English   /   Kannada   /   Nawayathi

یہ عذاب خداوندی ہے!

share with us

بعد میں جب مزید فورس آئی تو وہ چند تماش بینوں کو قابو کرکے ایک بیت الخلا میں داخل ہوگیا اوروہیں سے پولس کو بتایا کہ میرے پاس دھماکہ خیز مادہ بھی ہے۔بہر حال پولس نے اس دوران ہال میں موجود دوسرے لوگوں کو بخیر باہر نکال لیا اور پھر عمارت پر دھاوا بول کرحملہ آور کو بھی ہلاک کردیا۔
امریکی انٹلی جنس ایجنسیوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ یہ امریکہ کی ماضی قریب کی تاریخ میں انوکھا حملہ ہے۔اس کے کئی اسباب شمار کرائے گئے ہیں لیکن دوبڑے سبب یہ ہیں کہ ایک تو حملہ آور تن ہا تھا اور اس نے سیکیورٹی کا بندوبست ہونے کے باوجوداتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ہلاک کردیا۔دوسرا سبب یہ بتایا گیا کہ حملہ آورغیر مذہبی یا مذہب بیزار مسلمان ہونے کے باوجود ہم جنس پرستی کے خلاف تھا۔عمر متین کے بارے میں بتایاگیا ہے کہ اس کے آباواجداد افغانی ہیں لیکن وہ امریکہ نزادہے۔اس کامذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔وہ پہلی بیوی کو زدوکوب کرتا تھا اور اب دوسری بیوی بھی کوئی خاص مذہبی نہیں ہے۔وہ خود سیکورٹی گارڈ کے طورپرکام کرتا تھا۔ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ وہ کئی بار ان کے راڈار پر رہ چکا ہے اور یہ کہ اس کا ماضی مشکوک رہا ہے۔پولس اس کی بیوی کے خلاف کارروائی پر غور کررہی ہے کیونکہ بتایا گیاہے کہ دوران حملہ عمر متین نے اپنی بیوی کو موبائل پر پیغام بھی بھیجا تھا اور خود بیوی نے بھی پولس کو بتایا ہے کہ حملہ سے پہلے ایک دوبار وہی اس کو ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب کے دورازے تک چھوڑ کر آئی تھی اور یہ کہ وہ ہم جنس پرستی کی وبا سے ناراض تھا۔
یہاں یہ اعتراف ضروری ہے کہ اتنے بڑے خوفناک حملہ کے باوجود پولس اور ایجنسیوں نے حملہ آور کے اہل خانہ کو پریشان نہیں کیا۔یہاں تک کہ حملہ آور کے باپ نے تو اگلے ہی روز ایک ٹی وی شو پرنمودار ہوکر بحث میں حصہ تک لیا۔اس نے کھلے طورپرکہا کہ عمر متین کا مذہب یا مذہبی شعائر سے کوئی لینا دینا نہیں تھا لیکن وہ ہم جنس پرستی پر برہم تھا۔اس کے اہل خانہ ابھی تک فلوریڈا میں آرام سے رہ رہے ہیں۔نہ کوئی سیاسی جماعت ان کے خلاف بیان بازی کر رہی ہے اور نہ کوئی فورس ان کے گھر پر دھاوا بول رہی ہے۔ایک طرف جہاں امریکہ میں اتنی سطحی طرز معاشرت روا ہے وہیں دوسری طرف اپنے شہریوں کے ساتھ اعلی انصاف کا یہ حال ہے۔
خون خرابہ اور قتل وغارت گری کا کوئی بھی سبب پیش کیا جائے اس کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔عمر متین کو اگر ہم جنس پرستی کے روز افزوں رجحان پر برہمی تھی تو اس کے خلاف محاذ آرائی کے دوسرے بہت سے جائز طریقے تھے۔لیکن ہاتھ میں بندوق لے کر انسانوں کا قتل کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔لہذا ہم ہندوستانی عوام اور خاص طورپرہندوستانی مسلمانوں کی جانب سے اس حملہ کی سخت مذمت کرتے ہیں اور مرنے والوں کے ورثا کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ہم جنس پرستی کی وبا ایسا نہیں ہے کہ آج ہی پیدا ہوئی ہو۔یہ وبا معلوم طورپرکم سے کم حضرت لوط علیہ السلام کے زمانہ سے موجود ہے۔لیکن اب جس طرح سے پوری دنیا میں اور خاص طورپر امریکہ اور یوروپ میں اس کی بڑے پیمانہ پر تشہیر کی جارہی ہے اور جس طرح ہم جنس پرست گروپ پوری دنیا میں مہم چلائے ہوئے ہیں اس سے صدیوں پرانی سماجی اور اخلاقی اقدار کو زبردست خطرہ لاحق ہوگیاہے۔ہندوستان میں بھی اس طرح کے گروہ سرگرم ہیں اور کھلے طورپر اس بے ہودہ اور قبیح عادت کوعام کرنے کا حق مانگ رہے ہیں۔ہندوستان میں اس سلسلہ میں ایک دفعہ 377بھی موجود ہے جوہم جنس پرستی کو ’’جرم‘‘قرار دیتی ہے جو مستوجب سزا ہے۔اس دفعہ کے خلاف مختلف اقسام کے ہم جنس پرست ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک جاچکے ہیں ۔دہلی ہائی کورٹ اس دفعہ کی روسے ہم جنس پرستی کوبجاطورپر مستوجب سزا جرم قرار دے چکی ہے جس کوسپریم کورٹ ماضی میں جائز ٹھہرا چکی ہے۔لیکن اب سپریم کورٹ میں دوبارہ ہم جنس پرستوں نے فریاد کی ہے اور اس کے فیصلہ پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ ایک تاریخ ہے کہ ہم جنس پرستی کے اس فعل پرقائم رہنے کے نتیجہ میں عہد قدیم کی ایک پوری قوم عذاب خداوندی میں مبتلا ہوکر تباہ وبرباد ہوچکی ہے۔اس کا ذکر قرآن کریم میں ایک سے زائد مقامات پر موجود ہے اور لوطؑ نامی جس نبی کے زمانہ میں یہ قوم ‘ عذاب خداوندی کا شکار ہوئی اسی کے نام پر اس مذموم فعل کے مرتکبین آج تک پکارے جاتے ہیں۔لوط ؑ کو خاص اسی مرض کی شکار قوم کی طرف مبعوث کیا گیا تھاتاکہ وہ اسے باز رکھیں اور اس پر اللہ کے غضب سے انہیں آگاہ کردیں۔اس فعل قبیح پر‘ سمجھانے کے باوجود قائم رہنے کی پاداش میں خدا نے قوم لوط کو ایک بھیانک عذاب میں مبتلا کردیا۔ جو افراد لوط علیہ السلام کے ساتھ بستی سے باہر نکل گئے وہ عذاب سے محفوظ رہے ۔ لوطؑ کی کوشش کے باوجود ان کی بیوی ان کے ساتھ نہ نکلی اور وہ بھی عذاب خداوندی کا شکار ہوگئی۔ان کی بیوی مخالفین کے لئے مخبری کیا کرتی تھی‘ اس نے عذاب والے دن بھی شوہر کی نافرمانی کی اور پیچھے رہ گئی۔
اس مردود فعل کی بانی قوم لوط ہی تھی ‘اس سے پہلے اس مرض میں کوئی دوسری قوم مبتلا نہیں ہوئی تھی۔اسی لئے لوطؑ نے اپنی قوم کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم ایسا فحش کام کیوں کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ۔تم عورتوں(بیویوں) کی بجائے مردوں سے شہوت کرتے ہو۔لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے جو ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کرکے ملک شام آئے تھے۔ان کو سدوم اور اس کے گردونواح کی بستیوں کی طرف بھیجا گیا تاکہ وہ اس فعل قبیح میں ملوث لوگوں کو عذاب خداوندی سے ڈرائیں۔ لیکن انہوں نے اپنے نبی کا مذاق اڑایا اور آخر کار انہوں نے کہہ دیا کہ تم اتنے پاک صاف بنتے ہو تو تمہارا ہماری بستی میں کیا کام ہے۔اس سلسلہ میں قرآن پاک میں جو تفصیل ملتی ہے اس کی تلخیص یہ ہے کہ ایک روز خدا کے فرشتے لوط ؑ کے گھر انسانوں کی شکل میں آگئے ۔اس سے قبل وہ حضرت ابراہیم ؑ کے گھر ہوکر آئے تھے اور ان کو بتادیا تھا کہ ہم قوم لوط پر عذاب مسلط کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ابراہیم ؑ نرم دل نبی تھے ‘انہوں نے فریاد کی کہ خداوندا ایسا نہ کیا جائے لیکن خدانے کہہ دیا کہ فیصلہ تو ہوچکا ہے اور اب آپ اس معاملہ میں نہ پڑیں۔خوش شکل نوجوانوں کی صورت میں جب فرشتوں کی جماعت لوط کے گھر پہنچی تو وہ گھبراگئے کہ اب بستی کے لوگ میرے مہمانوں کی بے حرمتی کریں گے۔ ان کی قوم دوڑی ہوئی آئی اور ان نوجوانوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگی۔ لوط نے کہا کہ’ لوگو یہ میری بیٹیاں(بغرض نکاح) تمہارے لئے پاک ہیں‘اللہ سے ڈرو اور مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو‘کیا تم میں کوئی ایک بھی نیک چلن مرد نہیں ہے‘ان مردود لوگوں نے جواب دیا کہ ہمیں آپ کی بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں ‘آپ کو معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔اس پر لوطؑ نے بے بسی کے ساتھ کہا کہ کاش میں تمہارے مقابلہ میں طاقتور ہوتا یا کسی محفوظ پناہ گاہ میں جابیٹھتا۔فرشتوں نے لوط ؑ کی بے بسی دیکھی تو انہوں نے کہہ دیا کہ اے لوط مت گھبراؤ‘ہم خدا کے بھیجے ہوئے آئے ہیں۔وہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے اور آپ صبح کے قریب بستی سے نکل جائیے اور مڑکر نہ دیکھئے۔لیکن آپ کی بیوی کو بھی وہی پہنچ کر رہے گا جو آپ کی قوم کو پہنچے گا۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور ملک شام میں آج بھی وہ بستی اپنی ہیبت ناکی کے ساتھ موجود ہے۔اس بستی کو قرآن کے الفاظ میں تہہ وبالا کردیا گیااور اس پر پتھروں کی بارش کردی گئی۔معلوم یہ ہوا کہ اس خلاف فطرت گناہ پر خدا سخت برہم ہوتا ہے اور وہ اس کے مرتکبین پر کسی نہ کسی شکل میں عذاب ضرور بھیجتا ہے۔یہ عذاب صرف لوط علیہ السلام کی قوم کے لئے ہی نہیں تھا بلکہ قیامت تک جب بھی اس طرح کے گروہ سر اٹھائیں گے انہیں خداکے عذاب کا شکار ہونا پڑے گا۔اب عذاب تو عذاب ہے وہ کسی بھی شکل میں نازل ہوسکتا ہے-بھلے ہی لامذہب عمر متین کی شکل میں ہو!

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا