English   /   Kannada   /   Nawayathi

"بھارت تمہارا ہی ہے کیا فقط؟؟

share with us

کبھی گیتا کو قومی کتاب بناکر سبھی اسکولوں میں داخل و لازم کرنے کی بات کہی جاتی ہے،کبھی گئو ماتاکا مسئلہ اٹھایاجاتاہے،کبھی رام مندر تو کبھی بابری مسجد کو شوشہ بنایاجاتا ہے،شاھد اعظمی سے گلبرگی تک A.M.Uسے J.N.U تک نعمان و اخلاق سے روہت وکنہیا تک سب اسی مشن کی پیش بندی ہے،اور اب جب ملک کے ۸۵ فیصد دلت واقلیت ان فاشسٹ طاقتوں کی سازشوں کو سمجھنے لگے ہیں،اورروہت کی خود کشی و کنہیا کی گرفتاری کے ذریعہ منواسمرتی کوہوادینےوالے سنگھیوں کے خلاف صف بستہ ہوکر سراپااحتجاج بن گئے ہیں،توسنگھ کے"سر سنچالک"کو سنگھی عزائم پر منڈلاتے ہوئے بادلوں کااحساس ہوگیا اور فوراً"بھارت ماتاکی جئے"کو ایشو بناکر ایک طوفان کھڑاکردیااورروہت کی قربانی،کنہیاکی جانبازی،ہرمحاذ پر حکومت وسنگھ کی کرکری کودبانےکےلئے،جے.این.یوو دلتوں کے تحفظ کے لئے ہوئےہندومسلم،اقلیت و اکثریت کے اتحادکوتوڑنےکےلئے ایک نہایت غیرضروری مسئلہ کو مذھبی ایشوبناکرپیش کردیاہے،تاکہ اس کا"ری ایکشنRe Action " ہواورہندؤوں کے مذھبی عقیدت و جذبات کوبھڑکاکرانہیں مسلمانوں کے خلاف کردیاجائے،اورجو متحدہ محاذ فرقہ واریت وفسطائیت کےخلاف بناتھا وہ خود بخود "بھارت ماتاکی جئے" کےنذر ہوجائے،قومی یکجہتی کے لئےایک بند مٹھی کی طرح ہوجانے والوں کے مابین منافرت کی دیوارکھڑی ہوجائےجس کا فائدہ پانچ صوبوں میں ہونے والے الیکشن میں سیدھےطورپربی.جے.پی کو ملے،کیونکہ لوک سبھاالیکشن میں جن وعدوں سے پر امید و مرعوب ہوکر عوام نے مودی جی کو تخت و تاج سے نوازا تھا، ان پر تو آج"مسٹر پھینکو" کی سیاحت وبڑبولےپن کا غلبہ ہوگیا ہے،اس لئے تعمیری کاموں سے ہٹ کر تخریبی طریقہ کار کو اپنایاجارہاہے،جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے مطابق ۹۸ فیصد ہندوستان کی عوام توچونکہ اندھی ہےخود ساختہ مذھبی مخالفت پروہ چراغ پاہوجاتی ہے، پہر"ناآؤدیکھےناتاؤ"اورمذھب کے نام پریکطرفہ ووٹنگ کرکے سیکولرزم کا جنازہ نکالتے ہوئے فاشسزم کو اقتدارکی کرسی تک پہونچا دیتی ہے،اسی لئے"بھارت ماتا کی جئے" والے مسئلہ کوایک ماہر،گھاگھ،اور شاطربالر کی گگلی یایارک سمجھی جائےجسےاگر منجھا ہوا"بیٹسمین"کھیلے گا تو "ڈیفینسیوDIFANCIVE" شاٹ لگاکر اپناوکٹ بچالےگاورنہ تو بولڈ ہوناطےہے،
اب آتےہیں"بیرسٹر اسد الدین اویسی" کی طرف،جذباتی سیاست جن کی فطرت ہے،
اور فی الفور جواب دینا ان کی عادت ہے
جیسےہی موہن بھاگوت نے یہ گگلی پھینکی اسد صاحب نے چھکامارنے کی کوشش کی پراس کانتیجہ یہ ہواکہ زرخرید میڈیا
نےاسےقومی و مذھبی مسئلہ بناکر انہیں بولڈ کردیا،نتیجتاً مہارشٹرااسمبلی سےوارث پٹھان کو"سسپینڈ"کردیاگیا،اوردیکھتے ہی دیکھتے ملکی عوام روہت کی خود کشی، کنہیاکی گرفتاری،وجے مالیہ کےفرارہونے اوراسمرتی ایرانی کی غنڈہ گردی کوبھول کر فقط ایک نعرے کی بحث میں الجھ گئے،ہزاروں کروڑ روپئے کا چونا لگاکر حکومتی تعاون سے ہی ملک سے فرار ہونے والے وجئے مالیا کو میڈیا نے اتنی کوریج نہیں دی جتنا اس مسئلہ پر میڈیا کے
اینکرس و نمائندے دلچسپی لےرہے ہیں،اور نفرت کی چنگاریاں بھڑکارہے ہیں،یہی بھاگوت جی کا منشاتھا، اب ناگپوری آقا خاموشی سےپوراتماشا دیکھ رہےہیں،
رہی بات"بھارت ماتا کی جئے"کہنے کاعقلی مسئلہ جیسا کہ کچھ لوگوں کانظریہ ہے تو بھارت"ہند" انڈیا"ہندوستان سب ایک ہی ملک کے نام ہیں،ماتا،ماتے،ماتر"کامطلب ہندی اورسنسکرت میں ماں ہوتا ہے.ماتربھومی سے مراد وہ سرزمین مراد ہوتی ہے جہاں پر کسی کی پیدائش ہوئی ہو.اس لئےاگر کوئی ہندوستان میں پیدا ہوا تو اسکی ماتر بھومی ہندوستان ہوگی.اگر کوئی بنگلادیش میں پیداہواہےتو اس کی ماتربھومی بنگلادیش کہلائےگا،اس لحاظ سے کہا جاسکتاہے کہ بھارت ہماری ماتر بھومی ہے.لفظ مادرکا مطلب بھی ماں ہوتا ہے.
ہم جس ادارے میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اس کومادر علمی کہا جاتا ہے.اور ہم جہاں پیدا ہوئے اس کو مادر وطن کہاجائے گا.جب ہم ہندوستان کو مادر وطن کہہ سکتے ہیں تو اس کا ترجمہ بھارت ماتا بھی کہہ سکتے ہیں اب رہ جاتا ہےلفظ"جے" کا معاملہ "جے"کا مطلب کامیابی فتح ہے،اگر ہم اپنے ملک کی کامیابی کی تمنا کرتے ہوئے "بھارت ماتاکی جے" کہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہونی چاہئے.یہ تو ایک عقلی فلسفہ ہے،
لیکن موجودہ تناظرمیں جس نقطہ نظر سے"بھارت ماتاکی جئے"کہنے کامسئلہ اٹھایاجارہاہے اور اسے قوم پرستی کی تعریف بتایاجارہاہے وہ یقینی طور پرمادر وطن کی کامیابی وکامرانی کی دعاکے نظریہ سےنہیں بلکہ"وندے ماترم"کی طرح ہی ہندوؤں کے ایک خاص عقیدے پر عمل کرنے کے لئے ہے،کیونکہ ہندؤوں کے مطابق ہم انسانوں کو پیدا کرنے میں "دھرتی ماں"ہی خالق کل ہے اسی وجہ سے اس کی "پوجاووندناکرنا"
ضروری ہے،لہذا"بھارت ماتاکی جئے"کا نعرہ بھی دھرتی ماں کو خدامانتےہوئے ہیکہناپڑےگا،اور ظاھر ھیکہ یہ شرک ہے اور کوئی بھی کلمہ گو مسلمان اسے کہنےکے لئے تیار نہیں ہوگا،اوراس کو یہ نعرہ لگانے پرازروئے دستور ھند مجبوربھی نہیں کیاجاسکتااوراگردیش بھکتی اسی بول سے ہی ثابت ہوگی توواضح رہےکہ دستور ہند کے مطابق کسی کی حب الوطنی صرف یہ نعرہ لگانےسےہی ثابت نہی ہوسکتی،بلکہ مکمل آئین پر عمل پیرا ہوناپڑےگا،اور حب الوطنی کے لئے اگر لفظوں کاکھیل ہی ضروری ہے تو جئے ھند بھی کہا جاسکتاہے،بلکہ کرانتی و جنگ آزادی کے ہزاروں نعروں کے ساتھ ساتھ نعرہ" تکبیر اللہ اکبر"بھی بلاتفریق مذھب و ملت ہر ہندوستانی کولگاناچاہئے،کیونکہ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی کاسب سےبڑانعرہ یہی تھا،الغرض اس مسئلے کےحوالےسے متفقہ شرعی فیصلہ کچھ بھی ہواور عنقریب ہمارے بڑے ادارے اس جانب توجہ بھی دیں گےاور قوم کی سہی راہنمائی بھی کرینگے پراب سے ۲۰۱۷ تک بی.جے.پی و آر.ایس ایس کے ٹٹو اس طرح کے غیر ضروری امور کو ہوادیکر فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کرینگےاور ان کے کچھ ضمیر فروش چمچے تسلیمہ نسرین و جاوید اختر کے روپ میں ان کے خیالات کی ترجمانی بھی کرینگے، تاکہ وہ دھرم کے نام پر آسام سے لےکر یوپی تک میں راج کرسکیں اور رام مندر کا خواب پورا کرسکیں،اس لئے ہم مسلمانوں کو جوش سے نہیں ہوش سے، جذبات سے نہیں عقل سے کام لیتے ہوئے برادران وطن کو مزید قریب لانے کی پہل کرنی ہوگی اور قومی یکجہتی و بقائے باہمی کوفروغ دینے کے لئے ہمیشہ کی طرح تمام تر توانائیاں وترجیحات لگادینی ہوگی،قومی یکجہتی کے پروگراموں میں صرف مذھبی رہنماؤوں و سیاسی لیڈروں پر اکتفا ناکرتے ہوئے برادران وطن میں سے عوام الناس کی بھی اچھی خاصی نمائندگی بہت ضروری ہے تاکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو قریب سے دیکھیں اور ان کے ذھنوں میں نفرت و تعصب کاجوزہرڈالاگیاہے وہ کافور ہوسکے،عدم رواداری کے خاتمہ کا یہ واحد راستہ ہے، بلکہ دعوت اسلام کاکام حکمت سےشروع کرناپڑےگا،اور اسلام و سیرت کے پیغام امن و سلامتی کو عام کرناپڑےگا،تاکہ ان برہمن نواز"منو اسمرتیوں" کی ناپاک سازش نامراد و ناکام ہوجائے،اور جس ملک میں پیارو محبت،امن و آشتی،جمہوریت وایکتا "گنگاجمناسرسوتی" بن کربہتے ہوں وہاں کی "کثرت میں وحدت"تکثیریت اورانسانیت کی بنیاد پر مساوات کی تہذیب و پالیسی اور جمہوریت کے پنپنے والے ملک کومظلوموں کے خون و لہو سےاپنی پیاس بجھاکر ہندوتو کو بڑھاوا دینے والوں کی نظربدنالگ جائے، خلاصہ یہ ھیکہ اس موضوع کواٹھاکر
برادران وطن کو' مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے،
اور یہ اسلام پر یک گونہ حملہ کے بھی مرادف ہے،لیکن.........
تم جتنابھی تراشوگے اتناہی سوا ہوگا
یہ اسلام کا پتاہےکاٹوتوہرا ہوگا،
وقتاً فوقتاً ان جیسے مسائل کو کھڑا کرکے یہ طاقتیں ملک و باشندگان وطن کے سامنے ایسا چیلینج پیش کررہی ہیں جس کا سامنا سبھی ہندوستانیوں کو مل کر کرناپڑےگا،کیونکہ وزیر اعظم اور ان کے پٹھو تو پوری طرح فیل ہوچکے ہیں،مودی جی صرف انہیں مسائل پر زبان کھولتے ہیں جو انہیں سیاسی طور پر سہل محسوس ہوتے ہیں،بطور وزیر اعظم وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں،فاسشٹ طاقتیں ملک کو تقسیم کرنے اور نفرت پہیلانے وزہر گھولنے کا کام منظم انداز سے کرتی آئی ہیں اور مودی جی یاتو خاموش ہوجاتے ہیں یا بالواسطہ طور پر راضی خوشی ان قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں،حالانکہ اس ملک کے لئےمسلمانوں نے جتنا لہو بہایا ہے شاید کہ اوروں نے اتناپسینہ بھی بہایاہو،اسی حب الوطنی کے جذبات و احساسات کو شکیل اعظمی نے الفاظ کا پیراہن دیتے ہوئے کہاھیکہ میں ایک ہندوستانی ہوں مجھے اپنے وطن سےکس قدر اپنایئت ہےعشق ہےمیں کہہ نہیں سکتابس اتنا جانتا ہوںاس سے کٹ کر رہ نہیں سکتایہاں کی خاک میرے جسم کی مٹیّ میں شامل ہے, پہاڑوں کی ندی سے جڑی ہے میری اونچائیدرختوں کے تنے ہیں پاؤں میرےہاتھ ہیں شاخیںندی ّجھرنے سمندر
میرے تن میں خون کی مانند
مرے اندر وطن میرا
مرے باہر وطن میرا
میں ذرے ّ ذرےّ پہ
لکھی وفاؤں کی کہانی ہوں
میں ایک ہندوستانی ہوں..
لیکن ناگپوری آقاؤوں نے دیش بھکتی ناپنے کا جو آلہ مودی جی اور ان کے بھکتوں کو دیا ہے وہ اسی آلہ سے ہی ناپ کر دیش بھکتی و حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں ورنہ تو ۲۰۰ سال سے خون بہانے والوں،وطن کے لئے تن،من،دھن کی بازی لگادینے والوں اور موقع ہونے کے باوجود اسلام کے نام پر بننے والے ملک پر ہندوستان کو ترجیح دینے والوں کی حب الوطنی پر شک کیا جاتاہے اور انہیں پاکستان جانے کافرمان سنایاجاتاہے
بقول شخصے.......................
اسی کی آج وفاداریاں ہویئں مشکوک
جو سرحدوں پہ بھی عبدالحمید ہوتا ہے

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا