English   /   Kannada   /   Nawayathi

اتحادکی باتیں ہی باتیں

share with us

ہم ان سب حضرات کا قرارواقعی احترام کرتے ہیں جنہوں نے ملک وملت کے تئیں اپنی فکرمندی کا اظہارکرنے کے لئے ان وقیع جلسوں کا اہتمام کیا۔ اپنے ہزارکام چھوڑ کر ان میں شرکت فرمائی اوراپنی پرمغز تقاریر سے محفل کو گرمایا۔ ہم یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ ان باتوں کواللہ اثرپذیری سے روشن فرمائے۔ لیکن گستاخی معاف ان سے ایک خلش بھی پیدا ہوتی ہے۔ اتحاد کی یہ باتیں اگردوالگ الگ پلیٹ فارموں کے بجائے ایک متحدہ ملی وقومی پلیٹ فارم سے کہی جاتیں تو کیا اتحاد کا یہ پیغام زیادہ موثر نہ ہوجاتا؟ 
جمعیۃ کے جلسہ میں ایک بات اچھی ہوئی۔ مولاناارشد صاحب کے ساتھ مولانا سلیمان منصورپوری اور جناب محمودصاحب بھی ڈائس پرموجود تھے۔ یہ تینوں ایک خاندان سے وابستہ افراد ہیں۔ چندسال قبل تک ایک ہی پلیٹ فارم پر تھے ، پھرنہ جانے کیا مجبوری لاحق ہوئی کی دوپھاڑ ہوگئے۔ خودمنتشرہوجانے کے باوجودملی اتحاد ان دونوں کا موضوع رہا۔ تاریخ اوراق الٹ کردیکھئے۔ سنہ 1920ء میں جب جمعیۃ علماء کا قیام عمل میں آیا تو اس میں ملت کے تمام مکاتب فکر کی نمائندگی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ صرف مکتبہ دیوبند کی میراث بن گئی۔ اور پھراس میں سے کئی شاخیں نکل آئیں اورہرشاخ ’’ملی اتحاد‘‘ کا نعرہ دیتی رہی۔ 
راقم نے اپنے صحافتی کالم میں سخت بات کہنے یا سخت پیرایہ اختیارکرنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے، لیکن بقول شخصے مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ تو نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ حضرات گرامی!زبان پراللہ ورسول کا کلمہ، ہروقت اتحاد کا نعرہ اورمظاہرہ اختلاف کے عدم برداشت کااورافتراق کی آبیاری کا؟ ہم توعلم سے نابلد ہیں، لیکن جن کے سینوں نے کو خدانے قرآن اورحدیث کے علم منورفرمایا ہے وہ زرا غورفرمائیں قول واقدام میں یہ دوئی کہیں ازقسم نفاق تو نہیں؟ جو ہم دکھاتے ہیں وہ ہیں نہیں، جو ہیں اس پر بھاری بھرکم الفاظ کا دبیز پردہ ڈال کربندگان خدا سے چھپا دینا چاہتے ہیں۔ بندوں کو تو ورغلالیں گے، اس بصیروعلیم کو کیا منھ دکھائیں گے جب اس کی حضورحاضری ہوگی۔یہ القاب وآداب ، یہ خودساختہ ’مفکراسلام‘ کا تمغہ، علم وفضیلت کا چولا کچھ کام نہ آئے گا۔مجھے اندیشہ ہے کہ صورت حال یہی رہی تو اتحاد ملت اور قومی یک جہتی کے نعرے اپنا بے رنگ ہی رہ جائیں گے۔بیشک آپ اپنے میدان کار الگ الگ رکھئے کہ اس میں برکت ہے لیکن جب معاملہ ملک وملت کا ہو تووہ کونسی چیز ہے جو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے سے روکتی ہے؟ جب تک یہ انا فنا نہ ہوگی، منزل کو ملت ترستی رہیگی۔ کیا حرج تھا اگر یہ پیغام جو جمعیۃ علماء ہند اورمرکزی جمعیت اہل حدیث نے دیا ہے، جس میں جماعت اسلامی ہند اورمسلم مجلس مشاورت سمیت کئی دوسری ملی جماعتوں کے اکابرین بھی شامل ہوئے ہیں، ایک ہی مشترکہ پلیٹ فارم سے دیا جاتا؟ یہ دونوں جلسے ایک دودن کے فصل سے ایک ہی شہر میں منعقد ہوئے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اتحاد کا نعرہ بھی ہم سب مل کرنہیں لگاسکتے۔ اس کا کچھ اچھا پیغام نہیں گیا۔
جمعیۃ علماء ہند کی قومی قومی یکجہتی کانفرنس کی ایک رپورٹ میرے سامنے ہے۔ لکھا ہے ’’ایک لاکھ سے زائد فرزندان توحید کی شرکت ؛ مختلف مذاہب و مکاتب فکر کے علماء ودانشوروں کا کانفرنس سے خطاب؛موجودہ حکومت کی پالیسی اور ملک کو ہندو راشٹربنانے کی کوششوں کی سخت مذمت؛ مسلمانوں اور عیسائیوں کی گھر واپسی کی بات کرنے والے کسی کوکمزور نہ سمجھیں؛‘‘
یہ کانفرنس تو یقیناًکمال کی ہوئی کہ جس اسٹیڈیم کی گنجائش سرکاری طور پر 14348ہے اس میں ایک لاکھ فرزندان توحید سما گئے۔رپورٹرنے یہ نہیں بتایا کہ ’’قومی یک جہتی‘‘ کے موضوع پر اس کانفرنس میں فرزندان توحید کے علاوہ کچھ ’’برادران وطن‘‘ بھی نظرآئے یا نہیں؟ ہماری اطلاع یہ کہ کوئی اکا دکا ہو تو ہو، ورنہ پورا آڈیٹوریم مدارس متعلقین سے بھرا ہوا تھا۔ کیا ہمارے قائدین نے کبھی اس بات پر غورفرمایا کہ جب وہ ملی اورقومی مسائل پر خطاب فرماتے ہیں توسامعین میں ان کے اپنے مکتب فکراورمسلک کے متبعین کے علاوہ دیگرلوگ کیوں نہیں ہوتے؟ ایسا تو نہیں آپ یہ جلسے اوراجتماعات اپنا جھنڈابلند کرنے کے لئے ہی کرتے ہوں؟ اس جلسے میں گانگریس کے لیڈران بھی تشریف فرماتھے۔جن کی نظرقومی سیاست کے نشیب وفراز سے ہے ان کے لئے یہ بات کوئی راز نہیں کہ جہاں تک ہماری اقلیت کا تعلق ہے، اس کے مسائل کو الجھانے میں کانگریس کا کردار بھی داغدار ہے۔ پھر یہ پذیرائی چہ معنی دارد؟
محترم مولاناارشدصاحب کا یہ جملہ ایک بڑے اخبار نے اپنی شہ سرخی بنایا ہے کہ موجودہ حکومت اقلیتوں کے لئے خطرہ ہے۔ بجا فرمایا۔ لیکن بات اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ حکومت جس ڈگر پر چل رہی ہے وہ پورے ملک کے لئے خطرناک ہے۔ آپ بات صرف اقلیتوں کی کریں گے توبرادر ملک آپ کی طرف کیوں متوجہ ہونگے۔ غلام نبی آزاد صاحب نے درست فرمایا:لڑائی ہندو۔ مسلمان کے درمیان نہیں ،بلکہ فرقہ پرستی اور سیکولرازم کے درمیان ہے۔‘‘ سیکولرزم سے مراد یہ ہے سرکار کا کئی دھرم نہیں ہو اورتمام باشندے اس کی نظر میں برابر ہوں۔ ہماری مشکل یہ ہے ہمارے تعلق سے سابقہ حکومتوں کی پالیسی کچھ خیراندیشانہ نہیں رہی ہے۔ سچر رپوٹ نے صاف کردیا ہے ’’سیکولر ‘‘ حکومتوں کا رویہ بھی ہمارے ساتھ سیکولر نہیں رہا ہے۔ محترمہ سونیا گاندھی نے بجا فرمایا: قومی یکہجتی کے لئے جمعیۃ علما ہند کا کردار ہمیشہ قابل تعریف رہا ہےْ‘‘۔ حضرت مولانااسعد مدنی کی یاد میں ایک سیمنار میں ، جو وگیان بھون میں ہوا تھا، راقم نے ایک بات کہی تھی کہ جمعیۃ نے آزادی سے پہلے بھی دوقومی نظریہ سے اختلاف کیا تھا۔ اورجب کانگریس نے بھی اس نظریہ پر مہر لگادی تو برصغیر ہند میں صرف جمعیۃ کے قائدین اورمتوسلین ہی تھے جو ایک قومی نظریہ کو اپنے سینے سے لگائے رہے۔ آج بھی وہی ایک قومی نظریہ کی علم برداری کرتے ہیں۔‘‘ کیا کوئی ہے جو اس حقیقت سے انکار کرسکے؟
ابھی چندروز میں صوفی ازم کے نام پرایک بڑی کانفرنس ہونے والی ہے۔سمجھا جاتا ہے کہ یہ کانفرنس ہمارے وزیراعظم کے اشارے پر ہورہی ہے۔ متعدد موقرسنی علماء نے اس کانفرنس سے کنارہ کشی اختیارکرلی ہے۔ اس بے حمیتی کا کیا جواب ہے کہ اب بھاجپا اورآرایس ایس یہ طے کریں کے ہندستانی مسلمانوں کا مشرب کیو ہونا چاہئے۔ اللہ ہماری ملت پر رحم فرمائے۔ آمہن۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا