English   /   Kannada   /   Nawayathi

معروف وکیل محمود پراچہ کا خصوصی انٹرویو

share with us

اس کے جلد ہی بعدمعروف صحافی محمد احمد کاظمی کو ، جو کہ گذشتہ تقریباً تین دہائیوں سے ایران کے میڈیا کے لیے ہندستان سے کام کرتے رہے ہیں ، گرفتار کر لیا گیا ۔ مشرقی وسطیٰ میں صہیونی اور مغربی استعماری پالیسیوں کے سلسلے میں ان کے نظریات سبھی پر واضح ہیں۔
محمد احمد کاظمی کی گرفتاری ایک غیر معمولی واقعہ کے طور پر نمودار ہوئی اور انہیں نہ صرف ملک بھر میں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں عوامی حمایت ملی۔ ان کی گرفتاری کے خلاف غیر معمولی قانونی جد و جہد ہوئی جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں گرفتاری کے محض سات ماہ کے اندر ضمانت پر رہا کر دیا جو کہ ایک بڑی کامیابی سمجھی گئی تھی۔ 
سینیر وکیل محمود پراچہ نے اس مقدمہ کی سب سے نچلی چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت سے لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک غیر معمولی پیروی کی جس کے نتیجہ میں یہ کامیابی ملی ۔ محمود پراچہ کی کوششوں کے نتیجہ میں حال ہی میں پونے کی جرمن بیکری دھماکہ معاملہ میں ملزم حمایت بیگ کے سر سے پانچ سزائے موت اور پانچ عمر قید کی سزا بمبئی ہائی کورٹ سے ختم کرانے میں بھی کامیابی ملی ہے۔ یہ معاملہ بھی بین الاقوامی سطح پر بحث کا موضوع رہا ہے۔
ملی گزٹ نے ایڈوکیٹ محمود پراچہ سے صحافی محمد احمد کاظمی کے مقدمہ سے متعلق موجودہ حالات معلوم کرنے کی غرض سے خصوصی ملاقات کی ۔ ان سے کی گئی بات چیت کے اہم اقتباسات مندرجہ ذیل ہیں۔

ملی گزٹ : اسرائیلی سفارتکار پر ہونے والے حملے کے سلسلے میں ملزم بنائے گئے محمد احمد کاظمی کے خلاف مقدمہ اب کس مرحلہ میں ہے ؟
پراچہ : ۲۰۱۲ٗ ؁ء کے اواخر میں چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد سے اب تک کاظمی کے خلاف الزامات طے نہیں ہوئے ہیں ، اور اس سلسلے میں کچھ غیر اعلان شدہ وجوہات کی بنا پر حکومت کی جانب سے تاخیر برتی جا رہی ہے۔ ہم اس منطقی نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ استغاثہ کو اپنے ذریعے اکٹھا کئے گئے ثبوتوں پر اعتماد نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ مختلف بہانوں سے الزامات تک طے کرنے سے بھی بچ رہے ہیں۔ الزامات پر تیس ہزاری عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج اتل کمار گرگ نے بحث سنی تھی۔ انکے ذریعہ اٹھائے گئے کچھ اہم سوالات سے پریشان ہو کر سرکاری وکیل نے کئی بار شنوائی کی تاریخیں ملتوی کرائیں تاکہ جج صاحب الزامات کے سلسلے میں کوئی حکم صادر نہ کر سکیں۔ اسی درمیان اس معاملہ کی تفتیشی ایجینسی دہلی پولس کی اسپیشل سیل اور استغا ثہ نے دہلی ہائی کورٹ میں اپنے تمام مقدمات ایک خصوصی عدالت میں منتقل کرانے کی درخواست دے دی۔ میری نظر میں انکی اس کوشش کا مقصد جج اتل کمار گرگ کی عدالت میں جاری کاروائی کو ناکام بنانا تھا۔ احمد کاظمی نے اپنے مقدمے کی انتظامیہ کی ہدایت کے تحت دہلی ہائی کورٹ منتقلی کو چیلینج کیا ہے جو ابھی تک سپریم کورٹ میں بحث کا منتظرہے۔
اس کے علاوہ محمداحمد کاظمی کے مقدمے میں ایک اور دلچسپ موڑ اسوقت آیا جب جج اتل کمار گرگ کی عدالت میں الزامات پر بحث کے دوران اسپیشل سیل کی جانب سے ایک اضافی چارج شیٹ داخل کی گئی۔ میری نظر میں اس اضافی چارج شیٹ داخل کرنے کا بنیادی مقصد بھی الزامات پر بحث کو ملتوی کرانا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اضافی چارج شیٹ میں ایک اہم دستاویز اسرائیلی سفارتکار کی بیوی تال یہوشوا کورین کا نیا بیان ہے جو اس کے واقعہ کے فوراً بعد دیے گئے بیان سے با لکل مختلف ہے۔ یہ خاتون اس واقعہ کی اصل گواہ ہے۔ نیا بیان ،جو کہ اس نے اسرائیل واپس جانے کے بعد دیا ہے ،پوری طرح سے پہلے بیان سے متعارض ہے۔ اس طرح اس مقدمہ کی ایف۔آئی۔آر۔ ہی اس نئے بیان کی روشنی میں غلط ہے۔ یہ نیا بیان اب صحافی کاظمی کے خلاف چارج شیٹ کا حصہ ہے۔

مقدمہ اب کس مرحلے میں ہے ؟
پٹیالہ ہاؤس میں ایڈیشنل سیشن جج راکیش پنڈت کی عدالت میں، جہاں شنوائی ہونی ہے ،وہاں گذشتہ دو برسوں سے ابھی تک سرکاری وکیل کا تعین نہیں ہوا ہے۔ اس طرح استغاثہ کی جانب سے جان بوجھ کر مقدمہ کی شنوائی میں دیر کی جا رہی ہے۔ احمد کاظمی کے مقدمہ سے اٹھے سوالات میں ایک کافی اہم سوال یہ ہے کہ آیا غیر قانونی سرگرمی مخالف قانون (یو۔اے۔پی۔اے) کے تحت مقدمہ کو شنوائی کے لیے تسلیم کرنے کا اختیار مجسٹریٹ کی عدالت کو ہے یا یہ اختیار سیشن عدالت کی سطح کی اسپیشل عدالت کو ؟ دوسرا اہم سوال یہ اٹھایا گیا کہ کیا مرکزی حکومت کے علاوہ بھی کسی کو ملزم کے خلاف یو۔اے۔پی۔اے۔ نافذ کرنے کا اختیار ہے؟ استغاثہ اور حکومت اس سوال کا جواب دہلی ہائی کورٹ میں دینے سے بچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ مسئلہ ۲۰۱۲ ؁ء سے ہائی کورٹ میں فیصلہ کامنتظر ہے۔ یہ مسئلہ محمد احمد کاظمی کے مقدمہ میں پہلی بار ایڈیشنل سیشن جج ایس۔ ایس۔ راٹھی کی عدالت میں اٹھایا گیا تھا۔ مذکورہ جج نے اس اہم سوال کے جواب کے لیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ان کے مطابق اس سوال کا جواب یو۔اے۔پی۔اے۔ اور این۔آئی۔ اے۔ قانون کے تحت چل رہے سبھی مقدموں کو متاثر کرے گا۔
عدالت کا کسی بھی مقدمہ کو شنوائی کے لیے تسلیم کرنا سب سے بنیادی حصہ ہوتا ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کی غلطی مقدمہ کی بنیاد کو ہلا سکتی ہے۔ مقدمہ کو شنوائی کے لیے تسلیم کرنے میں کوئی غلطی یا اس عمل کو بغیر اختیار کے کیا جانا پورے مقدمے کو ختم کر سکتا ہے۔ کاظمی کے مقدمہ میں یہ مسئلہ پہلی بار سامنے آیا ہے۔ اس وقت یو۔اے۔پی۔اے۔ مقدمات کو ریاستی تفتیشی ایجینسیوں کے ذریعہ ایک طریقے سے اور این۔آئی۔اے۔ کے ذریعہ ایک دوسرے طریقے سے چلایا جا رہا ہے۔ ریاستوں میں اس قسم کے ملزمین کی چارج شیٹ مجسٹریٹ کی عدالتوں میں پیش کی جا رہی ہیں جس کی بنیاد پر ان مقدمات کو شنوائی کے لیے تسلیم کیا جا رہا ہے جبکہ کاظمی کے ذریعہ یہ مسئلہ اٹھائے جانے کے بعداس قسم کے مقدمات کو سیشن یا ایڈیشنل سیشن عدالت کی سطح کی اسپیشل عدالت میں شنوائی کے لیے تسلیم کیا جا رہا ہے۔
احمد کاظمی کے مقدمے کے بعد دہلی پولس نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوے اس قسم کے مقدمات کی چارج شیٹ اسپیشل عدالتوں میں پیش کرنا شروع کر دی ہیں۔ یہ بنیادی مسئلہ ایڈیشنل سیشن جج ایس۔ ایس۔ راٹھی کے ذریعہ اٹھائے گئے سوال کے طور پر دہلی ہائی کورٹ میں شنوائی کا منتظر ہے۔ اس ریفرینس درخواست پر فیصلے کے نتیجہ میں مندرجہ بالا دو میں سے ایک طریقہ غلط ثابت ہوجائے گا جس سے اس تکنیکی غلطی کا فائدہ یو۔اے۔پی۔اے۔ کے تحت بنائے گئے ملزمین کو ملے گا۔ میرا خیال ہے کہ یہ استغا ثہ اور حکومت کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ وزارت داخلہ کو اس سلسلے میں سنجیدہ غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ استغا ثہ اور عام لوگوں کے مفادات کو تحفظ دیا جا سکے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ احمد کاظمی کا مقدمہ دہلی پولس اسپیشل سیل کے لیے بہت ’اسپیشل‘ ہو گیا ؟
یہ حقیقت ہے کہ احمد کاظمی کا مقدمہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات کے لیے فیصلہ کن امتیازی اہمیت کا حامل ہو گیا ہے کیونکہ اول تو یہ کہ کاظمی کو محض سات ماہ کی مدت میں سپریم کورٹ نے ضمانت پر رہا کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس مقدمہ میں ایسے منطقی اورقانونی سوالات اٹھائے گئے ہیں جن سے اس قسم کے تمام مقدمات کی بنیاد ہی ہل گئی ہے۔ اس سے نہ صرف ملزم بلکہ استغاثہ بھی متاثر ہوے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کہ کیا مرکزی حکومت کے علاوہ بھی کسی کو یو۔اے۔پی۔اے۔ اور این۔آئی۔اے کے نفاذ کا اختیار ہے؟ اور کیا مجسٹریٹ کی عدالت کو ان مقدمات کو شنوائی کے لیے تسلیم کر نے کا کوئی اختیار ہے ؟ ان دو بنیادی سوالات کے حل کا نتیجہ یو۔اے۔پی۔اے۔ اور این۔آئی۔اے۔ قانون کے تحت ماخوض ملزمین کے خلاف تمام مقدمات کا خاتمہ یا ملزمین کی رہائی کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔ اب تک ملک بھر میں اکثر مقدمات کو مجسٹریٹ کی سطح کی عدالتوں میں شنوائی کے لیے تسلیم کیا گیا ہے ، لیکن کاظمی کے مقدمہ میں اس سوال کے اٹھائے جانے کے بعد دہلی میں خصوصی عدالتیں قائم کی گئی ہیں اور ریمانڈ اور مقدمے کی شنوائی کو تسلیم کرنے کے لیے سیشن عدالت کی سطح کی اسپیشل عدالتوں سے ہی رجوع کیا جا رہا ہے۔
اسوقت دہلی میں دو قسم کے مقدمات ہیں ۔ ایک قسم کے مقدمات مجسٹریٹ کی عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں جبکہ دوسرے قسم کے مقدمات میں‘ کاظمی کے ذریعہ سوال اٹھائے جانے کے بعد‘ ایڈیشنل سیشن جج کی سطح کے اسپیشل جج ہی مقدمات شنوائی کے لیے تسلیم کرتے ہیں۔ اس طرح ہائی کورٹ میں مجوزہ شنوائی کے نتیجے میں قانون کی نظر میں ان دونوں میں سے کوئی ایک طریقہ غلط ثابت ہوگا۔ اس کے بعد ممکن ہے کہ ملزمین کی رہائی کا راستہ صاف ہو جائے ۔ 

شروعاتی مراحل میں کچھ سرکاری ایجینسیوں نے ایران اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی الزامات پر یقین نہیں کیا تھا ؟
جی ہاں! اس مقدمہ میں کئی حیرت انگیز پہلو ہیں۔ کاظمی کے مقدمہ میں میڈیا میں کچھ ایسی خبریں تھیں کہ ملک کی ایک اہم خفیہ ایجینسی ’را‘ نے حکومت کو ایک رپورٹ دی تھی جسمیں کہا گیا تھاکہ دہلی میں اسرائیلی سفارتکار کی کار پر بم دھماکہ کی سازش خود اسرائیلی اور امریکی خفیہ ایجینسیوں نے کی تھی۔ اس پہلو کی کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔ میرے خیال میں اس مقدمہ کے اس پہلو کی تفتیش پیشہ ورانہ ایجینسی کے ذریعے کرائی جانی چاہیے۔ (ملی گزٹ نے یہ خبر اپنے ۱۔ ۱۵ مئی ۲۰۱۲ ؁ء کے شمارہ میں شائع کی تھی)۔
اسی طرح سے اس وقت کے تیل اور پیٹرولیم کے مرکزی وزیر ویرپّا موئلی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہندستان کے ایران پر امریکہ کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کو قبول کرنے کے نتیجہ میں ایران سے تیل کی خرید کم کرنے کی وجہ سے ہندوستان کو ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔کاظمی کے مقدمہ میں اس پہلو کی بھی گہرائی سے تفتیش ہونی چاہیے کیونکہ اس واقعہ کے بعد ہی مشتعل ماحول میں ہندوستان نے ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو تسلیم کر لیا تھا۔

مختصراً یہ بتائیں کہ اسوقت صحافی کاظمی کا مقدمہ کس مرحلہ میں ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ مقدمہ ایک کشمکش میں لٹکا ہوا ہے۔ استغاثہ کی جانب سے سرکاری وکیل کی تقرری کے بغیر عدالت مقدمہ کی کاروائی نہیں چلا سکتی ۔ استغاثہ سرکار کی جانب سے مقدمہ کو سننے اور ریمانڈ دینے کے اختیار کے سوال پر اپنا موقف صاف کرنے سے بچ رہا ہے۔ حکومت یو۔اے۔پی۔اے۔ قانون کے نفاذ کے اختیار کے بارے میں بھی کھل کر سامنے نہیں آ رہی ہے۔ (بشکریہ ملی گزٹ)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا