English   /   Kannada   /   Nawayathi

محکمۂ صحت۔۔۔چارہ گر نہ لے مری جان

share with us

معلوم ہوا طب کتنا اہم اور عظیم ہے جس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا: ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تاکہ وہ شکر ادا کرے یہ اس فن کی عظمت کا مقام اور ٹھکانہ ہے کہ خداوند قدوس اس کو وجہ شکر بیان کررہے ہیں۔ ظاہر ہے شکر نعمت پر ہی کیا جاتا ہے، حکمت نعمت خداوندی ہی ہے جس کے ذریعہ تڑپتے اور سسکتے انسان کو پل بھر میں معالج سکون کی نیند سے آشنا کرتا ہے اور احساس کراتا ہے اپنی اہمیت اور وقعت کا مگر موجودہ میں دور جہاں ہندوستان میں بہت سے مسائل ہیں وہیں بدقسمتی سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شعبہ کا استعمال انسانی خدمت کے لئے نہیں ہورہا بلکہ یہ علم، فن یا پیشہ صرف ایک تجارت بن کر رہ گیا، جس کی قیمت ہزاروں غریب اپنی جان دے کر چکاتے ہیں اور ملک ایک بڑے خسارے سے دوچار ہوتا ہے مگر کسی کی اس جانب توجہ نہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہیں انہیں اس سے کیا سروکار کہ کون مرتا ہے کون جیتاہے؟ ان کی کرسی باقی رہے، ان کا دھنددھا چلتا رہے، انہیں اور کیا چاہئے جب کہ موجودہ دور میں اس سمت ایک اچٹتی ہوئی نگاہ بھی سارے راز عیاں کردیتی ہے اور معلوم ہوجاتا ہے ہماراطبی سسٹم کس بدحالی کا شکار ہے اور جو سست رویہ اس سمت میں ہے وہ کسی بڑے جرم سے کم نہیں۔
وہ ملک جہاں لاکھوں کی تعداد میں افراد غریبی کی زد میں ہوں وہاں یہ عالم، بے شمار افراد کو دوا میسر نہیں آتی وہ موت کی نیند سوجاتے ہیں یا درد سے تڑپتے اور کراہتے موت کی تمنا کرتے رہتے ہیں، ان میں اتنی سکت اور قدرت نہیں ہوتی کہ وہ دوا کا خرچ برداشت کر سکیں، وہ توروٹی سے پیٹ بھرنے پر بھی قدرت نہیں رکھتے۔ لاکھوں کی تعداد ہندوستان میں ان افراد کی ہے جو غریبی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آئیے ایک ہلکا سا نمونہ آپ کو دکھا دیا جائے تاکہ یہ بات ہوائی معلوم نہ ہو۔ ہماچل پردیش ہندوستان کے چھوٹے اور ترقی یافتہ صوبوں میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے اور شملہ وہاں کا ایک خوبصورت مقام ہے جو سیاحوں کا مرکز ہے۔ اس ضلع میں B.P.L.Cardرکھنے والوں کی تعداد 2491ہے، جو اس امر کی غماز ہے کہ ہندوستان میں غریبی کی زندگی گذرانے والے افراد کتنے ہوں گے، جس ملک میں 78000 افراد انٹر پاس کرنے کے بعد بھیک مانگ رہے ہوں وہاں اس بات کا اندازہ کرنا کہ غریبی کس درجہ ہے کوئی بڑی بات یا کوئی MATHکا الجھا ہوا سوال نہیں جسے کوئی شخص حل نہ کرسکے۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہسپتالوں کے نظام کی بدتری ملک کو کس درجہ مشکل تر حالات سے دوچار کر سکتی ہے؟ ہماری حکومت نے اس سمت میں اقدامات کرنے کے بجائے ایک عجیب راگ الاپا ہے ۔ہم دو ہمارا ایک۔ اگر اس شعبہ کی طرف توجہ دی جائے تو کیا ان سنگین مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جا سکتا؟ کیا ہندوستان میں سرکاری ہسپتالوں کی کمی ہے؟
Primary Health Centre (India) ہر بلاک کے لئے Community Health centre دیہاتوں اور قصبات کے لئے District Hospital ہر ضلع کے لئے کثیر تعداد میں موجودہیں۔C.H.C.S.کا حال تو یہ ہے کہ وہ جانوروں کے طبیلے کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور جہاں نسل انسانی کی فکر اور اس کا علاج معالجہ ہونا چاہئے تھا وہاں دودھ کا کاروبار ہورہا ہے۔
ہسپتالوں کی کثرت کے اندازہ کے لئے ایک تحقیق آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ اجمیر الور اور اس سے ملے کچھ ضلعوں میں پرائمری ہیلتھ کئیر سینٹر کی تعداد 1517ہے، آخر کیوں اتنے افراد کو دوا میسر نہیں، پھر کیوں ایک باپ اپنی بیٹی کو گورکھپور کے ضلع ہسپتال کے باہر تڑپ تڑپ کر اپنی گود میں دم توڑتے ہوئے دیکھتا ہے اور درد کی ایک گولی نہیں ملتی، کیا اس درد کا اندازہ کر سکتے ہیں؟ ہمارے ملک کے رہنما کیا اس کی بے بسی اور کسمپرسی کی قیمت ادا کر سکتے ہیں؟ یہ مطلب پرست افراد کیا اس کے درد کو محسوس کرسکتے ہیں؟ یا ان لوگوں کے درد کو جو آل انڈیا میڈیکل کی لائن میں کھڑے اپنے نمبر کے منتظر رہتے ہیں اور ان کا مریض دم توڑ چکا ہوتا ہے کیا اپنے کی لاش کو لے کر لوٹ رہے اس شخص کی تکلیف کا ازالہ ہے ان کے پاس؟ کیا ہمارا الیکٹرانک میڈیا جو سچ کو جھوٹ کا جامہ پہنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، کیوں اس مسئلہ پر گفتگو نہیں کرتا؟ کیا وہ ہندوستانی کہلانے کے لائق ہیں جو عام انسانوں کی جا نوں سے کھیل رہے ہیں؟
سرکاری ہسپتالوں میں بھی ان ہی کا علاج ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کے لگے سگے ہوتے ہیں، عام اورغریب انسان کو کوئی نہیں پوچھتا اور گلنے سڑنے اور موت کی آغوش میں جانے کے لئے چھوڑدیا جاتا ہے، وہ اپنی سانسوں کو پورا کرکے رخصت ہوجاتا ہے، اس کی آہیں ان مطلب پرستوں کے دلوں کو نرم نہیں کرپاتیں، اس طرح یہ نظام چل رہا ہے نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ نکیل کسنے والا، وہی ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں بیٹھ کر علاج نہیں کرپاتا باہر آکر وہی پانچ سو روپے فیس لے کر علاج کرتاہے، غریب، ناتواں، مفلس اور کمزور کہاں سے لائے روپیے؟ عجیب معاملہ ہے۔ یہی معالج غریبوں سے تلخ لہجہ میں بات کررہاتھا اور اب یہی صاحب صاحب کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ وہاں سے نکلئے تو میڈیکل اسٹور کا یہی حال ہے 20فیصد ڈاکٹر کو ادا کرنا، وہ کہاں سے وصول کریں مریض سے کمپنیوں کا عالم یہ ہے کہ ڈاکٹر کو ہدیہ دینے اور غریبوں کا خون چوسنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتیں، جس لحاف میں ڈاکٹر سوتا ہے وہ Mankind،جس برتن میں ناشتہ کررہا ہے، جس کرسی پر بیٹھا ہے سب کسی نہ کسی کمپنی سے متعلق ہیں۔ بڑی کمپنیاں بڑی باتیں۔ سب غریبوں کے خون چوسنے، ان کی لاشوں پر تجارت کرنے میں لگے ہوئے ہیں یہاں تک کہ انسانی جسموں کی فروختگی کے گناہگار بھی ایک دومرتبہ سامنے آئے ہیں مگر پھر بھی حکومت کارویہ اس سمت سنجیدہ نظر نہیں آیا۔ ان مسائل کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے احساس تک نہیں کیا جاتا کہ یہ بھی قابل ذکر مسائل ہیں، صاف ستھرے ہندوستان کی بات تو ہوتی ہے، نعرے بھی لگائے جاتے ہیں، مگر میری سمجھ سے باہر ہے۔ کیا سڑکیں صاف ہونے سے ملک صاف ہوجائے گا؟ کیاوہ گندگی دور نہیں ہونی چاہئے جو اس لچر نظام کے باعث انسانی زندگیوں میں پوری طرح پھیل چکی ہے مگر اس سے خاتمہ کی کوئی تیاری نہ اسکیم؟ کیا صرف پولیو کی دوبوند پلاکر حکومت کی ذمہ داری ختم یا حکومت اسی وقت جاگتی ہے جب کوئی بیماری پورے ملک کو اپنی زد میں لے لیتی ہے؟ اس سے پہلے محو خواب رہتی ہے۔ آج کینسر جس تیزی سے پھیل رہا ہے وہ دن دور نہیں کہ یہ بیماری پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لے مگر حکومت کی نیند نہیں ٹوٹی نہ تو اس کے اسباب و عوامل پر قدغن لگائی گئی نہ ہی اس کے اسباب تلاش کرنے کی ایسی کوشش کی گئی جس کوعام آدمی محسوس کرسکے دیکھتے ہیں اصلاح کے لئے کتنا انتظار اور کتنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے؟ اس کا دوسرا پہلو انشاء اللہ aipmt کے امتحان پر نظر قارئین ہوگا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا