English   /   Kannada   /   Nawayathi

سماجی و اقتصادی سروے رپورٹ کے سیاسی و سماجی اثرات

share with us

سو انھوں نے 2014اپریل 11کو اس کام کا باقاعدہ آغاز کیا۔اور یہ کام مئی 2014کی 10تاریخ تک چلا ۔اس سروے کے اعداد و شمار کو حالاں کہ اب تک حکومت نے عام نہیں کیا ہے مگر اس سروے رپورٹ جو ذرائع کے مطابق تقریباً مکمل ہے کے چند اہم حصے حکومت کی ایما کے بغیر قبل از وقت افشا ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کے ہوش اڑ گئے ہیں۔سدرامیا غالباً اس جرات مند لیڈر کا نام ہے جنھو ں نے اس سروے کے ذریعے جس سے ریاست کے سیاسی منظر نامے میں بہت بڑی تبدیلی کا امکان ہے اس کام کو پورا کرنے کی ٹھانی ہے اور اس کے لیے بہر حال ان کی جرات کو سلام کرنا پڑے گا۔ویسے اس قسم کا سروے آزادی کے بعد کسی بھی سیاسی لیڈر یا وزیر اعلیٰ نے نہیں کروایا تھا۔ہاں آزادی سے قبل 1931میں یہ سروے ہوا تھا مگر اس کا تذکرہ کرنا یہا ں بے محل ہو گا۔
ریاست میں اب تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ لنگایت طبقہ کی اکثریت ہے اور اس کے بعد وکلیگا اور اس کے بعد ایس سی ایس ٹی اور پھر اقلیتی طبقہ جس میں مسلمان،سکھ ،مسیحی اور جین و بدھ مت کے ماننے والے ہیں کی تعداد ہے۔اب تک ریاست کرناٹک میں آزادی کے بعد سے 8لنگایت ،7وکلیگا ،5پسماندہ طبقات اور 2برہمن وزرائے اعلیٰ گزرے ہیں۔مگر افشا شدہ سروے رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ریاست میں اس وقت سر فہرست شیڈولڈ کاسٹ طبقہ ہے جن کی ذیلی ذاتیں 180ہے اور ا ن کی آبادی 1.08کروڑ ہے اور ان کا تناسب 18%ہے۔دوسرے مقام پر 84ذیلی ذاتوں کے ساتھ مسلمان ہیں جن کی مجموعی آبادی 75لاکھ ہے اور ان کی آبادی کا تناسب 12.5%ہے۔لنگایت طبقہ کی آبادی 9.8%کے ساتھ صرف 59لاکھ ہے اور ان میں 90ذیلی ذاتیں ہے۔ان کے بعد وکلیگا ہیں جن کی آبادی کا تناسب8.16%ہے اور صرف 10ذیلی ذاتوں کے حامل اس طبقہ کی جملہ آبادی 49لاکھ ہے ۔کروبا کی آبادی بغیر کسی ذیلی ذات کے 43لاکھ ہے اور ان کی آبادی کا تناسب 7.1%ہے۔ایس ٹی طبقہ 105ذیلی ذاتوں کے ساتھ 42لاکھ کی آبادی رکھتا ہے جس کا تناسب 7%ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ برہمن طبقہ کی آبادی 13لاکھ ہے اور یہ کل آبادی کا صرف 2.1%رکھتا ہے۔2011میں کی گئی مردم شماری میں کرناٹک ریاست کی آباد ی کو 6.1کروڑ دکھایا گیا تھا مگر اس سروے میں کرناٹک کی آبادی کو 6کروڑ دکھایا گیا ہے۔اس تخفیف کے متعدد اسباب ہو سکتے ہیں جیسے نقل مکانی ،ملازمتوں کے حصول کے لیے ریاست کے باہر چلے جانا یا جن اوقات کار میں یہ سروے کیا گیا تھا اس دوران میں زیادہ تر لوگ یا تو تعطیلات منا رہے تھے یا پھر وہ ذاتی مکانات میں مقیم نہیں تھے مگر ایسے لوگوں کا سروے بھی ان مقامات پر یقیناًکیا گیا تھا جہاں وہ فی الفور سروے کے موقع پر مقیم تھے ۔یہ بھی یاد دلایا جائے کہ اس سروے میں فروغ کے لیے 16اشاریے اور تنزلی کے اظہار کے لیے 14اشاریے تھے اور اس میں جملہ 55سوالات سروے کرنے والے عملے کو مالک مکان یا مقیم سے پوچھنے تھے ۔جس میں اس کی ذات ،گھریلو آمدنی،گھر کے تمام افراد کی تعلیمی لیاقت،زندگی گزارنے کے لیے کس پیشہ کو اختیار کیا جارہا ہے اس کی نشاندہی،جائیداد کی فراہمی اور یہ بھی کہ آیا مذکورہ گھر میں بیت الخلا ہے یا نہیں ان سب معلومات کا بیان تھا۔
یہ ذکر خیر تھا اس سروے رپورٹ کے ماخذات کا ۔اب یہ دیکھنا ہے کہ آیا اس رپورٹ کے ریاست پر کیسے اثرات نمودار ہوں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی ثقافت و روایت کی علم بردار بی جے پی جس کا دعویٰ ہے کہ وہ صاف و شفاف سیاست پر یقین رکھتی ہے سابق وزیر اعلیٰ مسٹر بی ایس یڈی یوراپا کو جو پہلے ہی سے پارٹی کے قومی نائب صدر کے جلیل القدر عہدے پر فائز تھے کو پارٹی کی ریاست کی عنان پانچویں بار تھمائی۔انھو ں نے پارٹی کی ریاستی قیادت کا بوجھ مسٹر پرہلاد جوشی سے اپنے کاندھوں پر لیا۔مسٹر یڈی یورپا کو پارٹی کا صدر بنانے کے بعد میڈیا میں اس کے ساتھ ایک سطر یہ بھی جوڑی گئی تھی کہ ریاست کے اکثریتی طبقہ لنگایت کے طاقتور رہنما مسٹر یڈی یوراپا کرناٹک بی جے پی کے صدر بن گئے۔اصل میں بی جے پی کو 2018کے الیکشن میں پارٹی کی جیت کا خیال ہے نہ کہ لنگایت طبقہ کی فلاح و بہبود کا ۔کرناٹک میں ذات پا؂ت کی سیاست ملک کے کسی بھی حصے میں ہونے والی سیاست سے الگ نہیں ہے ۔بی جے پی کا واحد دار و مدار ذات پات کی سیاست سے ہے ۔لنگایت طبقہ کو عام طور پر ریاست کرناٹک کا اکثریتی طبقہ قرار دیا جاتا تھا مگر افشا شدہ رپورٹ کے ان اہم حصوں کے منظر عام پر آنے کے بعد اب مسٹر یڈی یوراپا کو یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ ایک تم ہی نہیں تنہا الفت میں مری رسوا ۔سو انھوں نے بھی امبیڈکر امبیڈکر کا جاپ شروع کردیا۔ اپنے عہد�ۂ صدارت کا جائزہ لینے اور دلتوں کو قریب کرنے اور امبیڈ کر کے اصولو ں پر چلنے کی عوام کو 14پریل کو ان کی تلقین اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مسٹر یڈی یوراپا کا اب کوئی جادو چلنے سے رہا۔کیوں کہ اکثریت لنگایت طبقہ کی نہیں ہے بلکہ پسماندہ طبقات کی ہے اور بادشاہ گر کا موقف مسلمان طبقہ کو حاصل ہے۔یہ صحیح ہے کہ لنگایت اور وکلیگا طبقہ کو اگر ملا یا جاتا ہے تو ان کا اوسط 45%نکلے گا جب کہ اتنا ہی اوسط مسلمانوں اور پسماند ہ طبقہ کا ہوگا۔اب سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بی جے پی کے اس لیے ہوش اڑ گئے ہیں کہ جو کارڈ و ہ آج تک کھیل کر ووٹ حاصل کیا کرتے تھے خاص طور پر 2008میں اقتدار پر آنے کے بعد اور اس کے دوران میں ہوئے بے شمار ضمنی الیکشن (جو زیادہ تر آپریشن کمل کی دین تھے )میں انھوں نے دھڑلے سے استعمال کیا اور الیکشن میں جیت حاصل کی تھی ۔مگر جوں ہی 2013کے الیکشن آئے بی جے پی یڈی یوراپا سے فاصلہ برقرار رکھتی چلی گئی اور بالآخر یڈی یوراپا جنھو ں نے اس زمانے میں خوب رونا دھونا شروع کیا تھا روتے ہوئے اپنی پارٹی سے استعفی دے دیا اور کرناٹک جنتا پارٹی کی بنا ڈالی جو زائد از ایک سال چلی جس نے 2013کے عام الیکشن میں صرف 4نشستں جیتیں اور بی جے پی کو خاک چٹوانے میں اہم رول ادا کیا۔اگر آج بی جے پی اپوزیشن میں ہے اور اس کے صرف 40ارکان ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ خود پارٹی کے موجودہ صدر ہیں ۔اگر مسٹر یڈی یوراپا لنگایت طبقہ کے نمائندہ اور طاقتو ر لیڈر ہوتے تو 2013میں کیا ان کا جادو گہنا گیا تھا کہ کرناٹک کے لنگایت طبقہ پر چل نہ سکا۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ امیت شاہ نے یڈی یوراپا کو پارٹی کی کمان سونپتے وقت جن امور کو سامنے رکھا تھا اب اس سروے رپورٹ کے چند اہم ماخذات کے منظر عام پر آنے کے بعد سے وہ امور اب کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔نیز جب وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز تھے روز اول سے ان کی پارٹی میں بے شمار بغاوتیں اور اسکامس سر ابھارتے رہے ۔کئی وزرا عریاں فلموں کے اسمبلی میں مشاہدے سے لے کر اسمبلی کے اندر رشوت خوری میں تک پکڑے گئے خود وزیر اعلیٰ کو ایسے ہی شرمناک الزامات کے تحت جیل جانا پڑا تھا ۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر یڈی یوراپا پارٹی کا طاقتور نمائندہ چہرہ کبھی بھی نہیں رہے۔ان کی کے جے پی کی تشکیل کے موقع پر مسٹر جگدیش شیٹر ،سدانند گوڑا اور اننت کمار و کے ایس ایشوراپا کے ان کے خلاف بیانات آج بھی میڈیا کے ریکارڈ میں ہیں۔
اسی طرح وکلیگا طبقہ ہے جس کی نمائندگی کا ٹھیکہ جے ڈی ایس نے لے رکھا ہے ۔اس کو دعویٰ ہے کہ وہ اس طبقہ کی واحد نمائندہ پارٹی ہے مگر 2013اور حالیہ ضمنی و پنچایت الیکشن میں یہ ثابت ہو گیا کہ یہ پارٹی قدیم میسور کے چند اضلاع میں ہی کسی قدر موثر ہے ۔حالا ں کہ ہاسن کے ایک اہم حلقہ اسمبلی میں حالیہ ضمنی الیکشن میں پارٹی کے امیدوار کو ملی کراری شکست اس بات کی شاہد ہے کہ ذات پات کی سیاست میں اس وقت جے ڈی ایس کا مقام کیا ہے۔کسی زمانے میں ریاست کرناٹک میں حکومت کرنے والی اس پارٹی کو اپنی قیادت کے چند غلط فیصلو ں کا خمیازہ اب تک بھگتنا پڑ رہا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ پارٹی اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے اور اس کی تصحیح کرنے کے بجائے دیگر امورمیں وقت صرف کر رہی ہے۔
ادھر وزیر اعلیٰ سدرامیا کا سیاسی مستقبل اور موقف دونوں اس سروے کے بعد سے مستحکم ہوتا نظر آرہا ہے ۔جنھوں نے نہایت ہی دور اندیشی سے اپنے مخالفین کو ایسی چوٹ پہنچائی ہے جس کی بھر پائی کے لیے انھیں اب بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ اس کا جواب کیسے دیں۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مسٹر سدرامیا اس سروے رپورٹ کو مناسب وقت پر عام کریں گے ۔مسٹر سدرامیا کے پاس ایک کارڈ ہے جو ذات پات کی اس سیاست کے منظر نامے میں سب سے ابھرا بھرا نظر آرہا ہے اور وہ کارڈ ہے آہندا کا۔آہندا مسٹر سدرامیا کی وہ تحریک ہے جس میں انھوں نے پسماندہ طبقات اقلیتوں اور دیگر ذاتوں او بی سی کو ساتھ لیا تھا اور یہ تحریک عوام میں خاصی مقبول ہوئی تھی ۔آہندا اگر چہ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے اور اس وقت کارکرد بھی نہیں ہے مگر زندہ ضرور ہے اور مسٹر سدرامیا اپنا سارا وقت اس تحریک کو دوبارہ زندہ کرنے اور اس میں دوبارہ روح پھونکنے میں صرف کریں گے ۔
2018میں کس طبقہ کا وزیر اعلیٰ ہو۔اس بحث کا آغاز آہستہ آہستہ شروع ہو رہا ہے اور سدرامیا کے خلاف بباطن جو آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ ریاست میں دلت وزیر اعلیٰ ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ وہ اصل میں صحرا میں اٹھنے والی صدائیں نہیں تھیں بلکہ اس رپورٹ کے بعد جو سیاسی مبصرین اور پنڈتوں کو حالات نظر آرہے ہیں ان کا پیش خیمہ تھیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سدرامیا نے اپنی بہترین پالیسیوں اور اسکیموں سے غریبو ں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے اور اتنا تو ضرور کہا جاتا ہے کہ جہاں تک ترقیاتی کاموں اور غریبوں کے فلا ح و بہبود کا سوال ہے مسٹر سدرامیا کی حکومت پیش رو حکومت سے بد جہا بہتر ہے۔اگر پسماند ہ طبقہ اکثریتی طبقہ ہے تو پھر اس کا وزیر اعلیٰ کیوں نہیں؟اگر مسلمان دوسری بڑی آبادی ہے تو اس کا نائب وزیر اعلیٰ کیوں نہیں ؟کیا 2018کی سیاست اپنے جلو میں ایسا کوئی وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ پیش کر سکے گی۔وزیر اعلیٰ سدرامیا نے جس چالاکی سے اس سروے کو کروایا ہے اور حقیقت کو سامنے لایا ہے اس سے ریاست کے سیاسی افق پر ایک نیا سورج طلوع ہوسکتا ہے اور واضح رہے کہ اس سے زبردست سیاسی انقلاب بھی آسکتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ موجودہ سروے کی رپورٹوں کے مطابق پسماندہ طبقہ اور مسلمانوں کا کوئی واضح لیڈر موجود نہیں ہے ۔ان میں اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے اور انھیں چاہیے کہ وہ حال ہی میں وکلیگا طبقہ کے دو ایسے لیڈران کے اجتماع سے جو سیاسی نظریات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے کوسوں دور ہیں ایک ساتھ اجتماع سے سبق سیکھیں۔ہمارا اشارہ مسٹر ایس ایم کرشنا اور مسٹر ایچ ڈی دیوے گوڑا کے ایک عوامی جلسہ میں ایک ساتھ ڈائس پر بیٹھنا اور ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی محبت سے پیش آنا ہے۔کیا مسلمان کلمہ،ایمان،کتاب اور رسول کے نام پر بھی ایک نہیں ہو سکتے۔اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی پلیٹ فارم پر اپنے آپسی اختلافات بھول کر ایک ہوجائیں اور اپنی قوم کی اور اپنی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کو اختیار کریں تاکہ مسلمانوں میں سیاسی شعور پیدا ہو سکے اور سیاست اور ملازمتوں میں ان کی حصہ داری کو یقینی بنایا جاسکے ۔ٹکڑوں میں بٹے مسلمانوں کو یک جا کرنا ہو توا ن کے لیڈروں کو چاہیے کہ وہ آپس میں مل کر ایک واضح لائحہ عمل طے کریں اور اس میں تمام مکتبہ فکر کے افراد کو نمائندگی اور انھیں اپنی بات سامنے رکھنے کا پورا موقع دیا جائے ۔علامہ اقبال کے بقول ؂ کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو امت احمد مرسل کو مقامی کر لو۔سیاسی استحکام سے ہی سماجی ترقی ممکن ہے اور ساری ترقیاں صرف سیاسی استحکام سے ہی عبارت ہیں اور سیاسی استحکام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے چنانچہ مسلم قیادت کو خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے منسلک کیو ں نہ ہو سیادت کا ثبوت دینا ہوگا۔نیز علما کرام کو بھی چاہیے کہ وہ موجودہ بدلتے ہوئے حالات کا تجزیہ کریں اور قوم میں سیاسی شعور کو بیدار کریں کیوں کہ آنے والے زمانے میں اب جیسے حالات نہیں رہیں گے۔ہم حکومت کرسکتے ہیں یا اس میں حصہ داری ہی ادا کرسکتے ہیں تو محکوم بنے رہنا کیوں پسند کریں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا