English   /   Kannada   /   Nawayathi

تاریخ بھٹکل کی عظیم شخصیت مولانا عبدباری علیہ الرحمہ

share with us

تعلیم اور ابتدائی حالا ت پانچ سال کی عمر میں ان کے تعلیمی دور کاآغاز مکتب جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے ہوا جو اس وقت جامع مسجد میں تھا پھر چامرا محلہ منتقل ہوا ،بچہ شروع سے تیز ،خوش الحان جس کو مختلف جگہوں پرقرآت ونعت پڑھنے کے لئے لے جایا جاتا تھا ،ابھی اپنی عمر کی ساتویں منزل کوطئے بھی نہیں کیا تھا کہ اپنے گھر جاکٹی ہاوس میں اپنے گھر والوں کو جمع کرکے منبر کے طور پربیٹھنے کا تختہ اور ایک لکڑی پر ناریل کاسوکھا آدھا خول بطور مائک کے لگا کر جمعہ کے خطبے کی اوراذان کی نقل اتاراکرتے تھے کھبی گھر کے باہر کھڑے ہوکر اپنی معصوم وپیاری آوازمیں عربی زبان کے الفاظ بولاکرتے جس سے گزرنے والا آپ کی طرف متوجہ ہوجاتا اور شاید دل ہی دل میں دعا بھی کرتا ہوگا کہ اے اللہ اس بچے کو بڑاعالم دین بنا،جسم بھی اللہ نے بڑا تنومند عطا کیا تھا ،شرافت ونجابت کا یہ حسین پیکر ،سیرت وصورت میں بے مثال خوبصورتی کو اپنائے ہوئے راستہ چلے تو کنارے سے نظر یں جھکائے شرافت کے ساتھ چلنے والایہ لڑکاہمیشہ اپنے والدین کا فرماں بردار ،رشتے داروں اور دوست احباب کا حددرجہ خیال رکھنے والا ،اپنی حسن صورت وسیرت سے ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کرنے والا رفتہ رفتہ اپنے علمی منزلوں کو طئے کرتا ہوا جامعہ اسلامیہ بھٹکل سے ۱۵؍شعبا ن المعظم ۱۴۰۱ھ ؁مطابق ۲۲؍جون ۱۹۸۱ء ؁کو عالمیت سے فراغت مکمل کی مولانا مرحوم نے جامعہ اسلامیہ میں اس وقت تعلیم حاصل کی جب جامعہ اپنے ابتدائی دور سے گذررہا تھا موصوف نے اپنی تعلیمی زندگی ایک سعادت مند اور محنتی طالب علم بن کر گذاری ، بچپن سے ہی اللہ نے آپ کوخوبصورت و دلکش آواز سے نوازا تھا، پہلی مرتبہ جب موصوف نے جامعہ میں فجر کی نماز پڑھائی تو اس وقت جامعہ کے مشہور استاد مولانا شہبازاصلاحی صاحب ؒ نے فرمایا تھا کہ ان کی تلاوت سن کر ایسا محسوس ہواکہ جیسے یہ آیتیں آج ہی نازل ہوئی ہیں ،آپ نے اپنے اساتذہ کا آخری دم تک حددرجہ ادب واحترام کیا جس پر خودان کے موجودہ اساتذۂ کرام شاہد ہیں،پھر آپ نے عالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے(جس کو اکبر الہ ابادی نے زبانِ ہوشمندسے تعبیرکیاہے) ۱۵؍شعبان المعظم ۱۴۰۳ھ ؁مطابق ۷؍جون ۱۹۸۳ ؁ء کو فضیلت کی تکمیل کی جس کے بعد ان کو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا اور ان کی خصوصی شفقت وعنایت بھی حاصل ہوئیں آگے جاکر مفکراسلام ؒ کے خلیفہ حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم کے خلیفہ بننے کا شرف بھی ان کے حصے میں آیا ۔
ایک مشفق استاد اور مہتمم ابھی یہ علم وعمل کاپیکر اپنی تعلیم مکمل کرکے بھٹکل لوٹے ہی تھے کہ ۱۵؍نومبر ۱۹۸۳ ؁کو جناب محی الدین منیری صاحب نے جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں ان کوتدریسی خدمت پر مامور کیا جس کو انھوں نے تادمِ وفات بحسن خوبی انجام دیا گویا کہا جاسکتا ہے کہ ان کی پیدائش اور جامعہ اسلامیہ کا بھٹکل کی تاریخی سرزمین پر قائم ہونا ایک ہی دور کی حسین یادیں ہیں مولانا اور جامعہ کاتعلق ہمیشہ لازم وملزوم کی طرح رہا جامعہ اسلامیہ کی تدریسی خدمت میں بھی ایک کامیاب استاد بن کر رہے اور جامعہ کی نئی نسل کی آبیاری میں آپ کاکردار بھی بڑااہم رہا اسی لئے مولانا اگرچہ مصنف نہیں تھے لیکن مصنف گر تھے آپ نے مردم گیری کا کام کیا دسیوں خطباء اور مصنیفین کوتیار کرنے میں آپ کا بھی حصہ لگا اسی طرح خاص طور پرجامع مسجد میں قرآن پڑھنے آنے والے اسکولس وکالجس کے طلباء کی( جن کا آغازپانچ طلباء سے ہوا) بھٹکل میں ایک ایسی نسل تیا ر کی جو مولانا کی تربیت کے نتیجے دنیا کے کسی حصے میں جانے بعد بھی اپنی اسلامی شناخت کے ساتھ وابستہ رہے بالخصوص ۱۹۸۴ ؁تا۲۰۰۰ ؁تک عصری اداروں میں پڑھنے والے ہزاروں طلباء نے آپ کے پاس زانوئے تلمذطئے کیا ،جس سے مولانانے عوام کو علماء سے قریب کرنے میں بھی بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ 
موصوف جامعہ کی زندگی میں ہمیشہ خوش مزاجی ونیک مزاجی کے ساتھ سب کا ساتھ دینے والے ،لایعنی وفضول چیزوں سے بچتے ہوئے کارآمد ومفید چیزوں کے لئے کوشاں رہنے والے تھے اسی لئے تدریس پر فائز ہوکر چند سالوں کے اندر ہی آپ کو جامعہ اسلامیہ کا نائب اہتمام سونپا گیا بعد میں مکمل تعلیمی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کی گئی اور بالآخر سن۲۰۰۰ ؁ء میں جب جامعہ اسلامیہ کا عہد�ۂاہتمام سونپاگیا تو ا س ذمہ داری کولینے سے انکار کرتے رہے پھر حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی مدظلہ العالی کے ایماء پر اس ذمہ داری کوقبول کیا ،مولانا جہاں ایک اچھے استاد بن کررہے اسی طرح اپنے نائب اہتمام میں بھی ایک اچھے منتظم ثابت ہوئے خاص طور پر عہدۂ اہتمام پر فائز ہونے کے بعد جناب ماسٹر شفیع صاحب کی نظامت میں آپ کو زمین بڑی ہموار ملی جس سے آپ کے سترہ سالہ دور ۂ اہتمام میں جامعہ نے بہت ترقی کی جس کو مستقبل کا مؤرخ کبھی فراموش نہیں کرسکتا ،موصوف جامعہ کے وہ واحد مہتمم تھے جنھوں نے اتنے طویل عرصے تک اس نازک ذمہ داری کوسنبھالے رکھا اور تادمِ حیات اسی پر فائز رہے آپ کے سانحۂ ارتحال کے ساتھ ہی جامعہ اسلامیہ میں آپ کا ۳۳سالہ روشن تدریسی دور ختم ہوکر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا،مولانا کے اندر اللہ نے تواضع ،انکساری ،حلم اور بردباری کی صفت کوٹ کوٹ کر بھری تھی جو کسی بھی ادارے کے ذمہ دار کے لئے ضروری ہوتی ہے اور یہی وہ صفات ہیں جن کی وجہ سے ان کا عہدۂ اہتمام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ،بچوں کی نگرانی وتربیت کے سلسلے میں بھی آپ حددرجہ کوشاں رہتے تھے بعد نماز عصر جامعہ میں چھٹی ہوجانے کے بعد بھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ جامعہ ہی میں اسی فکر میں مشغول رہتے قوم و ملت کے نونہالوں کی اتنی فکر رکھنے والا اپنی مثال آپ تھا ،آپ کی وفات سے جامعہ کے مزدور سب سے زیادہ غمگین تھے اس لئے کہ جامعہ کے مزدوروں کے ساتھ بھی حد درجہ محبت کا رویہ رکھنے والے اور ان کے ضرروریا ت کی تکمیل کے لئے بھی کوشاں رہتے تھے ،جامعہ میں جو غریب طلباء پڑھتے تھے ان کے اور ان کے گھر کی ضروریا ت کی تکمیل کا بھی آپ بندوبست فرماتے،واقعی وہ فرد ہر ایک کے لئے سہارادیوار اور ڈھال بن کر رہے جن کے چلے جانے سے گویا پوری قوم یتیم ہوگئی ،درجے میں پڑھانے کا بھی ایک البیلاء انداز تھا جس سے کمزور سے کمزور بچوں کو بھی بات سمجھ میں آتی اور ایک نشاط ان میں پیدا ہوتا ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کرتے ،ہنستے ہنساتے مختلف انداز کے ساتھ مثالیں پیش کرتے ہوئے سبق پڑھانے سے پہلے ہی اس کا مکمل خلاصہ ذہن میں بٹھادیتے جس سے بات ذہن میں پتھر کے لکیر کی طرح جم جاتی جس سے کوئی طالب علم بھی آپ کے گھنٹے میں اکتاہٹ کا شکار نہ ہوتا موصوف اپنے تینوں فرزندان کے بھی استاد تھے ۔
امامت وخطابت کا جلوہ ابھی یہ جامعہ اسلامیہ کی تدریسی خدمت پر فائز ہوئے ہی تھے کہ قدرت کی طرف سے مزید نوازے جانے کافیصلہ ہوا اور بھٹکل کی اس تاریخی جامع مسجد کا منبر ومحراب امامت وخطابت کے لئے۲۳ سال کے ایک پرنور چہرے سے مزین فرزند جامعہ کے حوالے کیا گیا چنانچہ ۳۰؍اگست ۱۹۸۴ء ؁کو آپ جامع مسجد کی امامت وخطابت پر فائز ہوئے جس پر کھڑے ہوکر مسلسل ۳۳ سالوں تک اس نے قوم کے سامنے خدا کا حسین تحفہ محبت بھرے انداز میں پیش کیا یہی نتیجہ تھا کہ ان کی وفات پر اس منبر ومحراب نے بھی زبانِ حال سے اپنی یتیمی کا اظہار کیا ،مولانامرحوم نے بطور خطیب بھی شاندار کارنامہ انجام دیااور عوام کو مکمل دین پر آنے کا پیغام زندگی بھر دیتے رہے ،جامع مسجد میں آپ کادرس قرآن بھی اپنی ایک شاندار تاریخ رکھتا ہے جس کوسننے کے لئے دور دراز سے لوگ آیا کرتے تھے یہاں تک کہ بعض غیر مسلم بھی پابندی سے سنا کرتے تھے جس کے حد درجہ بہتر نتائج بھی سامنے آئے ،مولانا کو معاشرے کے اصلاح کی بڑی فکر تھی اور یہ فکر صرف بھٹکل تک محدود نہ رہی بلکہ بھٹکل اور اطراف کی بستیوں میں بھی عملی طور پر اس کے لئے زبردست جد وجہد کی اسی لئے ان کی وفات کا صدمہ ان بستی والوں نے بھی بہت محسوس کیا کہ ان کا محبوب وچہیتاقائد ان سے پچھڑگیا ،۳۳ سالوں تک پاپندی کے ساتھ امامت کے فرائض انجام دینا کوئی معمولی بات نہیں ہمیشہ فجر کی نماز کے لئے ٹوویلّر سواری پر ۳ کلومیڑدور گھر سے بلاناغہ آیا کرتے تھے چاہے کتنی سخت سردی ہو بارش یاکوئی اور حالات ہو آپ جس کام کو اپنے اوپر اوڑھتے اس پر چٹان کی طرح ثابت قدم رہنے والے ثابت ہوئے ۔
بہترین شوہر ،فرزند اور باپ : اب ضرورت تھی کہ عملی میدان میں قدم رکھنے والے اس پرعزم و باہمت نوجوان کو زندگی کے اس سفر میں تقوی وصلاح سے مزین ایک مناسب ساتھی بھی ملے جو اس کے کاموں میں بھی اس کے لئے معین ومدگار ثابت ہو،بالآخر نظر انتخاب خاندان سید کے چشم وچراغ ،انکساری وعاجزی کا پتلا ،دین کاشیدائی ،ہر ایک سے حسن سلوک کرنے والا جناب سید نظام الدین صاحب کی دختر نیک اختر پر پڑی جس کی دادی بچپن سے اس کی زندگی کو دیکھ کر یہ کہا کرتی تھی کہ اے اللہ میری اس پاکباز پوتی کا رفیقِ سفر(خلفو ہو)یعنی نیک او ر صالح نوجوان ہو قدرت کی بھی عجیب کاری گری کہ رشتۂ ازدواج میں جوڑنے والا یہ رشتہ اس عظیم شخصیت کی اصلاحی ودینی زندگی میں بڑاہی مفید ثابت ہوا اس لئے کہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ آدمی باہرکی دنیا میں اس وقت تک کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکتا جب تک کہ خانگی زندگی میں ا س کو سکون کے لمحات میسر نہ ہو دوسری طرف یہ بات بھی مولانا مرحوم کی زندگی کا ایک روشن باب تھا کہ آپ جس طرح باہر کی زندگی میں مقبول ومحبوب تھے اسی طرح خانگی زندگی میں بھی ان کا رول بڑا عمدہ رہا ورنہ تاریخ میں ایسی شخصیات بھی گذری ہیں کہ باہر کی دنیا میں تووہ سوفیصد کامیاب رہے لیکن خانگی زندگی میں اپنے کو ایک بہتر انسان ثابت کرنے میں ناکام ہوئے یہی وجہ تھی کہ رحمت دووعالم سیدنامحمدرسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا خیرکم خیرکم لاھلہ وآنا خیرکم لاھلی (ترمذی)’’کہ تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اپنے اہل وعیا ل کے لئے بہتر ہو اور میں اپنے اہل وعیال کے لئے سب سے بہتر شخص ہوں ‘‘حدیث سے یہ بات صاف عیاں ہے کہ آدمی کا اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ثابت ہوناکسی بھی شخصیت کے لئے انتہائی ضروری ہے اور یہ بات مولانا مرحوم کی امتیازی خصوصیات میں شمار کی جاسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ مرحوم کا تعلق اپنی اولاد سے بھی حددرجہ مشفقانہ رہا ایک باپ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح رہتے جیسے بھائی بھائی آپس میں بے تکلف رہتے ہیں ،کھبی کھبار غصّہ آبھی جاتا تو فوراً نرم ہوجاتے اور پھر وہی محبت کامعاملہ شروع فرماتے ،گھر میں جب بھی آتے ہنستے ہشاش بشاش چہرے کے ساتھ گھر کے ہر فرد کے ساتھ ہاتھ ملاتے داخل ہوتے ،کوئی بھی معاملہ ہوتا پوری متانت وسنجیدگی کے ساتھ اس کو حل کرتے ،رات میں جب بجلی چلی جاتی تو خود اٹھ کر اپنے گھر والوں کو رٹ سے پنکھا کرتے ،والدین کا حد درجہ خیال رکھتے ہر چیزمیں اپنے والدین کی اجازت لیتے حتی کہ گھر سے نکلتے وقت بھی اجازت لیتے جس کی مثال مادیت کے اس دور میں ملنی مشکل ہے۔
سفر حج : مرحوم نے جب ان اہم وبنیادی منازل کوطئے کیا تو سب سے پہلے جو فکر آپ کو دامن گیر ہوئی وہ اسلام کی پانچ بنیادوں میں سے ایک بنیاد حج بیت اللہ کے فرض کی ادائیگی تھی چنانچہ ۲؍جولائی ۱۹۸۹ ؁بروز اتوار مولاناؒ حج بیت اللہ کے عازم سفر ہوئے اور واپسی مکہ سے برائے دبئی ۲۷؍اگست بروز اتوار کو ہوئی ،موصوف نے اپنی زندگی میں کل دو حج کئے ۔
آپ نے اپنی شریک حیات اورتمام اولاد کے ساتھ زندگی میں دو ہی سفر کئے ایک بینگلور کا اوردوسرے اپنے برادر نسبتی مولانا سید ہاشم نظام ندوی کے اشد اصرار پر حیدرآباد ووجئے واڑہ کا سفر کیا ،علاوہ ازیں اپنی اہلیہ اور راقم کو ساتھ لے کر ۱۴۳۱ ؁مکمل رمضان گزارنے کے لئے عمرہ پر لے گئے جو راقم کی زندگی کے لئے ایک یادگار سفر تھا۔
بیماری وسفر آخرت : مولانا کی صحت زندگی بھر الحمدللہ بڑی اچھی رہی بچپن سے ہی آپ بڑے مضبوط جسم کے مالک تھے بچپن کی زندگی میں مختلف کھیلوں میں بھی شریک ہوتے تھے،لیکن کسے معلوم تھا کہ صحت وتندرستی کے اس مقام پر فائز ہونے کے باوجود ایک مہلک بیماری آپ پر حملہ کرے گی،انتقال سے ایک سال پہلے پیرمیں سخت تر ین درد شروع ہو اجس کے لئے ایک ہفتے تک کالی کٹ میں قیام بھی فرمایا چھ مہینے تک یہ درد آپ نے برداشت کیا جس کے بعد آپ کو اس سے راحت ملی لیکن یہی بیماری ان کے مرض الموت کا مقدمہ ثابت ہوئی اللہ کی بھی شان کہ ادھر انتقال سے کچھ مدت پہلے اللہ نے آپ سے کچھ کام جلدی کروائے جس میں کارگدے میں واقع مکتب جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا قیام بھی ہے جو دراصل آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا ،ادھر ایک ڈیڑھ مہینے قبل مولانا کو بھوک کے باوجود کھانا کھاتے وقت کھانے کی تکلیف محسوس ہونے لگی جس کو شروع میں گیس کی تکلیف سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ،مکتب جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے افتتاح کے بعد مولانا اپنے والد صاحب کا طبی جانچ کرانے کے لئے منگلور لے گئے جہا ں ڈاکڑ سے اپنی پیٹ کی تکلیف بھی بیان کی جس کے بعد مسلسل دو تین روز تک مختلف جانچ کرنے پر یہ لرز ہ خیز خبر سامنے آئی کہ مولانا کو پیٹ میں کینسر ہوچکا ہے جو مختلف جگہوں پر پھیل کر چوتھے اسٹیج تک پہونچ چکا ہے اس خبر نے سب کی نیند اڑادی ،ہر ایک سنّاٹے میں آگیا اس لئے کہ ان کا ہر دلعزیز ایک مہلک بیماری کی زدمیں آگیا تھا بالآخر تین مہینے کے وقفے کے بعدوہ خبر بھی سننی پڑی جس کو سننے کے لئے کوئی تیا ر نہ تھاکہ سب کے چہیتے ومحبوب والد مرحوم ۱۷؍جمادی الثانی مطابق ۸ ؍فرور ی بدھ کی شام تقریبا پاؤنے پانچ بجے پوری قوم کو سوگوار چھوڑ کر سب کو داغ مفارقت دے گئے اور آپ کی صحت وعافیت کے لئے کی گئی ہزاروں دعائیں آپ کے لئے رفع درجات میں تبدیل ہوگئی۔
جان کر منجملۂ خاصا نِ میخانہ تجھے 
مدتوں رویا کرے گے جام وپیمانہ تجھے 
مولانا کا انتقال معدے میں کینسر کی وجہ سے ہواجو شہادت کی موت ہے ،حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ المبطون شھید(البخاری) کہ پیٹ کی بیماری میں انتقال کرنے والا شہید ہے، مولانا کی زندگی کے آخری چند آیا م واقعی قابل رشک تھے جو سننے اور پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ مولانا کی زندگی وہ دعا تھی جو آپ ہمیشہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے حوالے سے فرمایا کرتے تھے کہ الٰہی عاقبت محمود کردے(اے اللہ عاقبت محمود فرما) آپ کی زندگی اورموت دونوں عربی کے اس محاورہ کے مصداق ہے کہ علو فی الحیاۃ وفی الممات مولانا کی بیماری کے تعلق سے یہ بات بھی حدیث کے حوالے سے بیا ن کرنا بیجا نہ ہوگا جس کو امام ترمذیؑ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ حضورﷺنے ارشاد فرمایا’’جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس کی عمر کے بارے میں اس کے دل کو خوش کرو (یعنی اس کی عمر اور زندگی کے بارے میں خو ش کن اور اطمینان بخش باتیں کرو)اس طرح کی باتیں کسی ہونے والی چیز کو روک تو نہ سکیں گی لیکن اس سے اس کا دل خوش ہوگا‘‘ (ترمذی،ابن ماجہ)حدیث صاف وضاحت کررہی ہے کہ مریض کو زیادہ خوش خبری والی باتیں سنایا کرو جس کا نفسیاتی طور پر بھی بہت اثر پڑھتا ہے اسی طرح بعض چیزیں ایسے حالات میں تماشائی طور پر بھی کی جا تی ہے جس سے بھی بچنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔
یہ ہے اس شخصیت کی زندگی کے خدمات کی چند جھلکیاں جس سے مخلوق خدا نے حد درجہ جذباتی محبت کا تعلق رہا اور جن کے متعلق ملت اسلامیہ کے قافلہ سالار کو یہ کہنا پڑاکہ شاہد ایسی شخصیت بھٹکل کی سرزمین پرگذشتہ صدیوں میں پیدا ہوئی ہو باقی ان کے ذاتی صفات پر لکھنے والے مختلف ناحیے سے لکھتے رہے گے ۔
بہرحال مولانا نے مختلف حیثیتوں سے ایک انقلاب آفریں کام کیاجو تاریخ کے اواق میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ اللہ مولانا کو غریق رحمت کرے اور انبیاء وصدیقین کے ساتھ آپ کا حشر فرمائے ۔(آمین)
موت اس کی ہے کرے جس کازمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لئے

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا