English   /   Kannada   /   Nawayathi

ممتا دیدی کا انتخابی منشور

share with us

اس معاملہ میں انہوں نے ملک کی پہلی دلت خاتون مس مایاوتی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جو اکیلے دم پر آئی تھیں۔ لیکن انہوں نے دوبار بی جے پی کے بل پر حکومت بنائی اور ایک بار سماج وادی کی حمایت کے بل پر بنائی اس کے بعد وہ اپنے بل پر حکومت بنا سکیں۔ مس ممتا نے پہلے ہی حملے میں اپنے بل پر حکومت بنائی۔ اور کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے ایک بہادر خاتون کی طرح اعلان کیا کہ انہیں مسلمانوں اور خواتین نے کامیاب کر ایا ہے۔ اور ان کی پانچ سال کی حکومت گواہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں اور عورتوں کو مایوس نہیں کیا۔ اور اپنے اگلے پانچ سال کے لئے جو منشور جاری کیا ہے ان میں مسلمانوں کے لئے وہ سب ہے جو مسلمان چاہتے ہیں۔ اور عورتوں کے لئے بھی وہ سب ہے جو ان کی ضرورت ہے۔
ممتا بنرجی سر سے پاؤں تک چلتا پھرتا منشور ہیں۔ وہ پانچ سال تک تنِ تنہا حکومت کرنے کے بعد بھی آج بھی اتنی ہی قیمت اور حیثیت کی ساڑی پہنے ہوئے ہیں جیسی پانچ سال پہلے 2011کے الیکشن میں پہنے ہوئے تھیں۔ اور ان کی چپل بھی ویسی ہی ہے۔ ہم نے ان کا پرانا مکان بار بار دیکھا ہے۔ لیکن کسی کی زبان سے نہیں سنا کہ انہوں نے وہ مکان بدل کر کوئی کوٹھی لے لی۔ اگر لے لی ہوتی تو وہ ان کی ضرورت تھی۔ لیکن انہوں نے کوئی ایک چیز بھی نہیں بدلی۔ اور ملک کے سب سے بڑے شہر کلکتہ پر حکومت کرنے والی دیدی پانچ سال کے بعد بھی دیدی ہیں رہی میڈیم نہیں بنیں۔ اترپردیش ، یا ملک نے نہیں پوری دنیا نے دیکھا کہ اترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ حکومت کے پہلے کیا تھیں اور حکومت کے بعد وہ کیا کیا بنیں؟ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ کیا کیا نہیں بنیں؟ اور اس کا نتیجہ ہے کہ وہ پانچ سال کے بعد پانچ سال سے انگاروں پر لوٹ رہی ہیں۔ بنگال کی وزیر اعلیٰ مس ممتا بنر جی کے جسم پر نہ کسی نے قیمتی ساڑی دیکھی نہ ان کے بالوں پر بیوٹی پارلر کی کسی آرٹسٹ کی قینچی لگی۔ نہ انہوں نے ساٹھ کلو کا کیک کاٹ کر اپنی سالگرہ منائی۔ نہ انہوں نے ترنمول کانگریس کا کوئی جشن منایا ۔ نہ انھوں نے مس مایاوتی کی جیسی چوڑی اور اونچی کرسی بنوائی جس پر وہ نہ بیٹھیں تو ان کا ہاتھی اپنے دونوں سر ین رکھ کر بیٹھ جائے تب بھی جگہ خالی رہ جائے۔ اور نہ انہوں نے ایسا ہار بنوایا جس میں ہزار ہزار کے ہزاروں نوٹ ٹکے ہوں اور اسے دس آدمی بھی ہار کی طرح اپنی بہن جی کے گلے میں ڈالنے میں تھک جائیں ۔
ممتا بنرجی نے کھلاڑیوں کی ہمت افزائی ضرور کی اور جس کھیل کا فائنل بھی کلکتہ میں ہوا اسے ہر وہ چیز دی جن کی اسے ضرور ہوئی۔ اور جب جب شاہ رخ خان نے I.P.Lکا فائنل جیت کر کلکتہ میں جشن منایا تو دیدی اس طرح شریک ہوئیں جیسے یہ ان کی ٹیم کا جشن ہے۔ ہمیں اس پورے عرصہ میں کوئی ایک بات بھی ایسی معلوم نہیں ہوئی جس سے یہ خطرہ ہو کہ ان کا مقابلہ سخت ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بنگال کے سپوت انقلابی ذہن کے ہوتے ہیں۔ وہ دسہرہ نہیں مناتے نہ ان کے ہاں راون سے کسی دشمنی کا مظاہرہ ہوتا ہے وہ صرف درگا ماں کی پوجا کا تیوہار مناتے ہیں۔ جسے ہر بنگالی صرف پوجا کہتا ہے۔ 
ممتا بنر جی نے اپنے لئے نہ سونیا گاندھی کو نمونہ بنایا نہ مایاوتی کو بلکہ انہوں نے بنگال میں بتیس برس حکومت کرنے والے بزرگ سی پی ایم لیڈر جیوتی بسو کو نمونہ بنایا جنہیں کبھی کوئی ہرا نہیں سکا بلکہ وہ جب تھک گئے تو انہوں نے پارٹی سے کہا کہ اب یہ بوجھ کسی اور کو دیدو۔ اور آج جو سی پی ایم پارہ پارہ ہوئی تو وہ صرف اس وجہ سے کہ کوئی دوسرا جیوتی بسو بنگال کی زمین نے پیدا ہی نہیں کیا۔ 
ہمارا بنگال سے بہت تعلق رہا ہے۔ نہ جانے کتنی بار کلکتہ گئے ہیں وہاں دوست بھی بہت تھے اور ہر پیشہ سے متعلق تھے۔ ہر کسی کی زبان پر بسو دادا کا ذکر ایسے ہوتا تھا جیسے وہ اسکے سگے دادا ہوں۔ اس کا ایک سبب یہ بتایاجاتا تھا کہ پولیس کو سخت ہدایت ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ تعصب نہ برتا جائے۔ ہوسکتا ہے بسو دادا اس بات سے واقف ہوں کہ مسلمانوں کے سامنے اپنے پروردگار کا یہ قول ہر وقت رہتا ہے کہ ’’بے شک تمہارا مال اور اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے‘‘ () اس لئے مسلمان کو مال نہ ملے تو اسے شکایت نہیں ہوگی۔ لیکن اس کی زندگی پر آنچ نہ آئے اس کی عبادت میں رکاوٹ نہ ہو اور وہ اپنے کو محفوظ سمجھے بس یہ کافی ہے۔ بنگالی ہندو جس طرح مچھلی کے لئے ہوتا ہے۔ مسلمان کی ہانڈی گوشت مانگتی ہے۔ اور یہ اعتراف کرنے میں ہمیں کوئی شرم نہیں محسوس ہوتی کہ اکثر مسلمان خواتین سبزی اتنی بے دلی سے پکاتی ہیں جیسے جوشاندہ ابال دیا۔ اور جب گوشت پکاتی ہیں تو چولھے کے پاس سے ہٹنا نہیں چاہتیں۔یہ ہم مغربی ہندوستان کی بات کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے بچے گوشت ہی کھانا چاہتے ہیں۔ کلکتہ ،ممبئی اور دہلی ایسے شہر ہیں جہاں باہر کی آبادی دوگنی بھی ہوسکتی ہے۔ کلکتہ جیسے شہر میں غریب مسلمان بھی گوشت خرید پاتا ہے۔ اور وہ بہت اچھا گوشت ہوتا ہے۔ پورے ملک میں بیف پر پابندی لگی لیکن یہ جیوتی بسو کا دم تھا کہ انہوں نے اپنے مسلمانوں کی خاطر پابندی قبول نہیں کی اور اس وقت بھی جب اٹل بہاری جی کی حکومت تھی ۔ اور آج بھی جب دو برس سے مودی سرکار ہے۔ کلکتہ میں کھلے عام گوشت (بیف) بک رہا ہے۔ آر ایس ایس کے ماننے والے نہیں گاندھی جی کے چیلے آچاریہ ونوبا بھاوے کی مرن برت کی دھمکی بھی بسو دادا کو نہ روک سکی۔
ممتا بنرجی نے کم مطالبہ کرنے والے مسلمانوں اور بے نفس خواتین کو اپنے منشور میں پھر سامنے کیا ہے۔ وہ مسلمانوں کے لئے شمالی بنگال میں عالیہ یونیورسٹی کا کیمپس قائم کریں گی۔ مقابلہ جاتی اور سول سروس امتحانات کی تیاری کے لئے سینٹر قائم کریں گی۔ اور اس کے لئے مکانات کی اسکیم بنوائیں گی۔ ممتا جی نے گزشتہ 5سالوں میں اقلیتی طلبا کو 700کروڑ روپئے اسکالر شپ میں دیاہے۔ اور اقلیتی بجٹ میں پانچ گنا اضافہ کیا ہے۔ وہ مسلمانوں کے لئے انگلش میڈیم مدارس بھی قائم کرنا چاہتی ہیں۔ اور نویں سے بارھویں تک کے مسلم طلبا وطالبات کے لئے سائیکل فراہم کرائیں گی۔ اور اگر یہ سب بھی نہ ہوتا تو یہ انسانی فطرت ہے کہ اگر وہ انسانوں کی حمایت سے بادشاہ بن جانے کے بعد بھی ایسا ہی رہے جیسے پہلے تھا تو ہر کوئی اس سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے۔تاریخ حضرت عالمگیر ، اورنگ زیب کی حکومت کے پچاس سال لئے بیٹھی ہے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کا ہر باشعورمسلمان آٹھ سو برس کی مغل حکومت میں جس محبت اور احترام سے حضرت اورنگ زیب کا ذکر کرتا ہے اس کا پاسَنگ بھی نہ بابر کو دیتا ہے نہ اکبر کو۔ صرف اس لئے کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی میت پر ان کی سلی ہوئی ٹوپیوں کی قیمت میں سے چار روپئے دو آنے ہسال دار کے پاس ہیں۔ اسے لیکر میت پر چادر ڈالدینا۔ اور میرے جنازے کو چار پائی پر رکھ کر کھدر کی چادر سے ڈھک دینا۔ پچاس سال تک متحدہ ہندوستان پر حکومت کرنے کے بعد جو بادشاہ یہ وصیت کرے کہ مجھے ننگے سر دفنانا کیوں کہ برہنہ سر حاضر ہونے والا ہر ایک گناہ گار شہنشاہ کبیر(خدا) کے حضور رحم کا مستحق ہوتا ہے۔
بنگال پر جیوتی بسو نے جب تک بھی حکومت کی انہیں کوئی ہرا نہیں سکا کیونکہ انہوں نے سادگی میں حضرت اورنگ زیبؒ کو نمونہ بنایا۔ اور اب مس ممتا دیدی بھی ان کے ہی نقش قدم پر ہیں۔ اور نقش قدم پر چلنا ہر کسی کے بس کا نہیں ہوتا۔ اور جو چل لیتا ہے کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا