English   /   Kannada   /   Nawayathi

حجاب میں رہنے والی شہناز سدرت ہندوستان کی تیسری طاقتور خاتون منتخب

share with us

ایک مذہبی اور سخت پردہ دار خاندان میں پیداہونے والی شہناز نے اوائل عمری سے ہی غلط روایات اور فرسودہ رسم ورواج کے خلاف اعلان ِ جنگ کردیاتھا۔انھوں نے محض 13برس کی عمر میں مردآباد کے سنبھل گیٹ پر اپنا ایک اسکول قائم کرلیاتھا۔نام تھا بچوں کا گھر ۔ماں سے ایک دن کہاکہ مجھے ایک اسکول کھولناہے۔انھوں نے اجازت دیتے ہوئے گھر کے ہی ایک حصے میں جگہ فراہم کردی۔اسکول جانے سے پہلے محلے کی غریب لڑکیوں کو جمع کرتیں اور خود پڑھنے چلی جاتیں ۔اسکول سے واپس آکر ان بچیوں کو خود پڑھاتیں ۔رفتہ رفتہ 500بچے ہوگئے ۔شہناز کو یہاں پڑھاتے ہوئے عورتوں کے مسائل سمجھنے کا موقع ملا۔یوراسٹوری سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:
میرامیکہ اور سسرال دونوں سخت مذہبی تھے۔دونوں گھرانوں کے افرادہندوستان کی دوممتاز تنظیموں جماعت اسلامی اور جمعیۃ علمائے ہند سے وابستہ تھے۔گھرمیں سخت پردہ تھا۔نانی گاندھی جی کے وردھاآشرم میں بھی نماز پڑھتی تھیں اور ونوبابھاوے کو قرآن پڑھاتی تھیں۔مجھے پردے والے تین پہیہ ٹھیلے پر پڑھنے بھیجا جاتاتھا۔ایک بار تھوڑا جھانک لیاتو ملازم نے سخت سرزنش کی۔میں پہلی عورت تھی جو برقع پہن کر کے جی کے کالج مرادآباد میں پڑھنے گئی۔حصول ِ تعلیم کے دوران مجھے احساس ہواکہ بہت سی سماجی برائیوں اور عورتوں کے مسائل کی جڑ ناخواندگی ہے۔اس وجہ سے میں نے اپنی پوری زندگی تعلیم نسواں اور خواتین کے مسائل کے حل کے لئے وقف کردی ۔حالاں کہ اس کوشش میں مجھے اور میرے خاندان کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔
شہناز خواہش کے باوجود سائنس نہیں پڑھ سکیں کیوں کہ اس زمانے میں علاقے کے کسی کالج میں اس کی سہولت نہیں تھی۔ انھوں نے کے جی کے کالج سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ان کو اعلیٰ تعلیم خصوصاً مقابلہ جاتی امتحان پاس کرنے کا بڑاشوق تھا۔اس وجہ سے اکثر گھر میں اس موضوع پر باتیں ہوتی رہتی تھیں۔شہناز کے مطابق ایک بار بات چیت کے دوران ایک کزن نے طنز کیاکہ لڑکیاں سول سروسز امتحان کوالیفائی نہیں کرسکتیں ۔میں نے اس وقت کسی ردعمل کا اظہارتونہیں کیالیکن دل میں تہیہ کرلیاکہ میں یہ امتحان پاس کرکے دکھاؤں گی۔چنانچہ میں پہلی ہی کوشش میں کامیاب ہوگئی جب کہ کزن موصوف تیسری کوشش میں کوالیفائی کرسکے۔یہ الگ بات ہے کہ چند وجوہ سے میں نے یہ سروس جوائن نہیں کی اورسماجی خدمت کو ترجیح دی۔
مہاتماگاندھی کے وردھاآشرم میں شہناز کی والدہ کی ملاقات مجاہد آزادی،قومی آواز کے پہلے ایڈیٹر اور مشہورناول 146لہوکے پھول145 کے خالق حیات اللہ انصاری سے ہوئی۔1987میں ان کے بیٹے سدرت اللہ انصاری سے شہناز کا نکاح ہوا۔شادی کے وقت حیات اللہ انصاری راجیہ سبھا کے رکن تھے اور دہلی کے ویسٹرن کورٹ میں رہائش پذیر تھے۔اسی وجہ سے شہناز رخصت ہوکر وہیں آئیں ۔حیات اللہ انصاری شہناز کو بیٹی کی طرح مانتے تھے اور رخصت ہوکر آتے ہی انھوں نے اپنے بیٹے سے کہہ دیاتھاکہ اگر دونوں میں کبھی کوئی اختلاف ہواتو گھر چھوڑکر تم جاؤگے شہناز نہیں۔
دہلی میں قیام کے دوران شہناز نے شوہر کی اجازت سے فرنیچر ڈیزائننگ کاکام شروع کیا۔ساتھ ساتھ عورتوں میں بیداری پروگرام بھی چلاتی رہیں۔انھوں نے اس دوران صرف خواندگی مہم نہیں چلائی بلکہ عورتوں میں پڑھنے کی لت لگادی۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا