہے کہ دو سال بعد سدرامیا کے اقتدار کا چراغ گل ہوجائے گا۔ سدرامیا کانگریس کے لئے غیر متنازعہ اور متفقہ قائد کبھی نہیں رہے تین سال پہلے انھیں ہائی کمان نے قائدنامزد کیا تھا لیجسلیٹرس ہائی کمان کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے تھے۔اگر آزاد انہ انتخاب ہوتا تو وہ وزیر اعلےٰ نہیں بن سکتے تھے۔ کابینہ کے ردو بدل میں جن (14) وزراء کو علاحدہ کیا گیا ہے۔ ان پر وزیر اعلیٰ ناقص کارکردگی کا الزام عائد نہیں کرسکتے قائد کی حیثیت سے ان کی کارکردگی پر نظر رکھ کر بروقت اسکی اصلاح کرنا بھی ان کا فرض تھا۔ ایک بھی وزیر پر بدعنوانی کا کو ئی الزام اپوزیشن تک نے نہیں عائد کیا وزیر اعلیٰ بھی اب نہیں کرسکتے ۔ کچھ نئے ارکان کی کابینہ میں شمولیت ضروری تھی تو انھوں نے اپنے ساتھیوں سے افہام و تفہیم کا راستہ کیوں نہیں اپنایا؟ کابینہ میں شمولیت سے محروم ارکان اور علاحدہ شدہ وزراء اگر سدرامیا مخالف محاذ بنالیں اور عدم تعاون کا راستہ اپنا لیں تو یہ حکومت کل بے دخل ہوسکتی ہے یہ یہ بعد کی بات ہوگی کہ ان ناراض ارکان اسمبلی کے ساتھ پارٹی کی ریاستی قیادت اور ہائی کمان کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ سیاست موقع پیدا کرنے اور ان سے بھر پور فائدہ اٹھانے کا نام ہے۔ لیکن اس میں عوامی مفاد کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئیے۔ 
بعض وزراء کے خلاف بعض اخبارات اور الکٹرونک میڈیا خواہ مخواہ خاندانہ مہم چلا ئے ہوئے تھا۔ اس کا مقصد موجودہ نظام کو کمزور کرنے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔ ہم نہیں سمجھتے کہ سدرامیا اس کے پروپیگینڈے سے متاثر ہوئے ہوں گے بلکہ ہمارا خیال ہے کہ اس مہم کو ان کے بعض نام نہادہمدردوں کی حمایت ضرور حاصل تھی۔ وزیر اعلےٰ کے فیصلے سے ساری ریاست میں غم و غصہ کی آگ بھڑک اٹھی ہے اور لوگ اپنے قائدین کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔ 
جہاں تک گلبرگہ حلقہ شمال کی نمائند گی کرنے والے شیر کرناٹک قمرالاسلام کا تعلق ہے ان کی کابینہ سے علاحد گی کو خود پارٹی ہائی کمان اور وزیر اعلےٰ سدرامیا نے لمحہ آخر تک پوشید ہ رکھا اس سے ان قائدین کی نیت کا اظہار ہوتاہے۔ الحاج قمرالاسلام اس علاقے کے ہی نہیں کرنا ٹک کے سب سے بڑے اقلیتی قائد ہیں جنھیں تمام طبقات میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے اور اقلیتی بہبود کے وزیر کی حیثیت سے ان کی تین سالہ کارکردگی تمام وزراء سے بہتر رہی ہے ۔ انھوں نے وزیراعلےٰ سدرامیا کو اقلیتی بہبود کی متعدد نئی اسکیمات سے روشناس کرواتے ہوئے ان کی منظوری حاصل کی اور ایمانداری اور محنت شاقہ سے انھیں رو بہ عمل لایاان کی ان فلاحی اسکیمات کی مرکزی وزیر اقلیتی امور نحمہ ہبت اللہ نے تک ستائش کی اور سارے ملک کے لئے انھیں ایک مثال قرار دیا۔ یہ بھی ایک قابل تحسین مثال ہے کہ ملک کی متعدد ریاستوں نے اقلیتی بہبود کی قمرالاسلام کی اسکیمات کو اپنے یہاں روشناس کروایا۔ بلدی نظم و نسق کے وزیر کی حیثیت سے بلدی سہولیا ت کے بنیادی ڈھانچہ کے فروغ استحکام کے لئے بھی قمر الاسلام نے جو جدوجہد کی ہے اس کا اعتراف وزیر اعلیٰ کی جانب سے جاری کردہ سرکاری اشتہار میں بھی کیا گیا ہے یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن یہ اشہار شائع ہوا اسی دن قمرالاسلام صاحب کو وزارت سے علاحدہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس متضاد روییّ سے وزیر اعلیٰ کی نیت کا پتہ چلتاہے حید ر آباد کرنا ٹک میں کانگریس کی قیادت ہمیشہ ریاستی قیادت پر فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہوتی رہی ہے۔ کسی بھی وزیر اعلیٰ کیلئے اس علاقہ کی اصل قیادت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا مگر موجودہ تبدیلی میں حیدر آباد کرناٹک کی قیادت کو جس کا خود قمرالاسلام بھی ایک اہم جزو ہیں کس طرح نظر انداز کر دیا گیا۔ ریاستی قیادت اسکی وضاحت کرنے سے قاصرہے اور ہائی کمان بھی اس کے مضمرات اور عواقب ونتائج کا اندازے لگانے میں ناکام ہے ۔ عملی سیاست میں قدم رکھنے کے کچھ ہی عرصہ بعد الحاج قمرالاسلام نے اپنی قیادت کو اس سطح پر پہنچا دیا ہے جہاں ان کے لئے سیاسی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی وہ جس پارٹی سے چاہیں انتخابی امید وار بن سکتے ہیں اور منتخب ہوکر دکھا سکتے ہیں اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ کانگریس پارٹی کو بھی ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات میں کیا ایسا کوئی فیصلہ کرنا ان کے لئے اور حلقہ کے عوام کے لئے مناسب ہوگا اس پر خود انھیں غور کرنا ہوگا۔ ان کی ناقابل تسخیر شخصیت ہمیشہ قصیوں اور تنازعات سے پاک رہی ہے وہ آج محض مسلم اقلیت کے لیڈر نہیں ہیں بلکہ نمائندہ طبقات سے لے کر ترقی یا فتہ بااثر طبقات میں بھی ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے ۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں اور حلقہ کے عوام سے مشاورات کے ذریعہ اپنے سیاسی موقف کو طئے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کا یہ فیصلہ علاقے کے عوام کے بہتر مفاد میں ہوگا گلبرگہ میں کانگریس پارٹی میں بری طرح پھوٹ پیدا ہوگئی ہے پارٹی قائدین اور کارکنوں کی اکثر یت قمرالاسلام کی کابینہ کے علاحدگی پر ناراضی ہے قمرالاسلام کے ساتھیوں نے جن کی انھوں نے ساخت و پر داخت کی ہے۔ اپنے سرکاری عہدوں سے استعفےٰ ان کے حوالے کئے ہیں۔ عام پارٹی کا رکن بھی قمرالاسلام کے ساتھ ہے، ریاستی قیادت اس ناراضگی کو دور کرنے کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے اور ہائی کمان اس نوشتہ دیوا رکو سمجھنے میں کامیاب ہوتا ہے اس پر قمرالاسلام کے اگلے موقف کا انحصار ہوگا۔ لوگ قائدین کی بجائے پارٹی کو اہم سمجھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ بعض قائدین بھی پارٹی کااثاثہ ہوتے ہیں۔ پارٹی کے اثاثہ کو بچانے کی کوشش کس کس سمت سے کی جاتی ہے اور اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں یہ بہت جلد ظاہر ہوجائے گا۔ پورے شمالی کرناٹک میں کانگریس کی بقاء اور استحکام داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ پارٹی قیادت کو اس صورتحال کو سمجھنے میں دیر نہیں کرنی چاہئیے۔
پس نوشت : یہ اداریہ اختتام کو پہنچ چکا تھاکہ راجدھانی بنگلور سے امبریش اور مالکیا گتہ دار کے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ کی خبر ملی ۔ اس سے خطرناک خبر یہ ہے کہ کانگریس کے (40)سے زیادہ ارکانِ اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے پر غور کررہے ہیں ۔ اگر ایسا ہوجائے تو کرناٹک میں کانگریس حکومت اکثریت سے محروم ہوسکتی ہے ۔ باغی کانگریسی، جے ڈی ایس اور بی جے پی سے ہاتھ ملا کر متبادل حکومت تشکیل دے سکتے ہیں ۔ یا اگر کانگریس ہائی کمان اپنے ارکان کو مستعفی ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوتی ہے تو وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنا پڑے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا