English   /   Kannada   /   Nawayathi

عورتوں کا حق اورہمارا سماج

share with us

عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ تشدد کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ انہیں اپنے والدین کے یہاں بھی بھید بھاؤ کا شکار ہونا پڑتاہے۔ پہلے تو بیٹی کو پیدا ہی نہیں ہونے دیاجاتا ۔اس کی پیدائش کو ناپسندیدگی کا سبب مانا جاتا ہے۔ بیٹی پیدا کرنے والی ماں کو اپ شگنی یا منحوس کہا جاتاہے۔ پھر کھان پان، دیکھ بھال اور تعلیم وتربیت میں لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ دیہی علاقوں یا چھوٹے شہروں کے کئی خاندانوں میں عموماً مردوں کے بعد عورتوں کو کھاناملتا ہے۔ اس طرح لڑکوں کو اچھے اسکولوں میں پڑھایا جاتاہے۔WHO کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں خون کی کمی کی شکار زیادہ ہوتی ہیں۔ بھارت ایک’ پرش پردھان‘ یعنی مردوں کے تسلط والا ملک ہے۔ایکسویں صدی میں بہت کچھ بدلنے کے باوجود عورتوں و لڑکیوں سے متعلق سوچ میں مزید بدلاؤ ہونا ابھی باقی ہے۔ لڑکیاں والدین کی جائیداد میں نہ حصہ مانگ سکتی ہیں، نہ ہی ایسا چلن ہے۔ ہندومذہب کے پاس کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں عورتوں کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہو۔ منواسمرتی تو عورتوں کو صرف خدمت گار کے طور پر دیکھتی ہے۔ اس میں شودھر، پشواور ناری کوپرتارن(تشدد) کا ادھیکاری(حق دار) بتایاگیا ہے ۔اس بنیاد پر بنے سماج میں خواتین کو برابر کا حصہ کیسے مل سکتا ہے؟۔
بھارت کے آئین کی دفعہ14،21میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ملک کے کسی بھی شہری کے ساتھ صنف(مردیا عورت)، زبان، ذات، رنگ اور علاقے کی بنیاد پر کوئی بھید بھاؤ نہیں کیاجائے گا۔ سرکار نے لوکل باڈیز پنچایتوں میں خواتین کی حصہ داری کو یقینی بنانے کیلئے نشستیں مخصوص کی ہیں لیکن اسمبلی وپارلیمنٹ میں ان کیلئے سیٹیں مخصوص نہیں ہیں۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی نہیں چاہتی کہ ملک کی آدھی آبادی کو قانون ساز اداروں میں ان کی آبادی کے لحاظ سے نمائندگی ملے۔ ملک کی خواتین کو جب بھی جہاں بھی موقع ملا، انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں ہیں۔ اندرا گاندھی، ممتا بنرجی، مایاوتی یا پھر جے للتا۔ انہوں نے تکلیفیں اٹھاکر دھارا کے خلاف اکیلے تیر کر دکھایا۔ ممتا، مایاوتی اور جے للتا کو مل رہی مستقل کامیابی کے پیچھے ان کی اپنی ہمت، محنت اور سوجھ بوجھ کا دخل ہے۔ اسی طرح ہر میدان میں عورتوں نے اپنا سکہ جمایا ہے۔
ملک میں لڑکیوں کی گھٹتی تعداد تشویشناک مسئلہ ہے۔ مرکزی سرکارنے اس کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ ‘اسکیم شروع کی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے الگ الگ ریاستیں الگ الگ پروگرام چلارہی ہیں۔بہار سرکار نے سائیکلیں تقسیم کرتے ہوئے اسکولوں میں لڑکیوں کی حاضری بڑھائی تو چھتیں گڑھ سرکارنے لڑکیوں کیلئے ہاسٹل کی سہولت فراہم کی ۔ ساتھ ہی اچھے نمبر لانے والی لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کا خرچ برداشت کرنے کابھی ریاستی حکومت نے فیصلہ لیا۔ بچیوں میں غذائیت وخون کی کمی کو دورکرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ یوپی،اتراکھنڈ، مغربی بنگال، جھارکھنڈ،آسام اور مدھیہ پردیش میں بھی لڑکیوں کو بہتر زندگی گزارنے کا موقع دینے کیلئے سنجیدگی دکھائی دے رہی ہے۔
اسلام میں لڑکیوں وعوتوں کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس نے رشتوں کے لحاظ سے تعلقات کی حدیں متعین ہیں۔ اسلام نے ایسے سماج کو تبدیل کرکے رکھ دیا جہاں لڑکیوں کو زندہ د فن کر دیاجاتا تھا۔ اسلام نے لڑکی کی پیدائش کو اللہ کی رحمت بتایا۔ پیغمبر اسلام نے لڑکی کے والدین کو جنت کی بشارت دی اور فرمایا جس نے بیٹی کو پڑھایا لکھایا اس کی اچھی تربیت کی اور لڑکی کے بالغ ہونے پر اس کی شادی کردی، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ماں کے قدموں تلے جنت ہونے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ یہ بھی کہا گیاہے کہ وہ بدنصیب ہے جس نے اپنے ماں باپ کو پایا، ان میں سے کسی کوبزرگی کی حالت میں پایا اوران کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کی۔ قرآن میں مسلم مرد اور عورتوں پر تعلیم حاصل کرنے کو یکساں طورپر فرض قراردیاگیا ہے۔ قرآن میں شادی بیاہ کے اصول، میراث میں حصہ، بچوں کے حقوق، لڑکیوں کے حقوق، علیحدگی کے طریقے وغیرہ کی مکمل وضاحت موجود ہے۔ بیوی پر شوہر کے فرض اور شوہر پر بیوی بچوں کی ذمہ داریوں کو بتایاگیا ہے۔
مسلمان بھارت میں اسلامی تعلیمات پر کم یہاں کی رسم ورواج اور روایتوں سے زیادہ متاثرہیں۔ اس لئے کم ہی لوگ اپنی بیٹیوں کو اپنی جائیداد میں حصہ دیتے ہیں۔ اسی طرح شادی وطلاق کے معاملے میں بھی اپنی من مانی کرتے ہیں۔ اس وقت طلاق کا مسئلہ میڈیاکی سرخیوں میں چھایا ہوا ہے۔ اسے مسلم عورتوں کی آزادی سے جوڑ کر پیش کیا جارہاہے۔ طلاق اللہ کے رسولﷺ کی نظر میں سب سے ناپسندیدہ عمل ہے لیکن سماجی ضرورت کے تحت اسے جاری رکھا گیا۔ جس سماج میں شوہر بیوی کے درمیان نباہ نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کا طریقہ موجود نہیں ہے، وہاں عورتوں سے چھٹکارا پانے کیلئے انہیں ماردینے کے واقعات عام ہیں۔ شریعت کا قانون جو دیش کی عدالتوں میں رائج ہے، وہ 1925،1927میں بنا تھا اورانگریزوں نے لاگوکیاتھا آج کے لحاظ سے اس میں ضروری تبدیلیاں ہونی چاہئیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام کا مقصد اس طرح کے مسئلوں پر دھیان دینا تھا لیکن اس کے ذمہ داران سیاسی مقاصد کو سادھنے اوراپنی جائیدادوں کو بچانے میں لگے رہے۔ اگر انہوں نے ملک کو لڑکیوں وعورتوں سے متعلق اسلامی قوانین سے واقف کرایا ہوتا تو آج اہل وطن کے بہت سے لوگ اس کی حمایت میں کھڑے ہوتے۔
عورتوں کی آزادی کا مطلب اسلام میں فحش پن یا عریانیت نہیں۔ اسلام پوری آزادی دیتا ہے لیکن حدود میں رہ کر۔ ایسا نہیں ہے کہ مرد تو پورے کپڑے پہنیں اور آزادی کے نام پر عورتوں کو ننگاکیاجائے یا کم کپڑوں میں رکھاجائے۔ عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں لیکن اپنی پہچان اور تشخص کے ساتھ۔ عورت کو دیوی بناکر پوجنا آسان ہے لیکن اسے عزت اور بھاگیداری دینا بہت مشکل ہے۔جبکہ عورتیں یہی چاہتی ہیں کہ انہیں مردوں کے برابر عزت ملے۔ انہیں اپنی بات کہنے کا حق ہو اور ان کی مرضی کے خلاف مرد ان پر اپنی رائے نہ تھوپیں۔ بلکہ انہیں ان کی مرضی کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع ملے کیوں کہ وہ بھی ایک انسان ہیں، ان کا بھی سماج پر اتنا ہی حق ہے جتنا ایک مرد کا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا