English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہندوستانی بینک، اعتماد کے بحران کا شکار

share with us

عدالت نے مرکزی حکومت سے بھی سوال کیا ہے کہ قرض لینے والوں سے رقم وصول کرنے کیلئے وہ کیا اقدام کررہی ہے۔ ملک کے ممتاز وکیل پرشانت بھوشن کی عرضداشت پر سماعت کے دوران عدالت کو آربی آئی اور حکومت ہند سے یہ سوال کرنے کی نوبت اس وقت آئی جب بھوشن نے شکایت کی کہ ہر سال سرکاری بینکوں کا ہزار کروڑ روپیہ اس لئے ڈوب جاات ہے کہ بینکیں نادہندہ لوگوں کو نان پرفارمنگ ایسٹ ، اثاثہ (این بی اے) کی فہرست میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ وہ قرض ہوتا ہے جسے بینک ناقابل وصول قرار دے دیتی ہے اور ہر سال ایسے ہزاروں معاملے بینکوں کوبند کرنے پڑتے ہیں جن کی مالیت لاکھوں کروڑں تک پہونچ چکی ہے۔ا یک آر ٹی آئی سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ حال کے سال گزشتہ ۱۵۔۲۰۱۴ کے دوران ۲۹ بینکوں نے ۱۱ء۲ لاکھ کروڑ روپے پرمشتمل قرض معاملات کو بند کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اتنی بڑی رقم ڈوبنے پر بھی حیرانی ظاہر کی ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ بڑے قرض داروں کا یہ سوچا سمجھا کھیل ہے جس کے ذریعہ وہ بینکوں سے قرض لیتے ہیں او رمختلف طریقوں سے خود کو دیوالیہ قرار دے لیتے ہیں یا راہِ فرار اختیار کرلیتے ہیں جیسا کہ سرمایہ دار مالیہ پر الزام ہے کہ اس نے بینکوں سے ۹ ہزار کروڑ روپے قرض لئے اور ملک سے بھاگ گیا۔
ہندوستان کا بینک سیکٹر دوسری جس مشکل سے ان دنوں دوچار ہے اور جن کے بارے میں کوئی اظہار خیال بھی نہیں ہورہا وہ بینکوں میں جمع ہونے والی رقم میں کمی ہے۔ ایک جائزہ میں بتایاگیا ہے کہ بینکوں کی جمع رقم میں ہونے والا سالانہ اضافہ گزرے مالی سال کے دوران پچھلے ۵۳ برس میں سب سے نچلی سطح پر آگیا ہے کیونکہ آربی آئی کے مطابق عوام کا عام رجحان بینکوں میں رقم جمع کرنے کے بجائے گھر میں رکھنے یا خرچ کردینے کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ رجحان جاری رہا تھا آنے والے ایام میں ہندوستانی بینکنگ سیکٹر کا حال خراب ہونا یقینی ہے۔
ہندوستان میں بیکنگ کا کاروبار اس لئے اچھا ماناجاتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی جمع رقم پر دیا جانے والا انٹرنس ، تقسیم کئے جانے والے قرضوں پر وصول کئے گئے سود کے مقابلہ میں کافی کم ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی نئی کریڈٹ پالیسی جاری ہوتی ہے توکسی بھی بینک کو ۳۰ یا ۴۰فیصد سے زیادہ کی رقم آربی آئی سے لینا نہیں پڑتی کیونکہ وہ لوگوں کی جمع رقم سے کام چلا لیتی ہے لیکن یہ سلسلہ اب ٹوٹنے لگا ہے۔
اسٹیٹ بینک کولوگوں کے بینکوں کی رقم جمع نہ کرنے کی دووجہیں نظر آرہی ہیں۔ ایک قرض سستا ہونا جس کی وجہ سے لوگ زیادہ سامان خریدنے لگے ہیں، دوسرے باہر ملکوں میں رقم بھیجنے کی رفتار پچھلے ایک سال میں سوا تین گنا بڑھ گئی ہے، اس کے ساتھ ریاستوں میں ہورہے الیکشن کی وجہ سے تقریباً ۶۰ ہزار کروڑ روپے بینکوں سے نکل کر نقدی کی شکل میں آگیا ہے، جو الیکشن مکمل ہونے کے بعد دھیرے دھیرے بینکوں میں واپس ہوسکتا ہے، لوگوں سے تبادلہ خیال کرنے پر یہ بھی اندازہ ہوا کہ عوام بالخصوص بزرگوں کا فکسڈ ڈپازٹ سے بھروسہ اٹھ گیا ہے، جس کی وجہ انٹرنس کی شرح کم ہونا تو ہے ہی اس کے علاوہ بڑے سرمایہ داروں کے قرض کی معافی سے پیدا ہوا عدم اعتماد بھی ہے۔ 
وزارت مالیات بینکوں کو اس بحران سے نکالنے کیلئے سہارا دے رہی ہے لیکن اس کا خاطر خواہ اثر مرتب ہوگا یہ کہنا فی الحال دشوار ہے۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا