English   /   Kannada   /   Nawayathi

عدالتی نظام کو متاثر کرنے کی سرکاری کوشش

share with us

انہوں نے مقدمات کوتیزی سے نمٹانے کیلئے عدلیہ کا تعاون چاہا ہے اور یہ تاثردینا چاہا ہے کہ دہشت گردی ایک غیر جماعتی معاملہ ہے۔ 
مسٹرڈوو ل کا یہ بیان کہ’’ دہشت گردی ایک غیرجماعتی معاملہ‘‘ اس حد تک تو درست ہے کہ دہشت گردی کے نام سے مخصوص طبقے کے نوجوانوں کو بغیر سندوجوازمقدمات میں ملوث کرنے اورجیلوں میں ڈالنے کے کام میں یوپی اے اوراین ڈی اے میں کوئی فرق نہیں۔ سماجوادی اوربی ایس پی کے دورحکومت میں یوپی میں وہی سب کچھ ہوا جو این سی پی اورکانگریس کی سرکار میں مہارشٹرا میں ، بھاجپا کی سرکا رمیں گجرات میں ہوا ہے۔ یہی سکھوں کے ساتھ پنجاب میں اورمختلف حکومتوں کے دوران شمال مشرقی ریاستوں میں ہوا اورہورہا ہے۔ نام کشمیر کا بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ 
البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ عدالتوں میں جاکر بیشترکیسوں میں وہ ملزمان بھی ثبوت نہ ہونے یا کہانی کے کھلے طور پر من گھرنٹ ہونے کی بنا پر بری ہوگئے ہیں جن کو بہت بڑا دہشت گرد کہہ کے میڈیامیں نفرت کی مہم چلائی گئی اورجن پر ایک کے بعد ایک متعدد مقدمات قائم کردئے گئے۔ اس کی ایک انتہائی جلی مثال تو عبدالکریم ٹنڈا کی ہے جو دہشت گردی کی درجنوں وارداتوں کے لئے ذمہ داربتایا جاتا تھا۔ لیکن جب وہ پکڑا گیا تو صرف چارمعاملوں میں کیس درج ہوئے اورعدالتی میز پر ان میں سے ایک بھی کیس چارقدم نہیں چل سکا۔ بعض کیس ایسے کمزورتھے کہ عدالت نے فردجرم تک عائد کرنے سے انکار کردیا ۔ جو کیس چلا وہ بھی بودا ثابت ہوا۔ایسا ہی ایک کیس دہلی کے ایک نوجوان عامر کا ہے جس کو بازار سے پکڑ کر جیل بھیج دیا گیا۔ اس پر ایک کے بعد ایک نوکیس درج کردئے گئے۔ وہ چودہ سال جیلوں میں گزار کر باہرآیا اور ایک بھی کیس میں اس کا جرم ثابت نہیں ہوسکا۔ ایسا ہی کیس گلزاراحمد وانی کا ہے جو سنہ 2000سے جیل میں ہے۔ گرفتاری کے وقت وہ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہا تھا اور16سال سے جیل میں ۔ اس پرایک کے بعد ایک نومقدمے عائد کئے گئے۔ عدالتوں نے اس کو آٹھ میں بری کردیاہے۔ اسی ماہ وہ دوکیسوں میں بری ہوا جس میں ایک لکھنؤ میں چل رہا تھا اوردوسراآگرہ میں۔ آخری کیس بارہ بنکی کی عدالت میں ہے جس میں اس کے وکیل کوبری ہوجانے کی پوری امید ہے۔ اس طرح کے یہ چندکیس نہیں بلکہ ان کی ایک طویل فپرست ہے۔ان میں ایک بڑاکیس اکشردھام مندر پر دہشت گرد حملے کا بھی ہے جس میں سارے ملزمان جو اقلیتی فرقہ کے تھے بری ہوگئے۔ ظاہر ہے ان عدالتی فیصلوں سے اس موقف کی کرکری ہوتی ہے جو ’’غیر جماعتی‘‘ ہے اورجس پر ساری سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔ اس لئے محسوس ہوتا ہے کہ سرکارکی کوشش عدلیہ کو یہ پیغام دینے کی ہے کہ وہ بھی اسی لائن میں آجائے اس غیرجماعتی موقف کی تائید کرنے والے فیصلے صادر کرے اورجلدی جلدی کرے۔ یہاں یہ بتانے کا موقع نہیں کہ ساری سیاسی پارٹیاں اس معاملہ میں ایک کیوں ہیں؟ ہمارے ایک ہی راشٹرپتا ہیں۔ سبھی ایک ہی بھارت ماتا کی سنتان ہیں۔ اس لئے اقلیت کے معاملے میں نظریہ میں یکسانیت عجوبہ نہیں۔
اس بریفنگ پر سیاسی شعوررکھنے والے سماجی خدمت گاروں، وکیلوں اوراداروں نے خطرے کاسنگل دیا ہے۔ مسٹر پرشانت بھوشن ایڈوکیٹ نے بریفنگ سے پہلے ہی اپنی آواز اٹھائی اورچیف جسٹس آف انڈیا کو اس سے پہلے ہی 11اپریل ایک خط لکھ کر یہ صائب مشورہ دیا کہ اس بریفنگ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اوربعض آزاد وکیلوں جیسے کولن گون سالوے، کامنی جیسوال، نتیہ رام کرشنن اورورندا گروور وغیرہ کو بھی شریک کیا جائے تاکہ حکومت کے نظریہ کے ساتھ تصویر کا دوسرارخ بھی سامنے آجائے۔ مسلم مجلس مشاورت نے بھی اس بریفنگ پر تشویش کا اظہا رکیا ہے اوریہ مشورہ دیا ہے کہ دوسرارخ بھی سامنے لانے کے لئے ایسی ہی میٹنگ انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں سے رکھی جائے۔ 
ظاہر ہے حکومت کا عدلیہ کو متاثرکرنے کا یہ اقدام ایک خطرناک مثال پیش کرتا ہے۔ اس سے قبل مودی سرکار نے عدلیہ پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئے ججوں کی تقرری کے نظام کو بدلنے کی کوشش کی تھی جس کو سپریم کورٹ نے چلنے نہیں دیا۔مختلف معاملات میں جن جج صاحبان کے فیصلے حکومت کی منشاء کے مطابق آئے ان کوسبک دوشی کے بعد نوازا گیا جس یہی اشارہ سمجھا گیا۔ آرایس ایس کی زیرنگرانی چلنے والی مودی کی سرکار کے یہ اقدامات یقیناًہمارے آئینی نظام کی بنیادوں کوکمزورکرنے والے ہیں اورشک کو تقویت دیتے ہیں کہ سنگھی سرکارکے تحت ملک آمریت کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سچ پوچھئے تو عدلیہ ہی اس کی راہ کی رکاوٹ ہے۔جس کو قابو میں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اتراکھنڈ کا کیس
اتراکھنڈ کی سرکار کو برطرف کرکے وہاں صدرراج نافذ کرنے کا معاملہ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہاں کی ہائی کورٹ میں برطرف وزیراعلا کی ایک درخواست پر سماعت چل رہی ہے ،جس میں عدالت نے کہہ دیا ہے کہ مرکزی سرکار جمہوریت کی جڑوں کو کاٹ رہی ہے اور افراتفری پھیلا رہی ہے۔ جب مرکز کی طرف سے یہ دلیل دی گئی کہ صدارتی راج کے قیام کے حکم نامہ کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جاسکتا توعدالت نے جواب دیا : ایسا کوئی فیصلہ نہیں جوکسی بادشاہ کے حکم جیسا ہو، جس کا عدالت محاسبہ نہ کرسکے۔‘‘
"There is no such decision like that of a king which cannot be subject to judicial review."
یہ بات بھی واضح ہے دہلی میں اس وقت سارے اختیارات سمٹ کرایک شخص واحد کے ہاتھوں میں آگئے ہیں جس کو قومی معاملات کا کوئی تجربہ نہیں۔ یہ رجحان بھی آمریت کی نشاندہی کرتا ہے۔ مودی سرکار میں سارے وزیرعملا بے دست و پاہیں ۔ان کے کام کا دائرہ محدود ہے۔ ایسی صورت میں قومی سلامتی مشیر کو استعمال کرکے سرکار کی یہ کوشش کہ عدلیہ بھی اس کی لائن میں آجائے بہت سے خطرات کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ ملک کے باشعورطبقات کو اس سے آگاہ ہوجانا چاہئے ۔ ہمارے ان سیاسی لیڈروں کو خبردارہوجانا چاہئے جو بھارت ماتا کے نعروں جیسے موضوعات کی آڑ میں اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہیں، جس کی بدولت عوام کی توجہ ملک کے مستقبل کو درپیش سنگین خطروں اور موجودہ حقیقی مسائل سے ہٹتی ہے۔ کچھ ذمہ داری ہم صحافیوں کی بھی ہے جذباتی اورافتراقی صحافت سے کنارہ کشی اختیارکریں۔ ملت کے خود ساختہ رہنما بھی سنجیدگی اختیار فرمائیں۔
مولانا ارشد صاحب کا بیان
جمعیۃ علماء ہند کے رہنمااوردارالعلوم دیوبند کے استاد حدیث محترم مولانا ارشد صاحب کا ایک بیان گلزاراحمد وانی کے آگرہ کیس میں بری ہونے پر ایک اخبار میں نظرسے گزرا۔ موصوف نے ایک پتہ کی بات کہی ہے جو یہ کالم نویس بھی لکھ چکا ہے۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ ایک طویل مدت کی صعوبت کے بعددہشت گردی کی متعدد کیسوں کے ملزمان کے بری تو ہوگئے مگر سوال یہ ہے کہ اصل مجرم کون کہاں ہیں اور ان کو کس نے چھپارکھا ہے؟ اوریہ کہ اصل مجرموں کو سزاملنی چاہئے۔ یہ جائز مطالبہ ہے اس لئے اس کی تائید کی جانی چاہئے۔ لیکن یہ سوال کیوں کہ اصل مجرموں کو چھپانے والے کون ہیں؟
قارئین کو یہ بات یادہوگی کہ حیدرآباد مسجد دھماکہ، مالیگاؤں کیس، سمجھوتہ ایکسپریس کیس اورایسے ہی دیگرسنگین دہشت گردحملوں میں یوپی اے اوراین ڈی اے دونوں سرکاروں کے دورمیں، چاہے وزیرداخلہ لال کرشن آڈوانی ہوں یا سشیل کمارشندے یا شوراج پاٹل، سب کا نظریہ اورطریقہ کارایک جیسا ہی رہا۔ بلاادنیٰ تصدیق اقلیتی فرقے کی طرف انگلی اٹھانا، ان کے لوگوں کو گرفتارکرانا اوران کو بلاثبوت جیلوں میں ڈالنا،دونوں کے دورمیں یکساں شدت سے جاری رہا ہے۔ اس لئے یہ سوال غیرضروری ہے کہ اصل مجرموں کو کون چھپاتا ہے اورکیوں چھپاتا ہے؟ البتہ یہ مطالبہ حق بجانب ہے کہ جرم ہوا تھا تواصل مجرم کیوں نہیں پکڑے جاتے؟ہم جانتے ہیں کہ ہماری پولیس ہرگزنااہل نہیں۔ اس کی نظروں سے اصل خطاکار چھپانہیں رہتا۔ لیکن ان کو پیشہ ورانہ طریقہ سے جانچ نہیں کرنے دی جاتی۔ جہاں کسی افسرکا ہاتھ سیاسی آقاؤں کی مرضی کے خلاف اصل مجرم کی گردن تک پہنچتا ہے تواس کوراستے سے ہٹا دیا جاتا ہے، جس طرح مہاراشٹر کے جیالے افسرہمینت کرکرے کو ہٹادیا گیا۔ اورپھر شروع ہوتا ہے اصل مجرموں کے خلاف کیس کو کمزورکرنے کا سلسلہ جیسا کہ ان دنوں سمجھوتہ ایکسپریس اورمالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں ہورہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انصاف کی امید عدالتوں کے ساتھ وابستہ ہے۔یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ جن کیسوں میں ملزمان کی پیروی اچھی طرح ہوگئے، ان کے خلاف کیس ثابت نہیں ہوسکے۔ لیکن این ایس اے کی اس بریفنگ سے اندیشہ حقیقی نظرآتا ہے کہ عدالتوں کو بھی متاثرکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس دن عوام کا بھروسہ عدلیہ سے بھی اٹھ جائیگا ،وہ ہمارے ملک کی بدنصیبی کا شدید ترین دن ہوگا اوریہ سانحہ گاندھی جی کے قتل سے بھی زیادہ سنگین ہوگا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا