English   /   Kannada   /   Nawayathi

حیدرآباد کا ادبی شعری منظرنامہ

share with us

حیدرآباد کے یا دکن کے شعری منظرنامے کے اجزاء تلاش کرتے ہوئے کچھ ہستیوں کے نام بھی لینے ضروری ہیں جنہوں نے اس دور میں گرانقدر تخلیقات پیش کیں ۔ ان میں قاضی محمود دریائی ، خوب محمد چشتی ، ملک خوشنود ، امین ، طبعی ، عبدل ، غواصی ، وجہی ، ابن نشاطی ، سراج اورنگ آبادی اور داؤد اورنگ آبادی وغیرہ اہم ہیں ۔ محمد قلی قطب شاہ اردو کا سب سے پہلا صاحب دیوان شاعر ہونے کی حیثیت سے منفرد ہے ۔ ولی کی حیثیت بھی اس لئے امتیازی ہے کہ وہ شمال اور دکن کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس عہد کا جو منظرنامہ بنتا ہے اس کے پانچ زاویئے اہم ہیں ۔
(۱) منظوم داستانیں (۲) عوامی شاعری (۳) مذہبی شاعری (۴) روایتی شاعری اور (۵) تجربے
دکن میں نظام علی خاں آصف جاہ دوم نے اورنگ آباد کے بجائے حیدرآباد کو اپنا پایہ تخت بنایا اور اس شہر کو ترقی دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔ اس کا بدیہی نتیجہ یہ نکلا کہ شعر و ادب کے اس گہوارہ نے ایک نیا روپ دھار لیا ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ نواب ارسطو جاہ بہار جیسی شخصیت اور ان کے درباری حیدرآباد کے علمی و ادبی دنیا کے جگمگاتے ستارے بن گئے ۔ اس دور میں دہلی کے کئی ممتاز شعراء نے نقل مقام کرکے حیدرآباد فرخندہ بنیاد کو اپنا مسکن بنایا جن میں حفیظ دہلوی ، مرزا علی لطف اور شاہ نصیر وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ دہلی اور لکھنؤ کے بعد حیدرآباد بھی ایک بڑا اردو کا مرکز بن گیا تھا ۔
محبوب علی خاں ہی کے دور میں وہ علمی و ادبی کارنامے انجام دئے گئے جن سے تاریخیں بھری پڑی ہیں ۔ مورخ دکن نصیر الدین ہاشمی نے اس دور کی کیفیت کو مقناطیسی کہا ہے کیونکہ سلطنت آصفیہ میں اردو کی کچھ اس طرح سرپرستی کی گئی کہ ہندوستان بھر سے اہل قلم شاعر اور ادیب حیدرآباد آنے اور دربار سے وابستہ ہونے پر فخر کرتے رہے ۔ اس ضمن میں مرزا داغ دہلوی جو دربار رامپور سے وابستہ تھے ، دکن آنا پسند کیا اور ان کے بعد یا ان کے اتباع میں امیر مینائی ، سید علی بلگرامی ، ڈپٹی نذیر احمد ، رتن ناتھ سرشار وغیرہ دکن چلے آئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دکن کی اس حکومت اور اس کے بادشاہ ، وزراء اور عوام نے بھی اس زبان و ادب کی کچھ اس قدر خدمت کی جو شاید اس سے قبل نہ ہوئی تھی ۔ یہ امرمسلمہ ہے کہ داغ سے پہلے دکن میں میر شمس الدین فیضؔ ہی کا سکہ رواں تھا لیکن داغؔ نے یہ بساط الٹ دی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے داغ کا رنگ و آہنگ شاہی محلوں سے نکل کر عوامی دیوان خانوں میں در آیا ۔ یہیں سے ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ حیدرآباد کی علمی و ادبی فضا یا یہاں کا ماحول کچھ اس قدر شاعرانہ ہوچلا تھا جس کا دیرپا اثر قائم اور باقی رہنا ممکن ہوگیا تھا ۔ دبستان داغ اور دبستان فیض کے شعراء میں اکثر معرکہ آرائی ہوتی لیکن داغ کا انداز بیان ، زبان کی چاشنی ، چھبیلا رنگ اور ان سب سے زیادہ محاوروں ، تشبیہوں اور استعاروں کی چاشنی نے عوام و خواص دونوں کو متاثر کیا ۔ داغ کے شاگردوں نے کیفی ، عزیز یار جنگ وغیرہ نے خوب نام پیدا کیا ۔ یہ زمانہ آصف جاہی دور کے آخری حکمران نواب میر عثمان علی خاں کا تھا ۔ گویا یہ بیسویں صدی کا آغاز اور سلطنت آصفیہ کا عروج تھا ۔
حیدرآباد اردو ادب کی شعری تاریخ سے منسلک رہا ہے ۔ انیسویں صدی میں تقریباً پورے ہندوستان کا شعری مزاج ایک ہی ہوگیا تھا ۔ دکنی کی اپنی انفرادیت ء اٹھارویں صدی کے نصف سے ختم ہوگئی تھی اور جو شاعری کا مخصوص دھارا تھا اس میں یہاں کے شعراء بھی شامل ہوگئے تھے ۔ انیسویں صدی میں غدر کے بعد حیدرآباد ہی جائے امن و ترقی رہا ۔ دلی اجڑی ، لکھنؤ برباد ہوا ، شاعری کا تعلق بہرحال جاگیرداری تہذیب سے تھا ۔ شمالی ہند میں اس تہذیب کے اہم ستون گرگئے تھے ۔ رامپور میں قدر و منزلت ضرور تھی لیکن چھوٹی سی ریاست نہ داغ کو دیکھ سکی اور نہ امیر کو برداشت کرسکی ۔ حالانکہ امیر کا سفر بیسویں صدی کا ہے ، لیکن سفر سے پہلے کا پس منظر یہی رہا ۔ شاعری میں جو روایتی تصورات تھے وہی برقرار رہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ حیدرآباد میں لکھنؤ کی صنائی کی طرف توجہ نہیں کی گئی ۔ صرف صنف مرثیہ میں انیس و دبیر کے اثرات قبول کئے گئے لیکن جہاں تک غزل کا تعلق ہے اس میں لکھنؤ کی ضلع جگت ، رعایت لفظی کا دور دور تک نشان نہیں ملتا ۔ لکھنؤ کی غزل میں کبھی کبھی ماتمی فضا نظر آتی ہے گور غریباں ، چراغ مرقد ، کشتہ نازبا دوسرا رخ ابتہاجی ہے اور اس ابتہاجیت میں سراپا نگاری ہے ۔ یہ سراپا نگاری آرائش جمال کے اشعارکا ذکر کرتی ہے ۔ کنگن ، چوٹی ، مسّی ، سرمہ ، انگیا ، چولی والی شاعری سے بھی حیدرآبادی غزل دور رہی ۔ لیکن عیش و نشاط کی جو فضا لکھنؤ میں تھی وہ بیسویں صدی سے قبل بھی یہاں ملتی ہے ۔ محفل یہاں بھی سجی ہے ۔ دور جام چل رہا ہے ۔ ساقی کی آنکھوں سے شراب ٹپک رہی ہے ۔ صحرا صحرا گلشن پھول کھلے ہیں ۔ شمع جلتی ہے ،پروانے اڑتے میں نثار ہونے کے لئے ۔
ایک طرف تو غزل کی یہ دنیا آباد تھی جہاں بلبل کی بے قراری و آہ وزاری اور گل کی جفا کا ذکر تھا ، شمع اور پروانے کی گفتگو تھی ، دوسری طرف ہندوستان کی عمومی فضا بالکل مختلف ہوگئی تھی اور ادبی دنیا میں ایک انقلاب آرہا تھا ۔ غدر سے قبل ہندوستانی شعرا و ادباء ہو کہ عام آدمی ، انگریزی ادب سے نابلد تھا ۔ غدر کے بعد جب ہندوستانی ، انگریزی ادب سے روشناس ہوئے تب ان کے خیالات میں بھی آہستہ آہستہ تبدیلی آنے لگی ۔ انگریزی ادب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی گئیں ۔ جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈرامہ ، مناظر فطرت اور مختلف عنوانات پر مبنی نظمیں اور نثر لکھنے کا شعراء و ادبا کو ایک زرین موقع ہاتھ آگیا ۔ اردو کی شعری روایات میں پیاراور محبت ، حسن و عشق ، گل و بلبل ، گلشن و آشیاں ، شبنم نسیم سحر کی ترکیبیں تھیں ۔ غدر کے ہنگاموں نے شعراء اور ادباء کے ذہنوں کو جھنجھوڑا تو روایت شکنی پر اتر آئے اور جدید رجحاناتی شاعری کی ابتداء کی جس کے بانی کی حیثیت سے اردو ادب میں محمد حسین آزاد کا نام لیا جاتا ہے

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا