English   /   Kannada   /   Nawayathi

صحت عامہ کی خدمات میں ،ہماری پسماندگی افسوسناک

share with us

جس کا ثبوت یہ ہے کہ پورے ملک میں ہر سال ۱۷ لاکھ سے زیادہ بچے اپنا پہلا یوم پیدائش نہیں منا پاتے اور ایک سال کے اندر ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان میں اسی لئے پوری دنیا کے بچوں کی اموات کے مقابلہ میں تپ دق سے ۳۰ فیصد، متعدی امراض سے ۶۸ فیصد اور ایڈس سے ۱۴ فیصد اموات درج ہوتی ہیں۔
۱۹۶۰ء کی دہائی میں ملیریا سے اموات پر موثر طور سے روک لگانے میں ملک کو کامیابی ملی تھی لیکن ۱۹۷۶ سے یہ مرض دوبارہ پھیلنے لگا اور آج ہر سال ۲۰ سے ۳۰ لاکھ لوگ اس سے متاثر ہورہے ہیں، اس کے علاوہ ہندوستان میں سانس سے متعلق انفیکشن اور ہیضہ کی شرح بھی عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہے ملک کی ایک تہائی آبادی شہروں میں رہتی ہے۔ پھر بھی حالت یہ ہے کہ ۲۳ میٹرو شہروں میں رہنے والی آدھی آبادی کو مناسب میڈیکل سہولتیں دستیاب نہیں، ماہرین ڈاکٹروں کی تعداد ۶ لاکھ سے بڑھاکر ۲۰ لاکھ اور نرسوں کی موجودہ تعداد ۱۶ لاکھ سے بڑھاکر ۴۴ لاکھ کرنے کی ضرورت پر زوردے رہے ہیں، دوسری طرف ملک میں کام کررہے میڈیکل کالجوں سے ہر سال صر ف ۱۶ ہزار ڈاکٹر ہی تیار ہوکر نکل رہے ہیں اور ان کی بھی خاصی تعداد ملک سے باہر چلی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں فزیشین کی اوسط تعداد ایک ہزار افراد پر ۵ء۱ہے جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب بہت کم یعنی ۶ء۰ سے زیادہ نہیں ، اسی طرح اسپتالوں میں بستروں کا عالمی اوسط ایک ہزار افراد پر ۹۸ء۳ ہے جبکہ ہندوستان میں یہ تناسب صرف ۹ء۰ فیصد ہے حالانکہ دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں چین کے بعد ہندوستان شمار ہوتا ہے اور برازیل و روس کا درجہ اس سے نیچے ہے لیکن میڈیکل شعبہ میں یہ ممالک ہندوستان کو کافی پیچھے چھوڑ چکے ہیں ماہرین عوامی صحت خدمات پر مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا کم سے کم ۵ء۲ فیصد خرچ کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ یوپی اے حکومت بھی دعویٰ یہی کرتی تھی کہ وہ جی ڈی پی کا ۳ فیصد حصہ صحت خدمات پر خرچ کرنے کا عزم رکھتی ہے لیکن یہ عملی جامہ نہیں پہن سکا۔ مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت کا بھی یہی حال ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا