English   /   Kannada   /   Nawayathi

دختر کشی عصر حاضرکا ایک اہم اور قابل توجہ مسئلہ

share with us

دن بدن ما ہ بماہ اور سال بسال مادر رحم میں پلنے والی بچیوں کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہی ہورہا ہے اولاد نرینہ کے خواہش مند حضرات مادر رحم میں لڑکی کی موجودگی کا علم ہوتے ہی مختلف ذرائع سے اندر ہی ختم کرنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں، عصر حاضر میں زمانہ جاہلیت کی اس ملعون اور برسوں پرانی قبیح رسم نے جدید پیرائے میں سر ابھارا ہے ، معاشر ے کے بعض طبقات نے خواہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ مادر رحم ہی میں بچیوں کو ختم کرنے کے نئے طریقے تلاش کرلیے ہیں کہ غائب کو حاضر ہی نہ ہونے دیا جائے ، لہذا لڑکیوں کی پیدائش کا اوسط دن بدن کم ہو تا جارہا ہے ، ہندوستان میں بچیوں کے مادر رحم میں قتل کئے جانے کے واقعات میں تشویش ناک تیزی آئی ہے ، اگر خدانخواستہ یہی صورت حال قائم رہی تو لڑکوں کے لیے لڑکیاں ملنی مشکل ہوجائے گی، ملک میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابل ۹۴۰؍ خواتین کی شرح پائی جاتی ہے ، کئی ریاستوں میں تو فی ہزار مردوں کی مناسبت سے محض ۸۵۰؍ خواتین ہیں، یعنی ۱۵۰؍لڑکوں کی شادی کے لیے لڑکیاں دستیاب نہیں ہیں، حالات کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں شادی کے لیے لڑکیوں کی کمی واقع ہورہی ہے ، سال گذشتہ ملک میں منعقدہ ایک کانفرنس جس کا تعلق بچوں کی پیدائش اور جنسی صحت سے تھا، اس کانفرنس میں ایک چونکا دینے والی بات یہ نکل کر آئی کہ بعض ریاستوں میں ہزار لڑکوں کے مقابلے میں صرف سات سو لڑکیوں کا ہی اوسط ہے، نیز یونیسیف کی رپورٹ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ گذشتہ بیس سالوں کے درمیان مختلف طریقوں سے تقریباً دس ملین بچیوں کو قبل از پیدائش یا بعد از پیدائش موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا، عصمت دری کے واقعات میں اضافہ کی ایک وجہ کمتر صنفی توازن بھی ہے، لب لباب یہ کہ شادی کے لیے مطلوبہ تعداد میں لڑکیاں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے حرص و ہوس کے پجاری ریپ ( زنا بالجبر) جیسے جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، اس مسئلہ کا فطری حل صنفی شرح میں اضافہ ہی میں مضمر ہے، اگر اسی طرح جنسی تناسب میں گراوٹ آتی رہی تو کنوارے رہنے والے مردوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہی ہوگا، ہمارے معاشرے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ خاندان صرف لڑکوں سے ہی چلتا ہے ، حالانکہ یہ سوچ ہی غلط ہے ، بغرض محال اگر اس خیال کو صحیح بھی سمجھ لیا جائے تو بھی یہ امر قابل غور ہے کہ اگرلڑکوں کوشادی کے لائق لڑکیاں میسر نہ آئے گی تو پھر افزائش نسل کی کیا صورت ہوگی اور اگر مالدار یا رسوخ والے شادی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی متوسط اور غریب طبقہ کے لڑکوں کے لیے لڑکیاں تلاش کرنا مستقل سرکا درد اور ایک عظیم چیلنج بنا رہے گا۔
۲۰۱۱ء ؁ کی مردم شماری کے مطابق چھ تا آٹھ سال تک کی بچیوں کی آبادی میں نمایاں فرق آیا ہے ، غیر ملکی اعتبار سے بہتر لاکھ کا فرق ہے ،اگریہ رجحان اسی طرح برقرار رہا تو امید ہے کہ آئندہ سالوں میں مزید کمی واقع ہونے کا اندیشہ ہے ، ملک کی جن ریاستوں میں لڑکیوں کی شرح پیدائش قابل ذکر کم ہوئی ہے ، ان میں ہماچل پردیش، دہلی، پنجاب، ہریانہ اور گجرات ، جیسی اہم اور ترقی یافتہ ریاستیں سرفہرست ہیں۔
۲۰۱۲ ؁میں دہلی میں عصمت دری پر جو اندوہناک واقعہ پیش آیاتھا اور واقعہ کی متاثرہ لڑکی بالآخر موت کی آغوش میں ابدی نیند سوگئی،اجتماعی عصمت دری کے اس حالیہ واقعہ پر نہ صرف دارالحکومت دہل گیا بلکہ ملک کے مختلف مقامات پر بھی اس گھناؤنے واقعہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی۔۱۹۷۸ ؁ء کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب کسی عصمت دری کے واقعہ کے خلاف عوام نے اتنا شدید احتجاج کیا ہو۱۹۷۸ ؁ء میں دو کمسن بھائی بہن سنجے اور گیتا چوپڑا کو رنگا اور بلا نامی دونوجوانوں نے اغوا کیا تھا ، گیتا کی عصمت دری کی گئی جس کے بعد دونوں بھائی بہن قتل کر دئیے گئے، دونوں مجرمین کو ۱۹۸۲ ؁ء میں موت کی سزا دی گئی، اس حالیہ واقعہ پر اہم سیاسی قائدین اور دیگر تمام شعبہ ہائے حیات سے رکھنے والی ممتاز شخصیات نے اپنے اپنے رد عمل کا اظہار کیا سماجی مسائل پر منفرد باغیانہ تیور دکھانے کے لیے مشہور شبانہ اعظمی نے جو اس واقعہ کے خلاف سرگرم مہم چلا چکی ہیں ،کہا ہے کہ ہمیں اپنے مہذب سماج کے لیے شدت سے مطلوب تحفظ نسواں کو یقینی بنانا ہوگا ، ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمیں دیوی کا درجہ دیا جائے ، بلکہ ہم احترام ومساوات کا مطالبہ کرتے ہیں ، بے باک رد عمل کے لیے مشہور فلم ڈائرکٹر مہیش بھٹ نے انتہائی سخت الفاظ میں اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لکھاہے کہ ہم دیوی کے روپ میں عورت کی پوجا کا ڈھونگ کرتے ہیں ،مگر اب ہندوستان کو آہ وزاری کرنا چاہئے کہ اب ہمارے ہاتھ خود ہی اپنی بیٹیوں کے خون سے آلودہ ہورہے ہیں۔
مردوزن کا جنسی عدم توازن خطرناک علامت
روزنامہ ہند سماچار’’ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۰۷ ؁کا اداریہ مادر رحم میں بچیوں کے قتل کے تعلق سے رقم طراز ہے‘‘شمالی بھارت کے صوبوں میں لڑکوں اورلڑکیوں کے تناسب میں فرق لگاتار بڑھتا جارہا ہے ، مہلا بال وکاس راجیہ منتری رینوکاچودھری کے مطابق پنجاب میں جہاں ایک ہزار لڑکوں کے پیچھے یہ تناسب ۸۷۵؍ سے گھٹ کر ۷۹۶؍ رہ گیا ہے، وہیں دہلی میں یہ ۹۱۵؍ سے گھٹ کر ۸۶۸؍ ہریانہ میں ۸۷۹؍ سے گھٹ کر ۸۱۹؍ اور راجستھان میں ۹۱۶؍ سے گھٹ کر ۹۰۹؍ رہ گیا ہے ، لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اس فرق کی بڑی وجہ ہمارے سماج میں ونش کو آگے بڑھانے کے لیے بیٹے کی چاہت اور جہیز وغیرہ کی بری روایات ہیں پچھلی کچھ دہائیوں میں اسکیننگ سینٹروں میں سیکس ٹیسٹ اور کنیا بھرونوں کا اسقاط حمل کرانے پر پابندی لگانے کے لیے سخت قانون بنائے گئے اور السے اسکیننگ مراکز ونرسنگ ہوموں پرچھاپے مارنے اور قصوار وار ڈاکٹروں اور نرسوں وغیرہ کو سزا دینے کا سلسلہ شروع ہوا لیکن جیسا کہ عموماً ہوتا ہے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اب بھی چوری چھپے جنسی ٹیسٹ واسقاط حمل کراتے ہی رہتے ہیں، عام طور پر چوری چھپے ہونے والے اسقاط حمل میں نیم حکیم و اناڑی دائیوں سے کروائے جانے والے اسقاط حمل بھی شامل ہوتے ہیں، ان میں پیٹ میں پل رہی بچی کی موت تو ہوتی ہی ہے ماں کی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے ، اس سلسلہ میں ایک موجودہ ماں اور ایک ہونے والی بچی کی زندگی چھین لی جاتی ہے یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم ایک طرف ماں کی شکل میں’’بھگوتی درگا، ماں ویشنو دیوی،ماں چنت پورنی، ماں کالی، ماں سرسوتی،ماں لکشمی‘‘ اور مختلف دیویوں کی پوجا کرتے ہیں، نوراتروں اور کسی بھی دھارمک اہتمام کے موقع پر کنیاؤں کے چرن دھوکر ان کا پوجن کرکے ان کو بھوجن کراتے ہیں ، وہیں دوسری جانب کنیاؤں کے جنم کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں، وکنیا بھرون کا اسقاط کردیتے ہیں، عام طور پر لوگوں میں یہ سوچ دیکھنے کو ملتی ہے کہ دوسروں کے گھر پیدا ہوئی کنیا کو کنجک پوجن کے لیے مدعو کیا جائے، لیکن اپنے گھر میں کنیا کا جنم نہ ہو کنیا بھرونوں کا اسقاط اوران کی ماتاؤں کی اسقاط حمل کے وقت موت یقینی طور سے ہمارے سماج پر ایک داغ ہے اگر لڑکیوں کا جنم اسی طرح گھٹتا رہا تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ اس سے پیدا سماجی عدم توازن میں کسی لڑکی کے باہر آتے جاتے وقت اس کے ساتھ سیکورٹی گارڈ بھیجنے پڑیں گے ، سماج اور سرکار کے دور اندیش لوگوں کو وقت رہتے اس طرف سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔( روز نامہ سماچار:۲۲؍دسمبر ۲۰۰۷ ؁ء)
افزائش نسل حیوانی
کسی ملک کے تمدن اور ترقی کا اہم کار نامہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حیوانات کی نسلیں فراہم کرکے حیوانوں تک کی آبادی میں اضافہ کیا جائے اورملک میں جانوروں کی ترقی و تربیت کا معقول انتظام کیا جائے ؛چنانچہ تیموریوں نے اس محکمہ کو بھی بے انتہا ترقی دی ، اس محکمہ کو سب سے زیادہ ترقی جہانگیر نے دی، اگرچہ اکبر نے بھی اس محکمہ سے خاصی دلچسپی کا اظہار کیا تھا، یعنی پہلے لوگ جانوروں تک کی نسل کی حفاظت کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے اور آج کا انسان صنف نازک کا خاتمہ اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی کررہا ہے۔
رحم مادر میں لڑکیوں کے قتل میں ہندومذہب کی بہت بڑی غلطی
اتر پردیش ریاستی سماج بہبود اور سیوا اسپتال کے مشترکہ دیہی خواتین کے حالیہ بیداری تربیتی کیمپ میں بورڈ کی چیئرپرسن دویہ مشرانے اس بات کا بیباک اظہارکیا کہ زندگی کے ہر مسئلہ کے لیے دیوی کی پوجا کر نے والے ہندوستانی سماج لڑکی کی پیدائش کو منحوس مانتا ہے ، لیکن بحیثیت قتل دیکھاجائے تو سب سے بڑی غلطی ہندومذہب کی ہے، جو صرف لڑکوں کو ہی باپ یا ماں کی چتا کو آگ دینے کا حق دیتا ہے ، اور ماں باپ کے بعد لڑکے کو ہی آگے بڑھانے کا کام کیا جاتا ہے ، نیزجہیز بھی ایک ایسی لعنت ہے جو لڑکی کو ماں کے پیٹ کے اندر ہی قتل کے پاپ کو اور زیادہ پھیلانے میں معاون ہے، مغربی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی عورت کے بے عزتی اور ظلم کے مختلف قابل مذمت طریقوں سے متاثر ہے ان میں سب سے بڑا ظلم مادر رحم میں لڑکی کا قتل ہے۔
بیٹیاں باقیات صالحات ہیں ایک زمانہ تھا جس میں لڑکیوں کی کوئی حقیقت نہ تھی ان کی پیدائش ننگ و عار کا سبب تھی، حتیٰ کہ سنگ دل انسان انہیں زندہ مٹی کے نیچے دفن کردیا کرتا تھا، خود قرآن اس پر شاہد ہے، (سورۃ نحل آیت نمبر:۵۷)
ترجمہ:۔ جب ان میں سے کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور دل مسوس کر رہ جاتا ہے ، اور لوگوں سے چھپتا پھر تا ہے، ان کو منھ نہیں دکھانا چاہتا ، اس برائی کی وجہ سے جس کی اس کو خبر ملی ہے، سوچتا ہے کہ اس نومولود بچی کو باقی رکھیںیا اس کو کہیں لے جاکر مٹی میں دبادیں، یہ اس زمانے کے لوگوں کا کردار تھا، تاہم بیٹیاں شریعت اسلامیہ کے مطابق سراپارحمت ہیں، دینی و دنیوی اعتبار سے خوشحالی کا سبب ہے ، ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ جس کے یہاں تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہویا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا اور ان کے سلسلے میں اللہ سے ڈرتارہا تو اس کے لیے جنت ہے ۔(ترمذی شریف:۲؍۱۳)مگر افسوس آج یہی بیٹیاں جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ مادر رحم ہی میں قتل کی جارہی ہے، سابقہ ادوار میں لڑکیوں پر خارج میں ظلم ہوتا تھا، مگر آج خارج اور داخل ہر دوشکل میں صنف نازک دوہری مار جھیل رہی ہے ، یعنی نفس ظلم موجود ہے ، صرف ظلم کی شکل تبدیل ہوگئی ہے، جہیز کی طویل فہرست ’’ اونچی اونچی فرمائشیں، عصمت و عزت کو ہمہ وقت خطرہ ‘‘ والدین و لڑکیوں کا جہیز مہیانہ ہونے کے سبب خود کشی کرلینا یہ سزائیں تو زندہ درگور کرنے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔
اس سنگین مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی شدید ضرورت
ایسے وقت میں جب کہ اخلاقی انارکی، فساد بگاڑ، خدا کے حضور جواب دہی کا عدم احساس اور صنف نازک کے ساتھ جبرو استحصال نیز مادر رحم میں لڑکیوں کا قتل جیسے شرمناک واقعات کے بکثرت وقوع کے بعد بھی اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سماج کا تانہ بانہ سلامت اور مستحکم ہے تو یہ ہماری خام خیالی ہے موجودہ حالات وواقعات بتا رہے ہیں کہ ملک کی بیٹیوں کا مستقبل غیر محفوظ ہے، اس نازک اور حساس مسئلہ کے ایک ایک پہلو پر گہرائی اور گیرائی سے غور کرنا ہوگا، مادر رحم میں بچیوں کے قتل کے سد باب کے لیے حکومتی سطح پر سخت سزائے ایماندارانہ نفاذ کے ساتھ ملک گیرتحریک کا شروع ہونا بھی ضروری ہے، نیز اسلامی خصائص و کمالات کو بھی معاشرہ کا جز بنانا پڑیگا، اچھائیوں کو اختیار کرنے اور برائیوں سے اجتناب کرنے والی سوسائٹوں کو وجود میں لانا ہوگا، تاکہ مادر رحم میں بچیوں کے قاتل یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ لڑکیاں بھی اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور ہر نعمت کی طرح اس نعمت کی بھی قدر کرنے کی ضرورت ہے، موضوع کے تجزیہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رحم دار کے قتل میں پھنسے ہندوستانی سماج کے پاس دوہی راستے ہیں، ایک یہ کہ اس تباہ کن راستہ کی طرف بڑھتا چلاجائے ،یہاں تک ایک عبرتناک انجام سے دوچار ہوجائے ، دوسرے یہ کہ اسلام کے انسانیت نواز اورحیات بخش پیغام کو سنجیدگی سے سنے اور اس کو منصوبہ بند طریقہ سے عمل میں لاکر خود کو ہر طرف سے محفوظ و مامون کرلے۔
مغرب کی تقلید کے سبب معاشرتی اقدار زوال پذیر
کسی بھی خاتون کو محبت و حفاظت میسر آجائے تو وہ پورے خاندان کو عروج پر پہنچادیتی ہے ، تحفظ میں کمی آئے تو اس کی عصمت جاتی رہتی ہے ، جو اصل جوہر ہے ،محبت کم ہوگی تو اس میں قنوطیت پیدا ہوجائے گی ، جو نسل نو کے لیے تباہ کن ہے ، خاتون بیٹی ہے تو شفقت و رحمت درکار ہے ، بیوی ہے تو محبت و عصمت کی حقدار ہے، ماں ہے تو احترام و کفالت کی متقاضی ہے ، مگر افسوس کہ تحفظ کی ان چیزوں کی اب سماج میں کوئی پرواہ نہیں ہورہی ہے، جو سماج اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو تحفظ نہیں دے سکتا ، وہ مہذب کہلانے کا لائق سماج نہیں، ہماری تہذیب ہمارا کلچر کس ڈھرے پر بے لگام جارہا ہے ، کچھ پتہ نہیں، آج ہماری حکومت برائی کی جڑ کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے، وہ زناکاری و شراب کے اڈوں کو لائسنس دے کر جرائم کو بڑھا وا دے رہی ہے ،مردوزن کے اختلاط اور ان کو دوش بدوش تفریح کے مواقع فراہم کررہی ہے، انہیں مردوں کی درمیان بھیج کر بعد میں نعرہ لگواتی ہے کہ خواتین کے تحفظ فراہم کیا جائے ، بہر حال جب تک برائی کی جڑ تلاش نہیں کریں گے ، برائی کا خاتمہ بھی نہیں ہوگا، جنسی جرائم وغیرہ کا خاتمہ کرنا ہوتو اسلام کے تعزیری قوانین پر ہی عمل پیراہونا پڑیگا و گرنہ بصورت دیگر حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے۔
*۔۔۔*۔۔۔*

مولانا غیاث الدین دھام پوری منصوری خادم جامعہ عربیہ ہتھورہ ضلع باندا
ہمارے ملک کے برا149دران وطن سال میں دومرتبہ ’’ نو راتروں کے موقع پر مختلف دیویوں کی پرستش کرتے ہیں اور ان سے مرادیں طلب کرتے ہیں ،یعنی دیویوں کو خدائی کا درجہ دے دیا گیا ہے، خواہ وہ دیوی علم و ہنر کی ہو یا دولت و انصاف کی تصویر کا یہ رخ بتارہا ہے کہ ملک عزیز کی سرزمین پر جو مرتبہ عورت کو حاصل ہے وہ شاید کہیں اور نہ ہوگا ، جب کہ تصویر کا دوسرا رخ یہ بتا رہا ہے کہ انہیں پوجا کے لائق دیویوں کو قبل از پیدائش موت کے منہ میں پہنچادینے کی تعداد سب سے زیادہ ہوگئی ہے ، اس تلخ حقیقت کی وجہ سے دنیا کا انصاف پسندوخدا ترس طبقہ تشویش میں مبتلا ہے ، دن بدن ما ہ بماہ اور سال بسال مادر رحم میں پلنے والی بچیوں کے قتل کے واقعات میں اضافہ ہی ہورہا ہے اولاد نرینہ کے خواہش مند حضرات مادر رحم میں لڑکی کی موجودگی کا علم ہوتے ہی مختلف ذرائع سے اندر ہی ختم کرنے کی کوشش شروع کردیتے ہیں، عصر حاضر میں زمانہ جاہلیت کی اس ملعون اور برسوں پرانی قبیح رسم نے جدید پیرائے میں سر ابھارا ہے ، معاشر ے کے بعض طبقات نے خواہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ مادر رحم ہی میں بچیوں کو ختم کرنے کے نئے طریقے تلاش کرلیے ہیں کہ غائب کو حاضر ہی نہ ہونے دیا جائے ، لہذا لڑکیوں کی پیدائش کا اوسط دن بدن کم ہو تا جارہا ہے ، ہندوستان میں بچیوں کے مادر رحم میں قتل کئے جانے کے واقعات میں تشویش ناک تیزی آئی ہے ، اگر خدانخواستہ یہی صورت حال قائم رہی تو لڑکوں کے لیے لڑکیاں ملنی مشکل ہوجائے گی، ملک میں ایک ہزار لڑکوں کے مقابل ۹۴۰؍ خواتین کی شرح پائی جاتی ہے ، کئی ریاستوں میں تو فی ہزار مردوں کی مناسبت سے محض ۸۵۰؍ خواتین ہیں، یعنی ۱۵۰؍لڑکوں کی شادی کے لیے لڑکیاں دستیاب نہیں ہیں، حالات کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ ملک کے بعض علاقوں میں شادی کے لیے لڑکیوں کی کمی واقع ہورہی ہے ، سال گذشتہ ملک میں منعقدہ ایک کانفرنس جس کا تعلق بچوں کی پیدائش اور جنسی صحت سے تھا، اس کانفرنس میں ایک چونکا دینے والی بات یہ نکل کر آئی کہ بعض ریاستوں میں ہزار لڑکوں کے مقابلے میں صرف سات سو لڑکیوں کا ہی اوسط ہے، نیز یونیسیف کی رپورٹ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ گذشتہ بیس سالوں کے درمیان مختلف طریقوں سے تقریباً دس ملین بچیوں کو قبل از پیدائش یا بعد از پیدائش موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا، عصمت دری کے واقعات میں اضافہ کی ایک وجہ کمتر صنفی توازن بھی ہے، لب لباب یہ کہ شادی کے لیے مطلوبہ تعداد میں لڑکیاں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے حرص و ہوس کے پجاری ریپ ( زنا بالجبر) جیسے جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، اس مسئلہ کا فطری حل صنفی شرح میں اضافہ ہی میں مضمر ہے، اگر اسی طرح جنسی تناسب میں گراوٹ آتی رہی تو کنوارے رہنے والے مردوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہی ہوگا، ہمارے معاشرے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ خاندان صرف لڑکوں سے ہی چلتا ہے ، حالانکہ یہ سوچ ہی غلط ہے ، بغرض محال اگر اس خیال کو صحیح بھی سمجھ لیا جائے تو بھی یہ امر قابل غور ہے کہ اگرلڑکوں کوشادی کے لائق لڑکیاں میسر نہ آئے گی تو پھر افزائش نسل کی کیا صورت ہوگی اور اگر مالدار یا رسوخ والے شادی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بھی متوسط اور غریب طبقہ کے لڑکوں کے لیے لڑکیاں تلاش کرنا مستقل سرکا درد اور ایک عظیم چیلنج بنا رہے گا۔
۲۰۱۱ء ؁ کی مردم شماری کے مطابق چھ تا آٹھ سال تک کی بچیوں کی آبادی میں نمایاں فرق آیا ہے ، غیر ملکی اعتبار سے بہتر لاکھ کا فرق ہے ،اگریہ رجحان اسی طرح برقرار رہا تو امید ہے کہ آئندہ سالوں میں مزید کمی واقع ہونے کا اندیشہ ہے ، ملک کی جن ریاستوں میں لڑکیوں کی شرح پیدائش قابل ذکر کم ہوئی ہے ، ان میں ہماچل پردیش، دہلی، پنجاب، ہریانہ اور گجرات ، جیسی اہم اور ترقی یافتہ ریاستیں سرفہرست ہیں۔
قتل کئے جانے کے پر خطر اثرات ظاہر ہورہے ہیں، مورخہ۸؍ جنوری کی تازہ خبر کے مطابق جہاں پورا ملک حقوق نسواں و تحفظ کے لیے متحد ہوکر سڑکوں پر اتر آیا وہیں کانپور میں ایک جہیز لالچی کنبہ نے اپنی بہو کو محض لڑکی پیدا ہونے پر گھر سے نکال دیا آج جب کہ ہر طرف عورتوں کے حقوق کی بات کی جارہی ہے ، تب بھی لڑکیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک جاری ہے۔
دہلی میں عصمت دری پر جو اندوہناک واقعہ پیش آیا اور واقعہ کی متاثرہ لڑکی بالآخر موت کی آغوش میں ابدی نیند سوگئی،اجتماعی عصمت دری کے اس حالیہ واقعہ پر نہ صرف دارالحکومت دہل گیا بلکہ ملک کے مختلف مقامات پر بھی اس گھناؤنے واقعہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی۔۱۹۷۸ ؁ء کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب کسی عصمت دری کے واقعہ کے خلاف عوام نے اتنا شدید احتجاج کیا ہو۱۹۷۸ ؁ء میں دو کمسن بھائی بہن سنجے اور گیتا چوپڑا کو رنگا اور بلا نامی دونوجوانوں نے اغوا کیا تھا ، گیتا کی عصمت دری کی گئی جس کے بعد دونوں بھائی بہن قتل کر دئیے گئے، دونوں مجرمین کو ۱۹۸۲ ؁ء میں موت کی سزا دی گئی، اس حالیہ واقعہ پر اہم سیاسی قائدین اور دیگر تمام شعبہ ہائے حیات سے رکھنے والی ممتاز شخصیات نے اپنے اپنے رد عمل کا اظہار کیا سماجی مسائل پر منفرد باغیانہ تیور دکھانے کے لیے مشہور شبانہ اعظمی نے جو اس واقعہ کے خلاف سرگرم مہم چلا چکی ہیں ،کہا ہے کہ ہمیں اپنے مہذب سماج کے لیے شدت سے مطلوب تحفظ نسواں کو یقینی بنانا ہوگا ، ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمیں دیوی کا درجہ دیا جائے ، بلکہ ہم احترام ومساوات کا مطالبہ کرتے ہیں ، بے باک رد عمل کے لیے مشہور فلم ڈائرکٹر مہیش بھٹ نے انتہائی سخت الفاظ میں اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لکھاہے کہ ہم دیوی کے روپ میں عورت کی پوجا کا ڈھونگ کرتے ہیں ،مگر اب ہندوستان کو آہ وزاری کرنا چاہئے کہ اب ہمارے ہاتھ خود ہی اپنی بیٹیوں کے خون سے آلودہ ہورہے ہیں۔
مردوزن کا جنسی عدم توازن خطرناک علامت
روزنامہ ہند سماچار’’ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۰۷ ؁کا اداریہ مادر رحم میں بچیوں کے قتل کے تعلق سے رقم طراز ہے‘‘شمالی بھارت کے صوبوں میں لڑکوں اورلڑکیوں کے تناسب میں فرق لگاتار بڑھتا جارہا ہے ، مہلا بال وکاس راجیہ منتری رینوکاچودھری کے مطابق پنجاب میں جہاں ایک ہزار لڑکوں کے پیچھے یہ تناسب ۸۷۵؍ سے گھٹ کر ۷۹۶؍ رہ گیا ہے، وہیں دہلی میں یہ ۹۱۵؍ سے گھٹ کر ۸۶۸؍ ہریانہ میں ۸۷۹؍ سے گھٹ کر ۸۱۹؍ اور راجستھان میں ۹۱۶؍ سے گھٹ کر ۹۰۹؍ رہ گیا ہے ، لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اس فرق کی بڑی وجہ ہمارے سماج میں ونش کو آگے بڑھانے کے لیے بیٹے کی چاہت اور جہیز وغیرہ کی بری روایات ہیں پچھلی کچھ دہائیوں میں اسکیننگ سینٹروں میں سیکس ٹیسٹ اور کنیا بھرونوں کا اسقاط حمل کرانے پر پابندی لگانے کے لیے سخت قانون بنائے گئے اور السے اسکیننگ مراکز ونرسنگ ہوموں پرچھاپے مارنے اور قصوار وار ڈاکٹروں اور نرسوں وغیرہ کو سزا دینے کا سلسلہ شروع ہوا لیکن جیسا کہ عموماً ہوتا ہے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اب بھی چوری چھپے جنسی ٹیسٹ واسقاط حمل کراتے ہی رہتے ہیں، عام طور پر چوری چھپے ہونے والے اسقاط حمل میں نیم حکیم و اناڑی دائیوں سے کروائے جانے والے اسقاط حمل بھی شامل ہوتے ہیں، ان میں پیٹ میں پل رہی بچی کی موت تو ہوتی ہی ہے ماں کی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے ، اس سلسلہ میں ایک موجودہ ماں اور ایک ہونے والی بچی کی زندگی چھین لی جاتی ہے یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہم ایک طرف ماں کی شکل میں’’بھگوتی درگا، ماں ویشنو دیوی،ماں چنت پورنی، ماں کالی، ماں سرسوتی،ماں لکشمی‘‘ اور مختلف دیویوں کی پوجا کرتے ہیں، نوراتروں اور کسی بھی دھارمک اہتمام کے موقع پر کنیاؤں کے چرن دھوکر ان کا پوجن کرکے ان کو بھوجن کراتے ہیں ، وہیں دوسری جانب کنیاؤں کے جنم کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتے ہیں، وکنیا بھرون کا اسقاط کردیتے ہیں، عام طور پر لوگوں میں یہ سوچ دیکھنے کو ملتی ہے کہ دوسروں کے گھر پیدا ہوئی کنیا کو کنجک پوجن کے لیے مدعو کیا جائے، لیکن اپنے گھر میں کنیا کا جنم نہ ہو کنیا بھرونوں کا اسقاط اوران کی ماتاؤں کی اسقاط حمل کے وقت موت یقینی طور سے ہمارے سماج پر ایک داغ ہے اگر لڑکیوں کا جنم اسی طرح گھٹتا رہا تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ اس سے پیدا سماجی عدم توازن میں کسی لڑکی کے باہر آتے جاتے وقت اس کے ساتھ سیکورٹی گارڈ بھیجنے پڑیں گے ، سماج اور سرکار کے دور اندیش لوگوں کو وقت رہتے اس طرف سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔( روز نامہ سماچار:۲۲؍دسمبر ۲۰۰۷ ؁ء)
افزائش نسل حیوانی
کسی ملک کے تمدن اور ترقی کا اہم کار نامہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حیوانات کی نسلیں فراہم کرکے حیوانوں تک کی آبادی میں اضافہ کیا جائے اورملک میں جانوروں کی ترقی و تربیت کا معقول انتظام کیا جائے ؛چنانچہ تیموریوں نے اس محکمہ کو بھی بے انتہا ترقی دی ، اس محکمہ کو سب سے زیادہ ترقی جہانگیر نے دی، اگرچہ اکبر نے بھی اس محکمہ سے خاصی دلچسپی کا اظہار کیا تھا، یعنی پہلے لوگ جانوروں تک کی نسل کی حفاظت کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے اور آج کا انسان صنف نازک کا خاتمہ اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی کررہا ہے۔
رحم مادر میں لڑکیوں کے قتل میں ہندومذہب کی بہت بڑی غلطی
اتر پردیش ریاستی سماج بہبود اور سیوا اسپتال کے مشترکہ دیہی خواتین کے حالیہ بیداری تربیتی کیمپ میں بورڈ کی چیئرپرسن دویہ مشرانے اس بات کا بیباک اظہارکیا کہ زندگی کے ہر مسئلہ کے لیے دیوی کی پوجا کر نے والے ہندوستانی سماج لڑکی کی پیدائش کو منحوس مانتا ہے ، لیکن بحیثیت قتل دیکھاجائے تو سب سے بڑی غلطی ہندومذہب کی ہے، جو صرف لڑکوں کو ہی باپ یا ماں کی چتا کو آگ دینے کا حق دیتا ہے ، اور ماں باپ کے بعد لڑکے کو ہی آگے بڑھانے کا کام کیا جاتا ہے ، نیزجہیز بھی ایک ایسی لعنت ہے جو لڑکی کو ماں کے پیٹ کے اندر ہی قتل کے پاپ کو اور زیادہ پھیلانے میں معاون ہے، مغربی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی عورت کے بے عزتی اور ظلم کے مختلف قابل مذمت طریقوں سے متاثر ہے ان میں سب سے بڑا ظلم مادر رحم میں لڑکی کا قتل ہے۔
بیٹیاں باقیات صالحات ہیں
ایک زمانہ تھا جس میں لڑکیوں کی کوئی حقیقت نہ تھی ان کی پیدائش ننگ و عار کا سبب تھی، حتیٰ کہ سنگ دل انسان انہیں زندہ مٹی کے نیچے دفن کردیا کرتا تھا، خود قرآن اس پر شاہد ہے، (سورۃ نحل آیت نمبر:۵۷)
ترجمہ:۔ جب ان میں سے کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر سنائی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور دل مسوس کر رہ جاتا ہے ، اور لوگوں سے چھپتا پھر تا ہے، ان کو منھ نہیں دکھانا چاہتا ، اس برائی کی وجہ سے جس کی اس کو خبر ملی ہے، سوچتا ہے کہ اس نومولود بچی کو باقی رکھیںیا اس کو کہیں لے جاکر مٹی میں دبادیں، یہ اس زمانے کے لوگوں کا کردار تھا، تاہم بیٹیاں شریعت اسلامیہ کے مطابق سراپارحمت ہیں، دینی و دنیوی اعتبار سے خوشحالی کا سبب ہے ، ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ جس کے یہاں تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہویا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا اور ان کے سلسلے میں اللہ سے ڈرتارہا تو اس کے لیے جنت ہے ۔(ترمذی شریف:۲؍۱۳)مگر افسوس آج یہی بیٹیاں جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ مادر رحم ہی میں قتل کی جارہی ہے، سابقہ ادوار میں لڑکیوں پر خارج میں ظلم ہوتا تھا، مگر آج خارج اور داخل ہر دوشکل میں صنف نازک دوہری مار جھیل رہی ہے ، یعنی نفس ظلم موجود ہے ، صرف ظلم کی شکل تبدیل ہوگئی ہے، جہیز کی طویل فہرست ’’ اونچی اونچی فرمائشیں، عصمت و عزت کو ہمہ وقت خطرہ ‘‘ والدین و لڑکیوں کا جہیز مہیانہ ہونے کے سبب خود کشی کرلینا یہ سزائیں تو زندہ درگور کرنے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔
اس سنگین مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی شدید ضرورت
ایسے وقت میں جب کہ اخلاقی انارکی، فساد بگاڑ، خدا کے حضور جواب دہی کا عدم احساس اور صنف نازک کے ساتھ جبرو استحصال نیز مادر رحم میں لڑکیوں کا قتل جیسے شرمناک واقعات کے بکثرت وقوع کے بعد بھی اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سماج کا تانہ بانہ سلامت اور مستحکم ہے تو یہ ہماری خام خیالی ہے موجودہ حالات وواقعات بتا رہے ہیں کہ ملک کی بیٹیوں کا مستقبل غیر محفوظ ہے، اس نازک اور حساس مسئلہ کے ایک ایک پہلو پر گہرائی اور گیرائی سے غور کرنا ہوگا، مادر رحم میں بچیوں کے قتل کے سد باب کے لیے حکومتی سطح پر سخت سزائے ایماندارانہ نفاذ کے ساتھ ملک گیرتحریک کا شروع ہونا بھی ضروری ہے، نیز اسلامی خصائص و کمالات کو بھی معاشرہ کا جز بنانا پڑیگا، اچھائیوں کو اختیار کرنے اور برائیوں سے اجتناب کرنے والی سوسائٹوں کو وجود میں لانا ہوگا، تاکہ مادر رحم میں بچیوں کے قاتل یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ لڑکیاں بھی اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور ہر نعمت کی طرح اس نعمت کی بھی قدر کرنے کی ضرورت ہے، موضوع کے تجزیہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رحم دار کے قتل میں پھنسے ہندوستانی سماج کے پاس دوہی راستے ہیں، ایک یہ کہ اس تباہ کن راستہ کی طرف بڑھتا چلاجائے ،یہاں تک ایک عبرتناک انجام سے دوچار ہوجائے ، دوسرے یہ کہ اسلام کے انسانیت نواز اورحیات بخش پیغام کو سنجیدگی سے سنے اور اس کو منصوبہ بند طریقہ سے عمل میں لاکر خود کو ہر طرف سے محفوظ و مامون کرلے۔
مغرب کی تقلید کے سبب معاشرتی اقدار زوال پذیر
کسی بھی خاتون کو محبت و حفاظت میسر آجائے تو وہ پورے خاندان کو عروج پر پہنچادیتی ہے ، تحفظ میں کمی آئے تو اس کی عصمت جاتی رہتی ہے ، جو اصل جوہر ہے ،محبت کم ہوگی تو اس میں قنوطیت پیدا ہوجائے گی ، جو نسل نو کے لیے تباہ کن ہے ، خاتون بیٹی ہے تو شفقت و رحمت درکار ہے ، بیوی ہے تو محبت و عصمت کی حقدار ہے، ماں ہے تو احترام و کفالت کی متقاضی ہے ، مگر افسوس کہ تحفظ کی ان چیزوں کی اب سماج میں کوئی پرواہ نہیں ہورہی ہے، جو سماج اپنی ماؤں بہنوں بیٹیوں کو تحفظ نہیں دے سکتا ، وہ مہذب کہلانے کا لائق سماج نہیں، ہماری تہذیب ہمارا کلچر کس ڈھرے پر بے لگام جارہا ہے ، کچھ پتہ نہیں، آج ہماری حکومت برائی کی جڑ کی طرف توجہ نہیں دے رہی ہے، وہ زناکاری و شراب کے اڈوں کو لائسنس دے کر جرائم کو بڑھا وا دے رہی ہے ،مردوزن کے اختلاط اور ان کو دوش بدوش تفریح کے مواقع فراہم کررہی ہے، انہیں مردوں کی درمیان بھیج کر بعد میں نعرہ لگواتی ہے کہ خواتین کے تحفظ فراہم کیا جائے ، بہر حال جب تک برائی کی جڑ تلاش نہیں کریں گے ، برائی کا خاتمہ بھی نہیں ہوگا، جنسی جرائم وغیرہ کا خاتمہ کرنا ہوتو اسلام کے تعزیری قوانین پر ہی عمل پیراہونا پڑیگا و گرنہ بصورت دیگر حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا