English   /   Kannada   /   Nawayathi

سنگھ اور حکومت مکھوٹے اُتارکے سامنے آئیں

share with us

وہاں دیش دروہی عناصر پاؤں نہ جمانے پائیں۔ پرائیویٹ اسپتالوں پر بھی گہری نظر رکھی جائے کیونکہ وہاں بری طرح مریضوں کو لوٹا جاتا ہے اور بچوں کو بھارت ماتا کی جے کہنے کی عادت ڈلوائیں۔
کوئی سماجی تنظیم وہ چاہے کتنی ہی بڑی ہو اور چاہے اس کے ماننے والے کتنے ہی کروڑ ہوں۔ حکومت کیا سماج میں بھی کسی کو حکم نہیں دیا کرتی بلکہ مشورے دیتی ہے اور اچھا برا سمجھاتی ہے۔ ہندوستان میں 94 سال سے تبلیغی جماعت کام کررہی ہے۔ وہ اگر ممبر بناتی ہوتی تو اس کے کم از کم دو کروڑ ممبر ہندوستان میں ہوتے۔ وہ نہ سیاسی ہے نہ سماجی بلکہ دینی ہے۔ اس کے لوگ صرف ہندوستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں دن بھر گھومتے رہتے ہیں اور راتوں کو کسی مسجد میں بلاکر انہیں اچھی باتیں سکھاتے اور بتاتے ہیں۔ وہ کہیں جاتے ہیں تو محلے میں گھر گھر جاتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ دن اور رات میں سے ایک دو گھنٹے اسے یاد کیا کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ جس نے کھانے کو دیا اور جس نے سب کچھ دیا وہ کسی کو بھی حکم نہیں دیتے کہ رات کو اپنے محلہ کی مسجد میں آنا بلکہ پیار سے بلاتے ہیں کہ ہم لوگ دور سے آئے ہیں۔ رات کو آپ کے محلے میں رہیں گے۔ آپ آکر دین کی باتیں سن لیں۔
مسٹر اسدالدین اویسی نے جارحانہ انداز سے کہہ دیا کہ میرے گلے پر چاقو بھی رکھ دو تو میں بھارت ماتا کی جے نہیں کہوں گا۔ ہندوستان میں درجنوں زبانیں اور سیکڑوں بولیاں بولی جاتی ہیں۔ بھارت ماتا کی جے سے کہیں اچھا ہے علامہ اقبال کا یہ مصرعہ کہ ’ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘ وہ مسلمان جو شدھ ہندی بولتے ہیں وہ تو اپنے کو بھارتی کہتے ہیں ورنہ ہم سب اپنے کو ہندوستانی کہتے ہیں۔ عالم اسلام میں ہم سب کو ہندی مسلمان کہا جاتا ہے اور کروڑوں لوگ اپنے کو انڈین کہتے ہیں۔ آر ایس ایس کو کیا حق ہے کہ وہ ہندوستان یا بھارت کو ہندوؤں کا وطن سمجھے۔ ہم مسلمان ان سے کہیں زیادہ اپنے وطن سے محبت کرنے والے ہیں۔ آر ایس ایس کے بزرگوں نے کبھی بھارت میں ایسی حکومت نہیں کی جیسی ہمارے بزرگوں نے آٹھ سو برس کی۔ اور یہ محبت کی ہی نشانیاں ہیں جنہیں تاج محل کہا جائے، لال قلعہ کہا جائے، قطب مینار کہا جائے یا درجنوں عمارتیں جن میں لکھنؤ کی عمارتیں بھی سیکڑوں برس سے اپنا وجود منوارہی ہیں۔
کوئی مسافر چاہے جتنے دن بھی مسافر کی حیثیت سے رہے وہ بس اتنا کرتا ہے کہ وہ واپس جائے تو نہ اسے کچھ چھوڑتے ہوئے ملال ہو اور نہ وہ ساتھ لے جانے کے لائق ہو۔ ہم مسلمان آئے تو ہر چیز یہ سوچ کر بنائی کہ اب عمر بھر یہیں رہنا ہے۔ اور یہی ملک ہماری نسلوں کا وطن ہے۔ علامہ اقبال کا ترانہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘ کے علاوہ اور نہ جانے کس کس نے کیا کیا کہا ہے۔ ابھی دو ہفتے ہوئے اردو کے ایک ادیب شاعر دانشور اور ڈرامہ نویس زبیر رضوی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ انتہائی خوب رو، خوش گلو اور خوش آواز تھے۔ ان کے بارے میں ایک دوست ندیم صدیقی نے لکھا ہے کہ وہ جب پہلی بار کان پور کے مشاعرہ میں آئے اور جب وہ اپنا کلام سنانے کے لئے مائک پر آئے تو آواز آئی کہ بچپن میں تو چاقو چل جاتے ہوں گے؟ اور انہوں نے مسکراکر جواب دیا کہ دو چار چاقو تو اب بھی چل جاتے ہیں۔ پھر انہوں نے جب کہا کہ میں اپنا ایک گیت پیش کررہا ہوں تو سب متوجہ ہوگئے اور جب انہوں نے پڑھنا شروع کیا۔ ’یہ ہے میرا ہندوستان، میرے سپنوں کا جہان‘ اس سے پیار ہے مجھ کو تو پورا پنڈال ان کے ساتھ گا رہا تھا۔ اور مشاعرہ کے بعد نہ جانے کب تک ہر بچہ کی زبان پر زبیر رضوی کا گیت تھا۔ کیا یہ ہر مسلمان کا گیت نہیں ہے؟ اگر نہ ہوتا تو زبیر دوبارہ نہ گا پاتے۔
آر ایس ایس کے بڑوں پر جو اقتدار کا نشہ سوار ہوا ہے اسے بدہضمی کہا جاتا ہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ فریب کی سیڑھی پر کوئی ایک بار ہی چڑھ سکتا ہے۔ اس کے باوجود حکومت کو حکم دینا کہ یہ کرو، یہ کرو اور یہ یہ کرو یا بہار میں اپنا ہی تھوکا ہوا چاٹنے اور وزیر اعظم کی زبان سے یہ کہلانے کے بعد بھی کہ ریزرویشن کی جو پالیسی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ اور اس سے بھی بڑھ کر کہ ریزرویشن میں تبدیلی ہوئی تو میں جان دے دوں گا۔ اور یہ کہنا کہ لالو اور نتیش تمہارے ریزرو کوٹہ میں سے مسلمانوں کو دینے کی باتیں کررہے ہیں۔ اور پھر یہ کہنا کہ ریزرویشن کی اب جنہیں ضرورت نہیں ہے ان سے لے کر ضرورتمندوں کو دیا جائے اور پھر وزیر مالیات راجیہ سبھا میں گلا پھاڑکر جھوٹ بولیں کہ ریزرویشن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ کیا یہ مذاق نہیں ہے؟ اور اگر وکیل صاحب کے مطابق سنگھ سماجی تنظیم ہے تو کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ فتنہ پھیلانے اور ملک پر حکمرانی کا شوق پورا کرنے کے بجائے آر ایس ایس کے تمام لوگ پورے ملک میں پھیل جائیں اور جسے دیکھیں کہ اس کے حالات پوری طرح اچھے ہوگئے ہیں اس کو سمجھائیں کہ وہ اپنا کوٹہ فلاں غریب کو دے دے جس کے بچے بھی بھوکے ہیں جس کے گھر کے بیماروں کو دوا بھی نہیں ملتی۔ اگر سنگھ پریوار کا ایک ایک ممبر اسے اپنا مشن بنالے اور دو چار ہزار لوگوں کو بھی اس پر تیار کرلے کہ وہ ریزرویشن چھوڑ دیں اور ایسے غریبوں کے لئے چھوڑدیں جو واقعی جانوروں جیسی زندگی گذار رہے ہیں۔ تو پورے ملک میں ان کے گن گائے جائیں گے۔ اور جب تک انداز حکمرانی کا رہے گا تو ایسا ہی جواب ملے گا جیسا اویسی صاحب نے دیا ہے کہ ’’بھارت ماتا کی جے تو نہ کہوں گا۔‘‘
ہندوستان میں کون ہے وہ بزرگ جس نے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو ہر تقریر کے بعد نعرے کی شکل میں تین بار جے ہند کہتے اور مجمع سے کہلاتے نہ دیکھا ہو؟ ان کے بعد اندرا گاندھی نے بھی یہی معمول بنایا۔ اور ایک بار کے بعد وہ کہا کرتی تھیں کہ اور زور سے کہو جے ہند تو مجمع پوری طاقت سے جے ہند کہتا تھا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کبھی کسی نے کہا ہو کہ ہم جے ہند نہیں کہیں گے؟ اور جے ہند اور بھارت ماتا کی جے کے معنیٰ میں کیا فرق ہے؟ ہندوتو جسے چاہتا ہے ماں کہنے لگتا ہے۔ گائے بھی ان کی ماں ہے، نیل گائے بھی ماں ہے، ملک بھی ماں ہے اور بیل بھی ماں ہے لیکن مسلمان صرف اسے ماں کہتا ہے جس نے اسے جنم دیا ہے۔ اور مسلمان سب کچھ ہوسکتا ہے مشرک نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ کسی اور کو ماں کہتے ہوئے اپنی ماں کی توہین سمجھتا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ صرف ماں ہی وہ کرسکتی ہے جو وہ کرتی ہے۔ اور اس لئے مسلمانوں کو ان کے اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بتایا ہے کہ صرف ماں کے قدموں میں جنت ہے۔ مسلمان وطن کو وطن کہے گا اور ماں کو ماں۔ وطن اسے وطن کی طرح پیارا ہے اور ماں اس لئے کہ صرف وہ ہے جس نے دن کا سکھ رات کا چین صرف سال دو سال نہیں اس وقت تک قربان کیا ہے جب تک وہ خود اپنی خدمت آپ کرنے کے قابل نہیں ہوگیا۔ اس لئے اس مسئلہ کو یہیں ختم کردینا چاہئے اس لئے کہ ہندو توحید کے قائل نہیں ہوسکتے اور مسلمان جان تو قربان کرسکتے ہیں شرک نہیں کرسکتے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا