English   /   Kannada   /   Nawayathi

رمضان،جذبہ خیر کاماہ مبارک؛ ظلماً قید بھائیوں کو بھی یادرکھئے

share with us

رمضان میں ہمارا جذبہ خیر عروج پر ہوتا ہے۔دل چاہتا ہے کہ ہر ضرورت مند کی مدد کی جائے۔ ہرچند کہ زکوٰۃ مقررہ مقدار میں دولت کی بعض قسموں کی ملکیت پر ایک سال پورا ہوتے ہی فرض ہوجاتی ہے اور جس طرح وقت ہوتے ہی نماز اداکی جاتی ہے ،اسی طرح زکوٰۃبھی واجب ہوتے ہی اد ا کردینی چاہئے، لیکن پتہ نہیں کہاں سے یہ خیال ذہنوں میں بیٹھ گیا کہ اللہ کی امانت کی ادائیگی اور مستحقین کی راحت رسانی کو رمضان کی آمدتک موخرکردیا جائے، اوراس سے یہ امید کی جاتی ہے اجربڑھ جائیگا۔بیشک رمضان میں ہرنیکی کا اجر زیادہ ہوتاہے لیکن ہم فرض نمازوں کو توموخرنہیں کرتے کہ رمضان میں پڑھ لیں گے، زیادہ ثواب ملے گا۔ پھر فرض زکوٰۃ کو کیوں موخر کر دیتے ہیں؟ زکوٰۃ کو رمضان کے لئے موخرکرتے ہوئے یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ موت کا فرشتہ رمضان کی آمد کا انتظار نہیں کریگااورہم اللہ کے حضورقرضداراورگناہ گارحاضرہونگے۔ ہم کوئی فقہی رائے نہیں دے رہے ہیں،لیکن تقوٰی کا تقاضا یہی ہے کہ جو چیز جس لمحہ فرض ہو جائے اس کی ادائیگی میں عجلت کی جائے۔زکوٰۃ جس پرفرض ہوتی ہے نہ تووہ ہاتھ تنگ ہونے کا عذر پیش کرسکتا ہے اور نہ مستحق کے نہ ملنے کا۔ چنانچہ یہ سوال ضرور کھٹکتا ہے کہ نماز کی طرح فرض عبادت زکوٰۃ کو موخرکرنے کی ذہنیت کی حوصلہ افزائی کیوں کی جاتی ہے؟ رمضان کی مخصوص مالی عبادت فطرہ ہے، زکوٰۃ نہیں۔فطرہ کے علاوہ جذبہ خیر کی تسکین کے لئے اپنی دولت کا کچھ حصہ ضرورت مندوں پر خرچ کرنا چاہئے۔ جب قرآن یہ کہتا ہے: ’’بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو (روزِ) جزا کو جھٹلاتا ہے؟ یہ وہی (بدبخت) ہے، جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لیے(لوگوں کو) ترغیب نہیں دیتا تو ایسے نمازیوں کی خرابی ہے جو (نیکی کے کاموں سے) غافل رہتے ہیں جو ریا کاری کرتے ہیں ‘‘ (الماعون)۔ تووہ زکوٰۃ اورفطرہ کے احکام سے بڑھ کر یتیموں اورمسکینوں کی خبرگیری کا حکم دیتا ہے۔ جو بخل سے کام لیتے ہیں، ان کی نمازوں میں بھی خرابی ہے اوروہ دینداری ظاہر کرکے ریاکاری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم قرآن میں کئی مقامات پر نماز کے حکم کے ساتھ آیا ہے۔لیکن ہم جس طرح نماز کی شرائط کی فکر کرتے ہیں، اس طرح زکوٰۃ کے بارے میں نہیں کرتے ۔زکوٰۃ کے مستحقین کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور سے گنوادیا ہے۔سورۃتوبہ کی آیت 60 میں فرمایا گیا ہے:’ ’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو محتاج اورنادار (مسکین) ہیں اور جو اس کی وصولی پر مامور ہیں اور دلوں کی تالیف کے لئے اور گردنیں چھڑانے کے لئے اور قرضداروں کی مدد کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کے لئے، یہ ٹھہرایا ہواہے، اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔لیکن رمضان میں جس طرح مدارس کے سفیرصاحبان کی بہت بڑی تعداد میں تشریف آوری ہوتی ہے، اوران کی زبان پر زکوٰۃ کی طلب ہوتی ہے، اس سے ایسا لگتا ہے گویا استحقاق صرف مدارس کا ہی ہے۔بیشک مدارس میں بہت سے طلباء کمزور گھروں کے ہوتے ہیں، ان کی مدد کی جانی چاہئے۔ لہٰذااہل خیر حضرات نیک نیتی سے حصہ رسد ان سفیر صاحبان کو کچھ نہ کچھ مرحمت فرماتے ہیں۔جزاک اللہ خیرا۔ایک اندازہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کا بڑاحصہ مدارس کو ہی چلا جاتا ہے اور اکثراوقات یہ بھی تصدیق نہیں ہوتی کہ جس مدرسہ کے نام سے زکوٰۃ مانگی جارہی ہے اس کا کوئی وجود ہے بھی یا نہیں؟ گزشتہ رمضان ایک دن تجربہ یہ ہوا کہ بعدتراویح ہماری مسجد میں تشریف فرما 19سفیروں میں سے 17بہار کے ایک ہی ضلع ارریہ سے تھے اوران میں سے کئی ایک ہی گاؤں کے تھے ۔واللہ اعلم یہ کیا ماجراہے؟ لیکن بتانے والوں نے یہ بھی بتایا کہ بعض مدارس کاتو کوئی وجود ہی نہیں ہوتا اوربعض بس یونہی سے ہوتے ہیں،جن کے نام سے رسید بکیں چھپوالی جاتی ہیں اورگھر کے کئی کئی افراد چندے کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ بہرحال اس کا جواب تواللہ ان سے ہی لے گا جوبلا استحقاق زکوٰۃ طلب کرتے ہیں ،لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر زکوٰۃ بلا تصدیق غیر مستحق کو دیدی گئی اورمستحقین محروم رہ گئے،توکیا ہم فرض زکوٰۃ کی ادائیگی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے؟ جب کہ زکوٰۃ کے مدات اللہ نے خود مقرر فرما دئے ہیں۔ مقصد ان معروضات کا یہ ہے (۱) زکوۃ مال پر واجب ہوتے ہی نکال دینی چاہئے۔موت کا کچھ پتہ نہیں۔ چنانچہ اس کی دائیگی کے لئے رمضان کا انتظارنہیں کرنا چاہئے۔(۲) یہ بھی اہتمام کرنا چاہئے کہ اللہ کی یہ امانت اس کے صحیح مستحقین تک پہنچے۔ غیر مستحق نہ لے اڑیں۔ (۳)زکوٰۃ کی شرح بہت معمولی ہے۔بس صرف اسی پر نہیں کرنی چاہئے ۔ رمضان میں خصوصاًمزید خیر، خیرات اور صدقات پر بھی توجہ دینی چاہئے اور اپنے اموال میں سے زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال نکالنا چاہئے تاکہ واقعی نفل عبادت کا اجر زیادہ سے زیادہ حاصل ہو۔ 
دہشت گردی کے کیس
اس وقت ایک بڑامسئلہ ان بہت سے بے قصورافرادکی مدد کا بھی ہے جو دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں قید ہیں اوران کے اہل خانہ مالی دشواریوں کی وجہ سے مقدمات کی پیروی سے بھی قاصرہیں۔ان کی مدد احسن طریقہ سے زکوٰۃ یا صدقات سے کی جاسکتی ہے۔ یہ بات بارباراخباروں میں آتی رہی ہے کہ مولانا گلزار قاسمی صاحب سیکریٹری لیگل سیل کی نگرانی میں جمعیۃ علماء ہند مہاراشٹرا (ممبئی)اس طرح کے کیسوں کی پیروی میں تندہی سے لگی ہوئی ہے۔ مولانا کے مطابق جمعیۃ نے دہشت گردی کی 52کیسوں میں پھنسے ہوئے 410مسلم ملزمان کی پیروی پر اب تک تقریباًدوکروڑروپیہ خرچ کیا ہے۔ملک کے مختلف حصوں میں 52 مقدمات کی پیروی ایک بڑاکام ہے۔ اس پراگر صرف اتنی ہی رقم خرچ ہوئی ہے تو یہ یقیناًنہایت کفایت شعاری کا معاملہ ہے۔جزاک اللہ خیرا۔ مولانا قاسمی صاحب کے حوالے سے یہ بھی عرض ہے اس جد و جہد کے نتیجہ میں اب تک 108بے قصوروں کو الزامات سے بری کراکے رہا کرانے میں کامیابی مل چکی ہے۔ مالیگاؤں کیس کی پیروی بھی اسی تنظیم نے کی ہے۔ابھی بہت سے نئے اورپرانے کیس زیرسماعت ہیں۔ یہ بھی ایک اہم کارخیر ہے جس پرزکوٰۃ کے مد سے خرچ کیا جاسکتا ہے۔ کام صرف مقدمات کی پیروی کا ہی نہیں، بلکہ رہاشدگان کی باز آباد کاری کا بھی ہے جس کے لئے خطیررقم مطلوب ہوگی۔ ہمارے خیال سے بلاتفریق وابستگی ومسلک اہل خیر حضرات کو اس پر توجہ فرمانی چاہئے۔
گرفتاریوں پر گوڈا کا بیان
مرکزی وزیرقانون ڈی وی سدانند گوڈا نے یکم جون کو علی گڑھ میں اعتراف کیا ہے کہ’’ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا معاملہ تشویش ناک ہے۔ ہم قانونی اصلاحات پر غورکررہے ہیں۔لاء کمیشن ایک رپورٹ پر غورکررہا ہے تاکہ ضابطہ فوجداری میں اصلاحات کی جائیں اور استغاثہ کی خامیوں کودورکیا جائے۔ جو پینل یہ رپورٹ تیارکررہا ہے اس کے چیرمین سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ دیگرقانونی ماہرین ان کی مدد کررہے ہیں اوراس کو جلدی سے تیارکیا جارہا ہے۔‘‘
وزیرقانون کا یہ بیان اس لئے اہم ہے کہ حکومت نے پہلی مرتبہ تسلیم کیا ہے بے قصورمسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے معاملوں میں پھنسایا گیا ہے۔ سابق حکومت میں وزیرمملکت داخلی سلامتی سی پی این سنگھ نے مسٹرباسودیوآچاریہ کے ایک شق وارسوال کے طویل تحریری جواب میں لوک سبھا میں کہہ دیا تھا ’’عدالت میں جرم ثابت ہونے اوربری ہوجانے کا مطلب بے قصورہونا نہیں ہے۔‘‘ (26فروری 2013)
مسٹر گوڈا کے اس بیان پرہمارے محترم رہنماؤں کے سرسری سے بیانات آئے ہیں۔ایک بیان آیا یہ تو الیکشن کے پیش نظرسیاسی بیان ہے۔ جی نہیں۔جس پارٹی اورپریوار کا ایجنڈہ ہندتوا ہو، اس کو اس عندیہ سے کوئی انتخابی فائدہ متوقع نہیں۔الیکشن کے پیش نظرسیاسی بیانات وہ ہیں جو اخلاق کے معاملے میں بھاجپا کے لیڈروں بالیان، سوم، ادتیہ ناتھ وغیرہ نے دئے ہیں ۔ یا پراچی نے ’مسلم مکت بھارت‘ کا دیا ہے۔وزیرقانون کے اس بیان پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔سیاق وسباق کے ساتھ بیان کے پورے متن کو ملاحظہ فرمائیں۔ ضابطہٗ فوجداری میں کس طرح کی تبدیلیاں مطلوب ہیں اورحکومت کے پیش نظر کیا ہے ؟یہ تبدیلیاں دوطرح کی ہوسکتی ہیں۔مطلوبہ اصلاح تو یہ ہوگی کہ بے قصورکو مدت تک جیل میں ڈالنا ممکن نہ رہے اورموجودہ قانون شہادت کے مطابق ہی سماعت چند ماہ کی مقررہ مدت میں پوری ہوکربے قصور کی گلوخلاصی ہوجائے۔وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کے اس بیان کے پس منظر میں کہ ’’: بغیر پختہ ثبوت کسی کو گرفتارنہ کیا جائے‘‘ ہم توقع یہی کرتے ہیں اصلاحات ایسی ہونگیں جن کی بدولت بغیرپختہ ثبوت گرفتارشدگان کی رہائی کی راہ آسان ہوگی۔ لیکن بہرحال اس اندیشہ سے بھی فرار نہیں کہ ایسی تبدیلیاں کردی جائیں، جن سے انصاف ملنا اوربھی دشوار یا ناممکن ہوجائے۔لیکن صرف حس ظن یا اظہار شک سے آگے بڑھ کر کچھ ذمہ داری ہمیں خودبھی نبھانی چاہئے۔ ہماری بعض بڑی تنظیمیں جواس وقت طلاق ثلاثہ کی فضول بحث میں مصروف ہیں،خصوصاً مشاورت سے ہماری مودبانہ گزارش ہے کہ وہ فی الفور سابق ججوں، لائق وکیلوں اوردہشت گردی کے کیسوں میں محمودپراچہ جیسے تجربہ کاروکیلوں پر مشتمل ایک ٹیم کے سپرد یہ کام کرے کہ وہ جلد ازجلد قانونی اصلاحات کی تجاویز تیار کریں تاکہ حکومت کو پیش کی جاسکیں اور اصلاحات کا رخ الٹا نہ ہوجائے۔ یہ اصرار بھی کیا جانا چاہئے کہ تاوقتیکہ قانونی اصلاحات کا طویل عمل پورا ہو،حکومت اس طرح کے تمام کیسوں کی اسکروٹنی کرائے اور بے قصوروں کے خلاف مقدمات کو واپس لینے کی کاروائی کرے جس طرح اس نے بعض کیسوں میں حال ہی میں فردجرم تبدیل کرکے کی ہے۔مسٹرراجناتھ سنگھ نے چندروز قبل سہارنپورمیں مکررکہا ہے ہم اقلیتوں کا اعتمادحاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے معاملے میں حکومت کا راست اقدام ان کا اہم قدم ہوسکتا ہے۔
ڈی جی، این آئی اے کا بیان
دریں اثنا ایک بیان این آئی اے کے ڈایرکٹرجنرل شردکمار کا آیا ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکے میں اصل خطاکار سوامی اسیمانند اوردیگرشدت پسند ان کے ہم نوا ہیں۔ ہم ان کے اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ اوروزیرقانون سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس کیس میں بھی تیزی لانے کے اقدامات کریں تاکہ اصل سازش اوراس کے بنانے والے ملک اورقوم کے سامنے بے نقاب ہوسکیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا