English   /   Kannada   /   Nawayathi

طلاق کی بدعت اورشریعت کا تحفظ

share with us

اس کی مثال زنابالرغبت، شراب اورجھٹکے کاقانوناً مباح ہونا ہے۔ عدالتی فیصلے ان کے حق میں ہونے کے باوجود ہم ان کو اپنے لئے مباح نہیں کرسکتے۔ ٹھیک یہی صورت طلاق بدعی یا طلاق ثلاثہ کی ہے۔ اگرشریعت کا حکم اس کے خلاف نہیں ،توعدالت کے حکم سے حرام حلال نہیں ہوجائیگا۔
دوسری طرف ہمارے وہ روائتی قائدین ہیں جو یوں تو بدعت کے نام سے سخت بدکتے ہیں، مگر طلاق بدعی ان کو اس قدر عزیر ہے کہ اس کا نام ہی ’’شریعت‘‘ رکھ لیا ہے۔ ہمارے حقیر رائے یہ ہے کہ یہ دونوں صورتیں انتہا پسندانہ ہیں۔ مسئلہ کا حل آسان ہے۔ مگراس کو پیچیدہ بنادیا گیا ہے۔ہمیں یہ عرض کرنے میں ہرگز تکدرنہیں کہ طلاق بدعی کے نہایت تکلیف دہ معاشرتی نتائج ، مطلقہ خواتین اوران کے بچوں پراس کے ظالمانہ اثرات، اس کے ساتھ حلالہ کے نام پر بقول انورعلی ایڈوکیٹ،’’ شریعت کے ساتھ فراڈ‘‘کے بچاؤمیں جس قدر زورلگایا جاتا ہے ،اس کا ایک حصہ بھی اگر وعظ ونصیحت اورنکاح کی شرائط میں بعض صراحتوں کی مدد سے اس برائی کو ختم کرنے پر صرف کیا جائے تو یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوجائیگا۔بہت سے جوڑوں کواوران کے بچوں کوراحت ملے گی اور دوجہاں کی عافیت حاصل ہوگی۔
طلاق کے ضابطے
جس طرح نکاح کے کچھ ضابطے ہیں اسی طرح طلاق کے بھی ہیں۔قرآن پاک نے دومعاملات ۔ وراثت اورطلاق ۔کے ضابطوں کوکھول کھول کر بیان کیا ہے۔ اتنی تفصیل سے تو نماز کی فرض عبادت کے طریقے کا بھی بیان نہیں۔ پھر ایک سہولت اوررکھی ہے۔ نکاح کودوفریقوں کے درمیان ایک عہدنامہ بنادیا ہے۔ فریقین کویہ اختیاردیا ہے کہ وہ انعقاد نکاح کے وقت چاہیں تو کچھ شرائط بھی طے کر لیں۔یہ اختیار کس قدر وسیع ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹرحمیداللہ مرحوم کی رائے ہے کہ اگرنکاح کے وقت یہ طے ہوجائے کہ شوہر کو طلاق دینے کا حق نہ ہوگا، بلکہ بیوی کو ہوگا ، تو یہ جائز ہے۔ اس اختیار کا استعمال مہر وغیرہ کے تعین میں اب بھی عام ہے۔ہمارے یہاں دیگر شرائط بھی شامل کرنے کا رواج رہا ہے۔ مثلاً میری پھوپی سعیدہ بیگم مرحومہ کے نکاح نامے میں ، جوقصبہ کاندھلہ کے زمیندار مرزا امجد علی بیگ مرحوم سے دس ہزارروپیہ مہر پرہوا، مرقوم ہے: ’’مبلغ دس روپیہ ماہوار خرچ پاندان و دیگر ضروری اخراجات دیتا رہونگا۔بصورت نااتفاقی تازیست مسماۃ مذکورہ کو نان و نفقہ کاہر حال میں ادا کرنے کا ذمہ دار ہونگا۔ اوراس کی ادئیگی میں ہرگزکسی وقت دریغ نہیں کرونگا۔ اوراگراس کے خلاف عمل کرونگا تو مسماۃمنکوحہ و ورثان منکوحہ کو اختیار ہوگا کہ میری ذات خاص، یا میری منقولہ و غیرمنقولہ جائداد سے جس طرح دل چاہے زریعہ عدالت وصول کرے۔‘‘ یہ نکاح زاید از ایک صدی قبل،۱۷؍مئی سنہ ۱۹۱۴ء کو ہواتھا اورنکاح خواں ضلع میرٹھ کے اس وقت کے جید عالم قاضی آفتاب الدین (برناوہ)تھے۔ میرے داداسید عین الحق خودحافظ اور دین کے عالم تھے۔
اگرنکاح کے وقت صراحت نہیں کی گئی اورخاص شرائط مذکور نہیں، توطلاق کے لئے وہی ضابطہ نافذ ہوگا، جو عرف عام میں مروج ہے اورجس کی تصدیق جمہورفقہا نے کی ہے۔ کیونکہ ایک طویل زمانہ سے ہمارے معاشرے میں ’’طلاق بدعی ‘‘مروج ہے، اور معدودے چند کو چھوڑ کراکثرفقہا کی نظرمیں اس کا نفاذ شرعی بھی ہے، اس لئے اگرنکاح کے وقت کوئی صراحت یا شرط اس کے خلاف طے نہیں کی گئی تو اصولاً اسی کا نفاذ ہوگا۔ لیکن اگر نکاح کے وقت قاضی صاحب نے فریقین سے رضامندی لے کر خطبہ نکاح میں ایک جملہ میں یہ وضاحت فرمادی ، یا نکاح نامہ میں لکھ دیا کہ ’’اگر فریقین میں جدائی کی نوبت آگئی تو ایک طہر میں ایک سے زاید طلاق کو ایک ہی مانا جائے گا۔صرف طلاق حسن ہی کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی، طلاق بدعی کو نہیں‘‘ تو اس جوڑے پر عرف عام میں مروج طلاق بدعی کا ضابطہ نافذ نہیں ہوگا۔ اس لئے عدالتوں میں جاکردادفریاد کرنے اورملت کو شرمسارکرنے کرانے کے بجائے راہ صواب یہ ہوگی کہ طلاق ثلاثہ کے موئد اورمخالف دونوں دانشور گروپ عقد نکاح کی شرائط میں اس شرط کو شامل کرانے کی سبیل کریں۔شریعت کی رو سے نکاح نامے میں اس وضاحت کو شامل کرنے میں کوئی قباحت ہرگزنہیں ہے۔ کچھ عرصہ میںیہ ضابطہ عام ہوجائیگا اور ایک بدعی طریقہ سے نجات مل جائیگی ۔بصورت دیگراس سے فرار کی کوئی راہ دستیاب نہیں۔ جواس کے خلاف کریں گے معاشرے میں خواراور گناہ گارقرارپائیں گے۔
طلاق کے بعد نان ونفقہ
طلاق کی صورت میں نان ونفقہ کے مسئلے کو بھی اسی طرح حل کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عموماً مطلقہ خاتون کے لئے گزارہ مشکل ہوجاتا ہے ۔ دوسرانکاح بھی عام طور سے نہیں ہوتا۔اس لئے اگراس کا سابق شوہر، جس نے اس کی جوانی کو نچوڑا ہے، بطور پینشن کچھ گزارہ بھتہ منظورکرلے تو اس وسعت قلبی اور سابق بیوی سے حسن سلوک کے لئے اللہ کے گھرسزا کی نہیں جزائے خیر کی ہی امید رکھنی چاہئے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب یہ بات نکاح کے وقت طے کرلی جائے ، جیسا کہ اوپر مذکور ہماری پھوپی صاحبہ کے نکاح نامہ میں ہے۔ورنہ مفتی صاحب یہ فتوٰی دینے میں حق بجانب ہونگے کہ قرآن کی تلقین حسن سلوک واحسان مندی کے باجود شوہرصرف عدت کی مدت کے دوران گزارہ کا پابند ہے۔اگربچہ چھوٹا ہے اورماں کے زیرسایہ پرورش پارہا ہے تواس کی ذمہ دار ی بیشک والد پر ہے۔ ظاہر ہے جو خاتون پرورش میں اپنی جان کھپارہی ہے کچھ حق اس کابھی بنتا ہے۔
دیگرمعاملات
طلاق سے متعلق کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں فقہاکی رائے مختلف ہے۔ ایسے معاملات میں کسی ایک موقف پربے لچک اصرارمیں کیونکہ دوسرے مسلک کی تحقیر کا عنصرشامل ہوجاتا ہے، اس لئے اتحاد ملت کے تصورپر بھی اس کی ضرب پڑتی ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ ہمارامسلک یہی ہے۔فریقین چاہیں تودوسرے مسلک پر عمل کرلیں،جس میں رجوع یا تجدید نکاح کی گنجائش ہے۔آخر اگر کسی مشکوک معاملے میں دوسرے مسلک پر عمل کرلیا گیا تو کوئی کافر تو نہیں ہوجائیگا۔ ہم اللہ سے دعاکرتے ہیں: ’’اللھم یسر ولا تعسر‘‘۔ اے اللہ ہمارے لئے آسانی فرما، اورمشکل نہیں۔‘‘ لیکن جب ہمار ے پاس کوئی سوال لے کر آتا ہے توہمارامعاملہ الٹا ہوتا ہے۔ اس کے لئے آسانی کی راہ مسدود کردیتے ہیں اورمصیبت کا پہاڑ اس پرتوڑ دیتے ہیں۔ آخر یہ کیسی روش ہے؟
اس ضمن میں بھی ایک واقعہ سن لیجئے۔ایک شام میں مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی مرحوم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک ادھیڑ عمر کا سیدھا سادہ میواتی سخت پریشانی کی حالت میں آیا۔ اس نے اپنی بیوی کو کوئی ایسا نازیباکلمہ کہہ دیا تھا کہ گاؤں کی مسجد کے امام صاحب نے کہہ دیا کہ نکاح ساقط ہوگیا۔ جب وہ یہ قصہ سنانے لگا، مفتی صاحب نے جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور خاموش کردیا۔ پھراپنے دفتر کے ایک کارکن کے ساتھ اسے قریب میں واقع اہل حدیث مدرسہ ریاض العلوم کے مفتی صاحب کے پاس بھیج دیا اورفرمایا جیسا مفتی صاحب کہیں ویسا ہی کرنا۔ کسی اورسے کچھ ذکر نہیں کرنا۔ کچھ دیرکے بعد وہ شخص واپس پلٹااوراس کے ساتھ ایک صاحب اورآئے۔ بتایا کہ مفتی صاحب کا حکم ہے کہ تجدید عقد کرآؤ۔ حضرت مفتی عتیق الرحمٰن صاحب جلدی سے اٹھے۔ شیروانی کی جیب کچھ رقم نکال کران صاحب کو دی کہ یہ آپ کی آمد و رفت کا خرچہ ہے۔ اورہدایت دی کہ تجدید عقد کے بعد دونوں کو دو دورکعت نمازاہل حدیث طریقہ سے پڑھوادیجئے۔ چندروز بعد میں نے مفتی صاحب سے استفسارکیا توفرمایا:’’ مسلک توآدمی پھربدل سکتا ہے۔ خاندان کوبچانا چاہئے۔‘‘ 
اصراراوراستحکام صرف قرآن اوراللہ کے رسو ل کے واضح احکامات کی عمل آوری پر ہی ہونا چاہئے نہ کہ ایک بدعت کو پکڑے رہنے پر۔ ہم نے یہاں قرآن میں مذکورطلاق کے طریقہ اوراس سلسلے کی نصیحتوں اورحدیثوں کے بیان سے گریز کیا ہے کہ اس بحث سے نہ تو کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ البتہ جو صاحبان اس معاملہ میں اللہ کی منشاء کو سمجھنا چاہیں وہ صرف سورہ طلاق (۶۵) کو سمجھ سمجھ کر پڑھ لیں۔امید ہے کہ ان کو اللہ کے احکامات سے رغبت بڑھے گی۔بدعی طریقوں سے طبیعت متنفرہوگی۔ اللہ کا پہلا تعارف قرآن اس کی صفات ’’رحمٰن و رحیم‘‘ سے کراتا ہے۔ا للہ کسی ایسی چیز سے خوش کیونکر ہوسکتا ہے جو صریحاً اپنے نفس کی پیروی سے تعبیر ہو اورجس میں صنف نازک کے لئے اور خود اپنے بچوں کے لئے شقاوت قلبی کا پہلو موجود ہو؟ہماری نظرمیں اس رائے سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ طلاق بدعی قرآن کی روح کے منافی ہے۔ اس سے بچو۔اس مذموم طریقہ طلاق میںآدمی اسی وقت پڑتا ہے جب وہ اللہ رحمٰن و رحیم کے ہدایت کو بھلا بیٹھا ہو اوراس کے سر پر شیطان سوار ہو۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ مفتی صاحبان کے فتوے کے باجود طلاق بدعی کے عامل کوقرآن کی ہدایات کے خلاف عمل پر خداکے گھرجوابدہ ہونا ہوگا۔
یو پی میں چناؤ کی تیاری
یوپی اسمبلی انتخابات کے لئے سیاسی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں۔ بھاجپا نے اپنی دودھاری مہم کا آغاز ۱۳؍جون کو الہ آبادمیں مجلس عاملہ کے جلسے اوراس کے بعد ایک ریلی سے کردیا ہے۔ مسٹرمودی نے اپنے خطاب میں صرف ایس پی اوربی ایس پی کو نشانہ بنایا۔ کانگریس کا ذکر شاید اس لئے نہیں کیا کہ اس کا وجود ریاست میں سمٹ چکا ہے۔ ذکرکرنے سے اہمیت بڑھ جاتی ۔ ان کی تقریرترقیاتی ایجنڈے اورفریق مخالف پر سخت حملوں تک محدود رہی۔ لیکن پارٹی صدرامت شاہ نے ایجنڈے کے دوسرے پہلوکواٹھایا۔ انہوں نے بلاوجہ کا شورمچایا کہ ضلع شاملی کے تاریخی قصبہ کیرانہ سے ہندوخاندان بڑی تعداد میں اقلیت کے خوف سے نقل مکانی کررہے ہیں۔یہ شوشہ دراصل اس علاقے سے ایم پی حکم سنگھ ٹھاکرکے ایک متنازعہ دعوے کی بنیاد پرچھوڑا گیا ہے۔ مسٹرٹھاکر سنہ ۲۰۱۲ء میں کیرانہ اسمبلی حلقہ سے بھاجپا کے ٹکٹ پربڑی اکثریت سے چنے گئے تھے۔دو ہی سال بعد وہ سنہ ۲۰۱۴ء میں لوک سبھا پہنچ گئے۔اس کے بعدضمنی چناؤ میں اس سیٹ پر بھاجپا امیدوار کی شرمناک شکست ہوئی اورایک سابق رکن اسمبلی منورحسن کی بیوہ ناہید حسن جیت گئیں۔
منورحسن کے انتقال کے بعد مسٹرٹھاکراس حلقے سے تین بارایم ایل اے چنے گئے۔ اس دوران ان کی شبیہ غیرفرقہ پرست اعتدال پسندلیڈر کی تھی ۔ اقلیت میں بھی ان کی عزت تھی۔ ووٹ بھی ملتے تھے۔ مگرمودی کے عروج کے بعد ان پر فرقہ پرستانہ سیاست کا لیبل لگ گیا اور ان کی سرپرستی میں کبھی کاندھلہ میں، کبھی کیرانہ اورکبھی شاملی کے دیہات میں کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھتا رہتا ہے۔ مسٹرٹھاکر نے دعوا کیا ہے کہ346’’ہندوخاندان‘‘ خوف کی وجہ سے کیرانہ چھوڑ کربھاگ گئے ہیں، جہاں مسلم آباد ی اکثریت میں ہے۔ لیکن تصدیق کے دوران اس فہرست میں بہت سے ایسے نام نکلے جو عرصہ ہوا فوت ہوچکے یا مدت پہلے بہتر معاش کی تلاش میں بڑے قصبوں وشہروں میں جابسے۔کچھ لوگ حال میں بھی گئے۔ یہ عام بات ہے۔دوسرے شہروں میں جابسنے والوں میں ہرفرقہ کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔اور یہ اس بات کی بھی علامت ہے نہ تومودی سرکار میں وکاس کا فائدہ گاؤ ں قصبوں تک پہنچا ہے اورنہ غریبوں کو اچھے دنوں کے آثار نظر آرہے ہیں۔ اس لئے وہ نقل مکانی کررہے ہیں۔ 
الہ آباد میں پارٹی صدر امت شاہ نے اسی مفلوج دعوے کی بنیاد پر یوپی کے ہندوؤں میں ایک نیاخوف پیداکرنے اورفرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی ٹیک اٹھائی ہے۔ پوری یوپی میں جابجا فرقہ ورانہ واقعات ہورہے ہیں۔ امت شاہ نے بھاجپا کارکنوں کو یہ اشارہ دیدیاہے کہ وہ چناؤ کی تیاری کے لئے فرقہ ورانہ کبیدگی پھیلانا شروع کردیں چاہے جھوٹ کا سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔ایک طرف وی ایچ پی مسلم مکت بھارت کا نعرہ دے رہی ہے تو دوسری طرف امت شاہ کہہ رہے ہیں یوپی سے ہندوؤں کونکالا جارہا ہے۔ ڈائس پر آڈوانی جی کی موجودگی بھی ہندتووا کے غبارے میں ہوابھرنے کے مقصد سے نظرآئی۔اس لئے اقلیتوں کو باخبراورسنبھل کررہنا ہوگا۔
غلام نبی آزاد کوکمان
کانگریس نے یوپی کی کمان مدھوسودن مستری سے لے کرجناب غلام نبی آزاد کو سونپی ہے۔ مسٹرآزاد نے بھی اس چیلنج کو قبول کرلیا ہے۔حالانکہ کانگریس یوپی میں کہیں نظرنہیںآتی۔مقامی سطح پر کانگریس تنظیم ختم ہوچکی ہے۔ اس کو مختصرمدت میں متحرک کرنا اورکچھ اچھے نتائج لے آنا ایک جوکھم بھرا کام ہے۔ ریاست میں کیا پورے ملک میں اب بھاجپا اوراس کی بغلی تنظیموں کا دبدبہ ہے۔ کانگریس ہرجگہ مشکل میں اس لئے ہے کہ نہ اب پارٹی سیکولررہی اورپوری طرح چولا بدل کر ہندوتووادی بن سکی، البتہ پارٹی نائب صدرکیدارناتھ مندر بھی پہنچ گئے اورسونیا جی بھی ایک آدھ موقع پر ماتھے پر نمایاں ابیرتلک لگائے ہوئے دکھائی دیں۔ کانگریس کی یہ مشکل اس وقت تک رہے گی جب تک اس کی گومگو کی کیفیت باقی ہے۔ یوپی میں فرقہ ورانہ سیاست کے لئے راہ ہموار کانگریس نے خود کی۔ اپنے دورحکومت میں مسلسل مسلم کش فساد کروائے۔مرادآباد، ملیانہ اورہاشم پورہ، علی گڑھ ،میرٹھ ، بریلی، لکھنؤ ، گورکھپور ، فیروزآبادغرض کوئی جگہ بچی نہیں رہی۔اورہرفساد کے موقع پر مظلوم مسلمانوں کے مقابلے سنگھیوں کے حوصلے بڑھائے۔عوام اورپارٹی کارکنوں کو نظرانداز کرنے کی روش اس کی بدستور جاری ہے، اسی لئے حالیہ اسمبلی انتخابات میں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اسی لئے اس کی پارٹی کے ممبران اسمبلی پارٹی چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں۔ لیکن شاید ابھی اس کی آنکھیں نہیں کھلیں۔اس کو فکر صرف مرکز میں اقتدارواپس حاصل کرنے کی ہے جو راہل گاندھی کی قیادت میں ناممکن ہے۔
مسٹرآزا د کو یوپی بھیجنے کا ایک مقصداورنظرآتا ہے۔ پچھلے دنوں وہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بہت نمایاں ہوگئے تھے جو پارٹی کی قیادت کویقیناًکھٹکا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ کانگریس میں وزیراعظم کے منصب کے لئے موزوں ترین لیڈر ہیں۔ گما ن یہ ہے کہ ان کو پارٹی کا جنرل سیکریٹری بناکر یوپی اس لئے بھیجا گیا ہے ’ایک شخص ایک منصب ‘کے اصول کا کوڑا چلاکر ان کو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈرکے منصب سے ہٹادیا جائے۔ گمان غالب یہ ہے ان کی جگہ پی چدمبرم کو یا کپل سبل کو لایا جاسکتا ہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا