English   /   Kannada   /   Nawayathi

لکھنؤ کی شوکت و حشمت اور علم و حکمت پر غاصبانہ قبضہ

share with us

معلوم ہوا کہ انجمن اصلاح المسلمین کی میٹنگ ہے۔ اس کے بعد مسلم مسائل سے متعلق جو چھوٹے جلسے ہوتے تھے۔ اس کے لئے کبھی سامنے والے چبوترہ پر کرسیاں بچھائی جاتی تھیں اور کبھی اندر ہال میں جو بعد میں مولانا ہاشم میاں فرنگی محلی ہال کہا جانے لگا تھا۔
سال ڈیڑھ سال کے بعد پریس کے اوپر کا حصہ خالی ہوا تو ہم بچوں کو بھی لے آئے اور ہمارے شب و روز باغ گونگے نواب میں ہی گذرنے لگے۔ ہم نے انجمن اور ممتاز اسکول کا ہر دَور کو دیکھا ہے اور نہ جانے کتنے صدر اور سکریٹریوں سے ہر دن ملنا جلنا ہوتا تھا۔ لیکن 15 یا 20 سال سے ہم اپنی صحت کی وجہ سے سمٹ گئے ہیں۔ یہ وہ دَور ہے جس میں جن لوگوں کے ہاتھ میں انجمن اور اسکول آیا وہ نام حسب و نسب سے تو مسلمان بتائے جاتے ہیں۔ لیکن فطرت طینت اور حرکات سے شاید انسان کے خانہ میں بھی نہ آتے ہوں۔ انجمن اصلاح المسلمین کا وہ فوٹو ہمارے پاس محفوظ ہے جو اس وقت کی یادگار ہے جب وہ لکھنؤ کے مسلمانوں کے دل کی دھڑکن تھی۔ ہم نے مشہور منا بخشی سے کہہ کر اس کا فوٹو منگایا تھا کہ یادگار رہے۔ اور وہ یاد دلاتا رہے کہ لکھنؤ کے ہر مسلمان کو اس سے محبت تھی۔
ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب وہاں ایک ہزار بچے پڑھتے تھے۔ وہ سال بھی دیکھے ہیں جب رمضان شریف کے درمیان مظفر احمد لاری کسی بڑی دکان پر آکر بیٹھتے تھے اور ہر یتیم بچے کے لئے کپڑے خریدتے تھے۔ اور یہ بھی برسوں دیکھا ہے کہ 29 ویں رمضان کو مرحوم مقبول احمد لاری صاحب خود آکر باٹا کمپنی میں بیٹھ جاتے تھے اور ممتاز یتیم خانوں کے ہر بچہ کو جوتے دلواتے تھے۔ اور وہ دن بھی دیکھے ہیں جب قربانی کی کھالوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے اور گوشت بھی منوں آجاتا تھا۔ حد یہ ہوتی تھی کہ بچے دال چاول مانگنے لگتے تھے۔
آج وہ تمام باتیں خواب ہوگئی ہیں۔ اب اس کی حیثیت بھونڈے اور پھوہڑقسم کے گڑبڑجھالہ کی ہوگئی ہے۔ اور وہاں صرف دکانیں ہیں دکانیں، جن کی تعداد تین سو بھی ہوسکتی ہے اور کم یا زیادہ بھی وہ صرف ایک اہل اور قانون داں بھائی اور باقی اس کے جاہل نااہل اور آخری درجہ کے بدکردار بھائیوں کی جاگیر بن گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تعلیم اور یتیم بچوں کے مستقبل کے لئے انجمن کی مرکزیت کو ختم کرکے اسے آمدنی کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ لیکن معلومات کی حد تک تعلیم کا حال یہ ہے کہ شاید 100 بچے ہی اسکول میں پڑھتے ہوں اور وہ یتیم جن کے لئے یہ انجمن بنی تھی وہ آج بھی ان ہی لوہے کے پلنگوں پر سو رہے ہیں جو غربت کے زمانہ کی یادگار ہیں۔ اور حد یہ ہے کہ وہ مسجد جو کبھی عمارت کے ساتھ بنی تھی وہ بھی اسی حالت میں ہے جس میں ممتاز مارکیٹ کے اگر تمام نمازی دکاندار ایک وقت میں نماز پڑھنا چاہیں تو وہ چھوٹی رہ جائے۔
اسی شہر میں ایک جگدیش نام کا ہندو ہے۔ وہ شارب رُدولوی، جسٹس حیدر عباس اور ابن حسن ایڈوکیٹ کے ساتھ ہی یونیورسٹی میں تھا۔ ہر کوئی قسم کھاکر بتا سکتا ہے کہ برسوں میں کسی نے اسے ایک دن بھی سنجیدہ نہیں سمجھا وہ ہر دن لڑکوں کے مذاق کا موضوع بنتا تھا۔ اور مذاق میں ہی وہ یونین کا صدربھی بن گیا۔ اور اسی مذاق میں اس نے شادی کی۔ پھر اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ ایم ایل اے بھی بنا۔ اس نے پارلیمنٹ کا الیکشن بھی لڑا۔ اور نہ جانے کیا کیا کرکے اس نے ایک اسکول قائم کیا جو ممتاز اسکول سے شاید 100 برس چھوٹا ہو۔ پھر اس نے اپنے سٹی مانٹیسری اسکول کا معیار بلند کرنا شروع کیا اور آج وہ لکھنؤ کے ہر بڑے سے بڑے اسکول سے اتنا بڑا ہے کہ انگلش میڈیم لامارٹینئر یا لاریٹو اسکول بھی اس کے مقابلہ میں ایسے ہوگئے ہیں جیسے کبھی ممتاز اور اسلامیہ اسکول تھے۔ سنا ہے ایئرپورٹ کے قریب انہوں نے ایل. ڈی. اے. بنایا ہے میرے ایک نواسہ کے مطابق جس کا بچہ اس کے اسکول میں پڑھ رہا ہے وہ اگر پانچ سو کروڑ کا کہا جائے تب بھی شاید صحیح نہ ہو۔
جگدیش گاندھی نے اپنی بیوی (نہایت معمولی صورت والی) بھارتی گاندھی کے ساتھ مل کر یہ اسکول قائم کیا تھا۔ اس نے اپنے اسکول کے لئے ایک دکان بھی نہیں بنائی بازار تو دور کی بات۔ اور ممتاز کو ان بھائیوں نے ایسا بنا دیا کہ ایک سال شاید 2004 ء میں میری نواسی نے جب انٹر کا امتحان دیا تو میں نتیجہ کا اخبار لے کر اس کے گھر گیا۔ بعد میں خیال آیا کہ ممتاز کا حال بھی دیکھو کہ کتنے لڑکے پاس ہوئے؟ تو پورا اخبار سب نے چھان مارا ممتاز اسکول کا نام ہی نہیں تھا۔ جس کا مطلب اب کوئی کچھ بھی سمجھ لے یہ بھی کہ کسی نے امتحان ہی نہ دیا ہو؟ یا یہ کہ ایک بھی پاس نہیں ہوا؟
یہ بات تو حضرت عالمگیر اورنگ زیب کے بعد ہی معلوم ہوگئی تھی کہ پاک پروردگار نے مسلمانوں سے قیادت کی صلاحیت واپس لے لی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ بہادر شاہ ظفر تک کا زمانہ انتہائی افراتفری کا ہوا اور اس کے بعد سے اب تک ہر جگہ مسلمان ایک کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہندوستان میں 18 یا 20 کروڑ ہوتے ہوئے مٹھی بھر سکھوں سے تو پیچھے ہیں ہی ان عیسائیوں سے بھی پیچھے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جن سے لڑکر ہندوستان کو آزاد کرایا ہے اور اسے جنگ آزادی کہا جاتا ہے جس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی بھی اپنے ہی ملک میں انگریزی میں تقریر کرکے فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریزی والے کہیں کہ اچھا یہ ہے کہ وہ ہندی ہی بولیں۔
مسلم اداروں کے اقلیتی کردار کے لئے مسلمانوں نے جو لڑائی لڑی تھی وہ صرف اس لئے کہ مسلمان بچوں میں اسلامیت باقی رہے اور وہ اپنے کالجوں میں پڑھ کر عصری تعلیم بھی حاصل کرلیں اور نماز روزہ بھی کرتے رہیں۔ لیکن لکھنؤ کے بارے میں تو ہم یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ہر مسلم اسکول پر چنبل کے ڈاکوؤں سے زیادہ بے رحم دبنگوں نے قبضہ کررکھا ہے۔ ہر جگہ دبنگ بیٹھ گئے ہیں۔ اور ہر ادارہ وہ ممتاز ہو، اسلامیہ ہو، سنی کالج ہو، کرامت ہو، تعلیم گاہ نسواں ہو۔ ہر جگہ گروپ برسرپیکار ہیں جس نے جس ادارے پر قبضہ کرلیا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کے باپ دادا کی جاگیر ہے چاہے ان کے دادا پردادا نے کبھی اس ادارہ کو دس روپئے نہ دیئے ہوں۔ وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ شریفوں نے اپنی شرافت کو داؤ پر لگانے سے انکار کردیا ہے۔ اور جن کا پیشہ ہی دبنگی ہے وہ اپنے غنڈوں کی پرورش بھی کررہے ہیں اور عیش کی زندگی بھی گذار رہے ہیں۔
کل ممتاز کالج کی 100 دکانیں ایسے جلی ہیں جیسے ہریانہ میں جاٹوں نے جلائی ہیں کہ کسی دکان پر ایک روپیہ کی شیشی بھی نہیں بچی۔ اور شاید عید تک یہ بازار کروٹ بھی نہ لے سکے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ بنائی ہیں انہوں نے کبھی اپنا چھپر کا مکان بھی نہیں بنایا تھا۔ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ جب مکان یا دکانیں تعمیر کرائی جائیں تو ان میں ہوا روشنی اور آمد و رفت کے لئے کتنی جگہ چھوڑی جائے؟ روشن دان کتنے بڑے نکالے جائیں؟ بیسمنٹ کی حیثیت تو کنوئیں کی ہوتی ہے۔ اس میں نہ سانس لینے کے لئے کھڑکی نہ خدا نخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو دھوئیں کے نکلنے کے لئے روشن دان اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جب دھواں نکل نہ پایا تو بم بن کر پھٹا اور اس کے اوپر جو گودام تھے وہ سب نیچے آگئے۔ جن لوگوں کی زندگی کونے کھدروں میں چھپ کر جوا کھیلنے اور کالے دھندوں میں گذرے ان کے دماغوں میں کشادگی اور وسعت کہاں سے آسکتی ہے؟ سنا ہے کہ امین آباد پولیس اسٹیشن میں متعین پولیس والوں نے ہر سڑک کو کرایہ پر اٹھا دیا ہے۔ وہ باغ گونگے نواب جہاں 1975 ء تک ہماری بیگم بچوں کو مغرب کے بعد گھر سے باہر اس ڈر سے نہیں جانے دیتی تھیں کہ کوئی اٹھاکر نہ لے جائے وہی 25 سال کے بعد اس لئے نواسوں کو نہیں جانے دیتی تھیں کہ کسی گاڑی سے ٹکر نہ ہوجائے۔ اور اب وہ ایسی سڑکیں ہیں کہ وہاں صرف موٹر سائیکل بمشکل جاپاتی ہے۔ اس کا نتیجہ تھا کہ ممتاز مارکیٹ جل رہی تھی اور باٹا کمپنی اور گڑبڑجھالہ کے سامنے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ جتنے بڑے مجرم مارکیٹ بنانے والے ہیں اتنی ہی بڑی مجرم پولیس ہے اور دونوں کے باپ دادا کا نہ سڑکوں میں کوئی حصہ ہے اور نہ مارکیٹ میں۔
اگر ہر شہر کے مسلمان دبنگوں سے مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں تو اتنا تو کریں کہ ہر شہر سے پچاس معزز مسلمانوں کا وفد لکھنؤ آئے اور وزیر اعلیٰ سے کہے کہ ہمارے اسکولوں کا اقلیتی کردار ختم کرادیا جائے۔ ہمارے بچے اوم اور سوریہ نمسکار پڑھ کر آئیں گے تو انہیں وضو کراکے دعائیں پڑھوا لیں گے لیکن یہ برداشت نہیں ہوگا کہ بزرگوں کے قائم کئے ہوئے اسکول تعلیم دینے کے بجائے شرابیوں کو شراب اور جواریوں کو روپئے اور عیاشوں کے لئے طوائفوں کا انتظام کریں۔ ریاست کے ہر شہر میں جتنے بھی مسلم اسکول ہیں چند کو چھوڑکر سب دبنگوں کے اڈے بن گئے ہیں۔ لاکھوں روپئے روز کمانا ہزاروں پولیس کو دینا ہزاروں سرکاری دلالوں کو دینا اور ہزاروں کی شراب افسروں اور وزیروں تک پہونچانا اور ہر طرف سے مداخلت کا راستہ بند کرکے جتنا اور جس قسم کا عیش کرسکتے ہوں کرنا کب تک برداشت کیا جائے گا؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا