English   /   Kannada   /   Nawayathi

صرف طاہر محمود صاحب کے نام چند معروضات

share with us

اور اس کی فقہی تشریح کے مطابق تین بار دی جاسکتی ہے۔ طلاق ثلاثہ کا جواز نہ قرآن کی آیات سے نکلتا ہے۔ نہ اس کی فقہی تشریح سے۔
پروفیسر طاہر محمود نے مزید کہا کہ گذشتہ 50 برس میں ایک کے بعد ایک مسلم ملکوں نے قانون بنا دیا ہے کہ ایسی ہر طلاق ایک ہی مانی جائے گی اور عدت کے خاتمہ تک واپس لیا جاسکتا ہے۔ ہماری یہ حیثیت نہیں ہے کہ ہم ان سے قانونی بحث کریں۔ وہ ہمارے بھی محترم ہیں۔ ہم نے اس معاملہ میں صرف یہ لکھا تھا کہ جب سعودی عرب میں اسے مذاق بنا لیا گیا تو حضرت عمرؓ نے تین کو تین کے برابر قرار دیا تھا۔ اور جماعت صحابہؓ میں ان کی حیات میں اور ان کے بعد بھی کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی۔
اس وقت صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد پاکستان میں غلام پرویز یا ایسا ہی کوئی نام تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم اہل قرآن ہیں۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ہم اتنے باشعور نہیں تھے کہ ایسے اہم مسائل کو یاد رکھتے۔ لیکن یہ خوب یاد ہے کہ علماء پاکستان اور علماء ہند نے سخت الفاظ میں اس کی مخالفت کی تھی۔ کچھ دن تو وہ یہ دلیل دیتے رہے کہ جب ایک طبقہ یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں ہمیں کسی امام کی کوئی ضرورت نہیں تو ہم اہل قرآن کیوں نہیں ہوسکتے؟ اس لئے کہ دین تو قرآن ہے۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں بھی یہی عرض کیا گیا تھا کہ صرف قرآن عظیم پر انحصارکرکے مسئلہ کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور جو بضد ہوگا وہ اہل قرآن ہی ہوسکتا ہے۔
اس وقت عرض کرنا یہ ہے کہ کیا مسلم معاشرہ میں طلاق کی ایسی ہی وبا آئی ہوئی ہے جیسی خلفاء کے زمانہ میں آئی تھی۔ اور جس پر روک لگانے کے لئے حضرت عمرؓ کو یہ فیصلہ کرنا پڑا؟ ہم صوفی احمد حسین کے پوتے ہیں اور اب 84 سال کی عمر میں ہمارے نواسے اور نواسیاں بھی صاحب اولاد ہوچکے ہیں۔ اپنے دادا کے پورے خاندان کو شمار کریں تو ان کی تعداد تین سو سے زیادہ نکلے گی۔ جن میں سو سے زیادہ وہ ہیں جن کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ لیکن کہیں بھی طلاق کا ذکر نہیں ہے۔ ہمارے بچپن، نوجوان، جوانی اور بڑھاپے کے دوست شاید سو سے بہت زیادہ ہوں گے۔ ان میں صرف ایک دوست کی بات یاد ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی یاد نہیں۔
عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ قرآن پاک نے تو واضح الفاظ میں نہ جانے کتنے حکم دیئے ہیں۔ جیسے ’’تجارت حلال ہے اور سود حرام‘‘ یا غیرشادی شدہ مرد اور عورت اگر زنا کرے تو سو سو کوڑے مارے جائیں اور نرمی نہ برتی جائے۔ یا چور مرد یا عورت کے ہاتھ کاٹے جائیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ زانی مرد اور زانی عورت کا نکاح مومن عورت اور مومن مرد سے نہیں کیا جاسکتا مومن لڑکیاں زانیوں پر حرام کردی گئی ہیں۔ 100 کوڑے یا ہاتھ کاٹنا ملک کا قانون اگر اجازت دے تب ہی ممکن ہے۔ لیکن زانی مرد کا نکاح صرف زانیہ یا مشرکہ سے ہوگا۔ اس میں کوئی حکومت دخل نہیں دے سکتی یہ ہمارا شرعی مسئلہ ہے۔
کیا پروفیسر صاحب یا کوئی اور دوست کوئی مثال دے سکتے ہیں کہ کہیں نکاح سے پہلے قاضی نے لڑکے سے قسم لے کر یقین کیا ہو کہ اس نے زنا نہیں کیا ہے؟ کیا قرآن کے اتنے واضح اور اتنے سخت حکم کی حیثیت یہ ہے کہ اسے ناقابل ذکر سمجھا جائے۔ اور صرف طلاق کی آیات کو دانتوں سے پکڑلیا جائے۔ کیا کبھی پرفیسر طاہر جیسے بڑے قانون داں نے سود کے بارے میں اتنا واضح کوئی بیان دیا ہے۔ جبکہ صاحب حیثیت مسلمانوں کی اکثریت کاروبار کے لئے، مکان کے لئے، کار کے لئے اور تعلیم کے لئے بینک سے روپیہ لیتے ہیں اور سود دیتے ہیں۔ حدیث شریف ہے کہ ’’الرّاشی والمرتشی ملکہ ہما فی النّار‘‘ رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنم میں جائیں گے۔ کیا اس مسئلہ پر کبھی پروفیسر صاحب کو بیان دینے کا خیال آیا ہے؟ کیونکہ ہندوستان ہی نہیں ہر مسلم ملک میں بھی رشوت اجرت سے زیادہ عام ہے۔ اور ہندوستان میں تو آپ اگر رشوت نہ دینے کی قسم کھالیں تو شاید آپ کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔
پرفیسر صاحب یی فرما دیں کہ ان کے خاندان اور حلقۂ احباب نیز ہم پیشہ دوستوں میں کتنے ہیں جو طلاق کے مسئلہ سے پریشان ہیں؟ اور کتنے ہیں جو سود دے رہے اور لے رہے ہیں یا زانی کا نکاح مومنہ سے ہوتا دیکھ رہے ہیں اور اس حرام فعل میں شریک ہیں۔ چوری کے معاملہ میں سب نے پڑھا ہوگا کہ حضور اکرمؐ کے پاس ایک سفارش آئی کہ چوری کی ملزمہ فاطمہ نامی ایک عورت کو رحم فرماکر معاف فرما دیا جائے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ اگر فاطمہ بنت محمدؐ نے بھی چوری کی ہوتی تو میں ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔
حضرت عمرؓ کا طلاق کے بارے میں فیصلہ بعض حضرات پر گراں گذرا ہے لیکن کیا یہ بھی شبہ کی بات ہے کہ قرآن عظیم کی کتابی شکل بھی حضرت عمرؓ کا کارنامہ ہے۔ جب جنگ یمامہ میں 6 ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے اور ان میں کئی حافظ قرآن تھے تب حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے درخواست کی تھی کہ اگر حافظ قرآن نہ رہے تو قرآن عظیم کا کیا ہوگا؟ جس پر خلیف�ۂ اوّل نے فرمایا تھا کہ جو کام حضور اکرمؐ نے نہیں کیا یا جسے کرنے کا حکم نہیں دیا وہ ہم کیسے کریں؟ اور پھر جب حضرت عمرؓ نے بزرگ صحابہؓ کو بھی متوجہ کیا تب۔ اور حضرت زیدبن ثابتؓ نے بھی اتفاق کیا تو ان کی ہی صدارت میں ایک کمیشن بنا اور قرآن کی تدوین ہوئی۔ اور اس کی موجودہ ترتیب اور تدوین حضرت عثمانؓ نے کی۔ ورنہ کلام پاک کی ابتدا تو اقراء سے ہوتی۔
اس کے بعد صحابۂ کبار نے جیسی باریک چھلنیوں میں چھانا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جتنا اور جیسا کلام پاک حضور اکرمؐ کے اوپر نازل ہوا تھا۔ اس کا زیر زبر بھی اسی طرح ہے اور اس کی مدد پاک پروردگار نے فرمائی جو فرماچکے تھے۔ ’’ہم ہی اسے نازل کرتے ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‘‘
محترم طاہر محمود صاحب نے ایک بات اور فرمائی ہے کہ گذشتہ 50 برسوں میں ایک کے بعد ایک مسلم ملکوں نے قانون بنا دیا ہے کہ تین طلاق برابر ایک طلاق مانی جائے۔ دو مسلم ملک تو اپنے ملک کے مشرق اور مغرب میں ہیں جن کے سربراہ کیا واقعی یہ حق رکھتے ہیں کہ قرن اوّل کے بنائے ہوئے قانون کو تبدیل کردیں؟ پروفیسر صاحب ذرا اُن کی صورت ہی دیکھ لیں۔ اگر ایک کو شری بھروسے لال اور دوسری کو نندنی دیوی بتاکر تعارف کرایا جائے تو سننے والا چونکے گا نہیں۔ ان میں جو بنتِ بنگ بندھو ہیں وہ آئے دن ان مسلمانوں کو پھانسی دلا رہی ہیں جن کا جرم وہی ہے جو دین کے داعی مولانا سید ابوالاعلا مودودی کا تھا۔ اور جن کو ایوب خان مملکت خداداد پاکستان میں پھانسی دینا چاہتے تھے۔ اور مصر بھی مسلم ملک ہے جس کے سربراہوں نے دین اسلام کے آفتاب و ماہتاب اور تمام روشن ستاروں کو یا گولیوں سے بھون دیا یا پھانسی دے دی یا جیل میں ڈالا ان کا بھی قصور اسلام کی تبلیغ اور حکمرانی کی کوشش تھی۔ جانتے تو ہم دوسرے مسلم ملکوں کو بھی ہیں لیکن کس کس کو روئے۔ معمر قذافی کا دَورِ حکمرانی اور ان کے شب و روز صدام حسین کی زندگی اور ان کے بیٹوں کے کارنامے کہ کوئی حسین شریف زادی ان کے بستروں کی زینت بننے سے نہ بچ سکی۔ اور اب بشار الاسد یا دوسرے سربراہ کہ جس کی دم اٹھاکر دیکھیں وہ مادہ نکلے۔ ان کی مذہب دشمنی سے بس قرآن عظیم بچا ہوا ہے وہ بھی صرف اس لئے کہ مالک حقیقی نے فرما دیا ہے کہ ’’وانّا لہٗ لحافظون‘‘ ورنہ یہ بے ایمان مسلم سربراہ تو یہودیوں کے ہاتھ کتاب عظیم کا بھی سودا کرچکے ہوتے۔ ہماری صرف ایک مؤدبانہ درخواست ہے کہ جو ہم نے عرض کیا اس پر غور کرلیا جائے اسے بحث کا موضوع نہ بنایا جائے۔ اس لئے کہ ہمارا روئے سخن صرف پروفیسر طاہر محمود صاحب کی طرف ہے۔ اور اگر ان کا بیان اودھ نامہ میں نہ چھپتا تو ہم ایک سطر بھی نہ لکھتے۔
ایک آخری بات اور عرض کردوں کہ پروفیسر صاحب کا یہ ٹکڑا کہ ’قرآنی آیات کے مطابق پوری ازدواجی زندگی میں طلاق الگ الگ موقعوں پر صرف دو بار اور اس کی فقہی شرح کے مطابق تین بار دی جاسکتی ہے۔ طلاق ثلاثہ کا جواز نہ قرآنی آیات سے نکلتا ہے اور نہ فقہی تشریح سے۔ محترم یہ واضح فرمادیں کہ اب جو علماء تین کو تین مان رہے ہیں وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے کہ فقہ کے چاروں امام طلاق ثلاثہ کو مان رہے ہیں یعنی تین کو تین تو کیا ان کا فقہ دوسرا ہے۔ اور پروفیسر صاحب کا دوسرا؟ اور اگر دوسرا ہے تو وہ کیا ہے؟
ایک بات اور، اچھا ہے کہ عرض کردیں۔ ہم نے اپنے ایک دوست کی دی ہوئی طلاق کا ذکر کیا ہے۔ ہمارے دوست حسیب نے اپنی بیوی اور ہماری بیوی کی منھ بولی بہن کو طلاق دے دی۔ اور پھر پچھتانا شروع کیا۔ ہم پورا مقدمہ لے کر والد کے پاس آئے۔ انہیں بتایا کہ حسیب کو ہاجرہ سے کتنی محبت ہے اور وہ اسے کتنے ناز و انداز سے رکھتا ہے؟ ہوا یہ کہ آج کی سی گرمی تھی وہ دوپہر میں کھانا کھانے آئے ڈیوڑھی میں 12 سالہ چھوٹی سالی جاتی ملی اس کی مٹھی بند تھی۔ حسیب نے معلوم کیا کہ کیا ہے؟ وہ گھبرا گئی۔ پھر ڈانٹا تو دکھایا کہ 20 روپئے تھے۔ حسیب کی سسرال کے حالات بگڑ گئے تھے۔ ہاجرہ حسیب سے چھپاکر مدد کردیتی تھی۔ جس کا شبہ حسیب کو تھا۔ وہ سالی کو لئے ہاجرہ کے سامنے گئے اور کہا کہ تم مجھ سے چھپاکر اور چراکر مدد کیوں کرتی ہو؟ شدید گرمی بھوکا آدمی بیوی کی بے وفائی کہ وہ شوہر سے ماں باپ کو زیادہ چاہے۔ اس پر طلاق دے دی۔
ہم نے مقدمہ پیش کرتے وقت پوری منظرکشی کردی۔ والد ماجد کو ہم لوگوں کے تعلقات کا علم تھا وہ جانتے تھے کہ بیٹے اور بہو کو بہت صدمہ ہے۔ لیکن ان کا جواب یہ تھا کہ بیٹے طلاق تو غصہ میں ہی دی جاتی ہے۔ پیار محبت میں کون طلاق دیتا ہے؟ اور یہ طلاق اس غصہ کی سزا ہے کہ صرف 20 روپئے یا اس سے پہلے دیئے ہوئے سو دو سو روپئے کیا بیوی سے زیادہ ہیں؟ سزا دینا تھی تو ماں باپ بہن بھائیوں کے آنے پر پابندی لگائی جاسکتی تھی۔ شریعت نے اور بھی سزا کی اجازت دی ہے اور طلاق تو سب سے آخری سزا ہے یہ فوراً کیوں دی؟ ہم سے فرمایا کہ تم دونوں کی تکلیف میں سمجھتا ہوں لیکن یہ کوشش نہ کرو کہ کسی ترکیب سے ثابت کرادو کہ طلاق نہیں ہوئی۔ یہ بھی گناہ ہے۔ اور ہم نے حسیب کو بھی منا لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم ہاجرہ کی ہر ممکن مدد کرتے رہے۔ اور دو سال کے بعد حسیب نے دوسری شادی کرلی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا