English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلمانوں کو ملازمت نہ دینے کا معاملہ: سی آئی سی نے 'ملی گزٹ' کی رپورٹ کو جائز ٹھہرایا

share with us

معروف جریدہ ملی گزٹ پراس وقت آفت آگئی جب اس نے آرٹی آئی سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر صحافی پشپ شرما کی ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا تھا کہ وزارت آیوش پالیسی کے تحت مسلمانوں کو ملازمت نہیں دیتی ہے۔

رپورٹ کی اشاعت  کے بعد ایک زلزلہ آگیا۔ وزارت آیوش  کے حکم پر پولیس نے صحافی پشپ شرما کے خلاف مقدمہ قائم کرکے اُنہیں  جیل میں ڈال دیا۔  ملی گزٹ نے ان کی ضمانت کروائی لیکن اس کا مقدمہ آج بھی ساکیت کورٹ میں چل رہا ہے۔مقدمہ پولیس اور وزارت آیوش کے خلاف جارہا ہے کیونکہ فورینسک لیب نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پولیس کے دعوے کے بر خلاف پشپ شرما کے لیپ ٹاپ سے ایسی کوئی چیز نہیں برآمد ہوئی ہے جس سے کہا جاسکے کہ اس کو(لیپ ٹاپ کو)مذکورہ آر ٹی آئی کو جعلی طورسے بنا ئے جانے میں استعمال کیا گیا ہے۔


اس کیس کے دائر ہونے کے فوراً بعداخباری رپورٹز کی بنیاد پر پریس کاؤنسل آف انڈیا نے بھی ملی گزٹ کے خلاف ایک سو موٹو کیس درج کرلیا، جو لمبے عرصے تک چلا اور بالآخر خارج ہوگیا۔

اسی اثناء میں دہلی پولیس کے لائسنسنگ ڈپارٹمنٹ سے ملی گزٹ کے ایڈیٹر، پبلشر اور مالک ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کو نوٹس بھیجا کہ جعلی خبر شائع کرنے کی بنیاد پر کیوں نہ ملی گزٹ کا ڈیکلریشن (چھپنے کا لائسنس) رد کردیا جائے۔پولیس نے اپنے پہلے نوٹس میں پرچے کے خلاف ایک متعین شکایت کا ذکر کیا تھا۔ جب ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اس شکایت کی کاپی اور اس پر افسران کی نوٹنگ کی کاپی مانگی تو پولیس نے اسے دینے سے انکار کردیا۔ اس پر انہوں نے آرٹی آئی کے ذریعے وہ کاغذات مانگے مگر پولیس نے پھر بھی دینے سے انکار کردیا اور دعویٰ کیا کہ آرٹی آئی ایکٹ میں کوئی کاغذ کسی ''تھرڈ پارٹی'' کو نہیں دیا جاسکتا۔

ڈاکٹر ظفرالاسلام نے اس جواب کے خلاف اپیل داخل کی اور کہا کہ وہ تھرڈ پارٹی نہیں ہیں بلکہ صاحب معاملہ ہوتے ہوئے وہ فرسٹ یا سکنڈ پارٹی ہیں۔ اپیل میں بھی ان کی بات رد کردی گئی۔اس کے بعد ڈاکٹر ظفرالاسلام نے سنٹرل انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کی ، جس کی سماعت پچھلے دنوں ہوئی۔شنوائی کے دوران انفارمیشن کمشنر (یش وردھن آزاد) کے سامنے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اپنی بات رکھی اور کہا کہ جب تک شکایت ہمارے سامنے نہیں آتی ہے ہم پولیس کے نوٹس کا صحیح جواب نہیں دے سکتے ہیں۔انفارمیشن کمشنر نے وہیں پولیس کی ٹیم  کی سرزنش کی  کہ صاحب معاملہ سے آپ کس طرح اصل شکایت چھپاسکتے ہیں اور پھر جواب بھی مانگتے ہیں اور اسی کے ساتھ اتنے عرصے سے اسے لٹکائے ہوئے ہیں۔

سنٹرل انفارمیشن کمیشن نے اس پورے معاملے کی سماعت کے بعد  ملی گزٹ کی تائید کی اور  پولیس کو دو ہفتوں  میں  اس تعلق سے تمام متعلقہ کاغذات داخل کرنے کا حکم دیا۔

سنٹرل انفارمیشن کمشنر نے اپنے تحریری آرڈر میں لکھا ہے کہ پولیس کا شکایت کنندہ کو مطلوبہ معلومات دینے سے انکار کرنا پوری طرح سے غیر قانونی ہے۔آرڈر میں کمیشن نے مزید لکھا ہے کہ ''شکایت کنندہ کو تھرڈ پارٹی ماننا قدرتی انصاف کے مبادی کے خلاف ہے۔شکایت کنندہ کو معلومات نہ دینا غیر آئینی ہے اور کسی طرح سے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اس سے ایک شہری کے اپنے دفاع کرنے کے حق کی نفی ہوتی ہے۔ اس  لیے  جوابدہ پارٹی (پولیس ) کا جواب رد کیا جاتا ہے''۔

پولیس کے شوکازنوٹس کی ناقص ڈرافٹنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنٹرل انفارمیشن کمشنر نے اپنے آرڈر میں کہا کہ ''ہر شخص کو یہ  حق حاص  ہے کہ اس کو وہ  تمام  دستاویزات،مراسلات اور خطوط کی کاپی دی جائے جو اس کے خلاف استعمال کی گئی ہیں تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے اور اپنا کیس لڑ سکے''۔

سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کمیشن نے اپنے مفصل آرڈر میں کہا کہ ''قانونی صورت حال یہ ہے کہ اپنا دفاع کرنے کا حق ایک آئینی حق ہے۔ قانون کی روشنی میں جوابدہ (پولیس) کو شکایت کنندہ کو وہ تمام معلومات دینی چاہئے تھیں جو اس نے مانگی تھیں''۔

اپنے آرڈر کے آخر میں سنٹرل انفارمیشن کمشنرنے دہلی پولیس کو ہدایت دی کہ شکایت کنندہ کے خلاف جو شکایت ملی تھی اس کی کاپی اسے دستیاب کرائے اور اسی کے ساتھ اس کو بتائے کہ اس کے خلاف لئے گئے ایکشن کی موجودہ صورت حال کیا ہے۔ کمیشن کے آرڈر میں تعمیل حکم کے  لیے دہلی پولیس کو دوہفتے کا وقت دیا گیا اور اگر 31 اگست 2018 تک سنٹرل انفارمیشن کمیشن کو اس آرڈر پر عمل درآمد کی اطلاع نہیں ملتی ہے تو کمیشن آرڈر کی عدم تعمیل کی بنیاد پر جواب دہندہ (دہلی پولیس ) کے خلاف قانونی کارروائی کرے گا۔
واضح رہے کہ مذکورہ بالا تین مقدمات اور ان پر آنے والے اخراجات پہلے سے مالی پریشانی کے شکار ملی گزٹ کے  لیے بہت بھاری پڑے اور دسمبر 2016میں پرچے کا مطبوعہ ایڈیشن بند کردیا گیا جبکہ آن لائن (انٹرنیٹ) ایڈیشن باقی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا