English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسلام اور مذہبی رواداری

share with us

حال ہی میں ملک عزیز ہندوستان میں بھی یو پی کے ایک شخص کے ذریعے حضرت محمد ? کی شان میں گستاخی کا واقعہ پیش آیا اور متعدد مقامات پر اس کے خلاف مظاہرہ و احتجاج بھی کیا گیا۔جس کو لیکر ملکی میڈیا میں کافی بحث و تکرار کا ماحول بھی دیکھا گیا۔جبکہ رواداری کا سب زیادہ اسلام نے خیال رکھا ہے حالانکہ تاریخ انسانیت میں یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ کوئی مذہب یا نظریہ تلوار کے بغیر نہیں پھیلا۔ گویا تلوار اور جنگ غلبہ دین اور افکار و نظریات کی ترویج کے لئے ایک ضروری چیز رہی ہے مگر اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے جنگ کے اصول مقرر کئے۔ ورنہ اسلام سے قبل دیگر مذاہب والے مفتوحہ اقوام پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے تھے اس کی کچھ جھلکیاں ہم آج عراق،افغانستان ،شام میں دیکھ سکتے ہیں۔ماضی میں تو بہت سارے مثال مل جائیں گے لیکن ہم آج کے ماحول میں اس کا اندازہ با آسانی لگا سکتے ہیں۔پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے وغیرہ اسی کی مثال ہیں جہاں شہید ہونے والے عام انسان ،عورتیں اور بچے ہیں۔کس طرح وہاں ڈرون مسلم آبادی پر گرائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہر طر ف چتھڑے بکھرے ملتے ہیں ،چیخ وپکار ہے جسے کوئی سننے والا نہیں ،روس اور فرانس کی ملک شام میں حالیہ بم باری سے دنیا نے مشاہدہ کیا ہے کہ کس طرح آئی ایس کے نام پر وہاں نسل کشی کی جاری ہے۔یہ سب دیگر مذاہب کے نمائندے ہیں جنہوں نے دنیا میں امن قائم کرنے کا ٹھیکہ اس انداز میں لیا ہے۔بد قسمتی سے آج کچھ مسلم حکمراں بھی اس کے روشن خیال نظریہ کے حامی ہو گئے ہیں اور وہ بھی ٹھنڈے پیٹھ ان کے ظلم کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔جبکہ آنحضرت صلی ا? علیہ وسلم نے دورِ جاہلیت کے تمام وحشیانہ جنگی طریقوں کو منسوخ کردیا اور ایسے قوانین نافذ فرمائے جو آج بھی احترام آدمیت کا درس دیتے ہیں۔ ان قوانین کے مطابق جنگ کے دوران عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے قتل، عبادت گاہوں اور فصلوں کی تباہی و بربادی اور دشمنوں کے ہاتھ، ناک کان وغیرہ کاٹنے پر پابندی لگادی گئی۔
دشمنانِ اسلام، اسلام کے بارے میں یہ باور کراناچاہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ حالانکہ اسلام بلنداخلاق و کردار اور دل کو موہ لینے والے انسانی اقدار کے ذریعہ پھیلا ہے۔ تاریخ میں کوئی ثابت نہیں کرسکتا کہ اسلام کو کسی پر زبردستی ٹھوپاگیاہو۔ اس کے بالمقابل عیسائیت کے بزورِ بازو پھیلانے کے شواہد موجود ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’نصرانیت ۔ قرآن کی روشنی میں‘‘ میں تفصیل سے لکھاہے کہ عیسائی بادشاہ تھیوڈوسیوس نے غیرمسیحی عبادت کو موجبِ سزائے موت قرار دیاتھا۔ اس نے مندروں کوتوڑنے، ان کی جائداد ضبط کرنے اور عبادت کے سامانوں کو توڑنے کا حکم دیاتھا۔ مصر کے آرچ بشپ تھیوفیلوس نے خاندانِ بطالسہ کا عظیم الشان کتب خانہ نذرِ آتش کردیاتھا۔ اس کے بعد مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’ان مظالم کا نتیجہ یہ ہوا کہ بت پرست رعایا نے تلوار کے خوف سے اس مذہب کو قبول کرلیا جس کو وہ دل سے پسند نہیں کرتی تھی۔ بددل اور بے اعتقاد پیروؤں سے مسیحی کلیسا بھرگئے۔ ۳۸ برس کے اندر روم کی عظیم الشان سلطنت سے وثنیت (بت پرستی) کا نام ونشان مٹ گیا اوریورپ،افریقہ اور شرقِ اردن میں تلوار کے زور سے مسیحیت پھیل گئی۔‘‘
اس کے بالمقابل ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے "The Preaching of Islam" میں کھلے دل سے اعتراف کیاہے کہ اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اخلاق وکردار کے زور سے پھیلا ہے۔ نیز مسلمانوں نے غیرمذہب والوں کو ہر جگہ مذہبی آزادی دی ہے۔ انھوں نے تفصیلاً لکھا ہے کہ کس کس جگہ عیسائی اقلیت میں اورمسلمانوں کے زیر دست تھے۔ جنہیں بڑی آسانی سے بزورِ بازو مسلمان بنایاجاسکتاتھا مگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا۔ اگرکسی جگہ بادشاہوں نے اس کا ارادہ بھی کیا تو مسلمان مفتیوں نے ان کو اس ارادے سے باز رکھا۔‘‘
وہ مزید اسی کتاب میں ایک دوسری جگہ اعتراف کرتا ہے:
’’کوئی مذہب اسلام کی طرح روادار اور صلح کل نہیں ملے گا جس نے دوسروں کو اس طرح مذہبی آزادی دی ہو ۔۔ رواداری مسلمانوں کی طبیعت کا ایک محکم خاصہ اورمکمل مذہبی آزادی ان کے مذہب کا دستورالعمل رہا ہے۔‘‘
اسلام مذہبی رواداری میں یقین رکھتا ہے۔اسلام ہی دین حق ہے، ساری دنیا کی نجات صرف اسلام میں ہے۔ اسلام کے علاوہ جتنے بھی مذاہب ہیں جہنم کے راستے پر لے جانے والے ہیں، جنت کا دروازہ صرف اسلام ہے، یہ ہے اسلام کا ایسا ٹھوس عقیدہ جس میں وہ کسی بھی طرح سے سمجھوتے کا قائل نہیں۔اس عقیدے کی رو سے دیگر مذاہب کے پیروکار یہ ضرور کہیں گے کہ یہ عقیدہ تو عدم روادی پر منحصر ہے ،لیکن ایسا نہیں ہے۔ رواداری کا مفہوم صرف یہی نہیں ہے کہ دوسروں کوبرداشت کیا جائے بلکہ اس کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دوسروں کے مذہبی عقائدو اقدار، جذبات، تہذیب و ثقافت وغیرہ کا لحاظ رکھا جائے۔ ان کے تعلق سے عدم برداشت یا تحقیر کا ایسا رویہ اختیار نہ کیاجائے جو ان کے لیے قابلِ قبول نہ ہواور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ اس طرح مذہبی روادی دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مذہب کے حوالے سے معیاری انسانی برتاؤ کا نام ہے۔ مذہبی رواداری کے حوالے سے قرآن وسنت میں صریح ہدایات موجود ہیں۔ اسلام عقیدہ توحید میں بے لچک موقف رکھتا ہے اوراس میں کسی سمجھوتے کا قائل نہیں، لیکن قرآن میں واضح اصول کے طور پر باطل معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے سختی سے روک دیا گیا ہے۔ (الانعام :۱۰۸)اس لیے کہ اس سے جذبات مجروح ہوں گے۔ فریق مخالف کے مزاج میں اشتعال پیداہوگا اور وہ عین فطرت کے تقاضے کے مطابق جواب میں معبودِ حقیقی کو بھی برا بھلا کہنے لگیں گے۔ اسلام میں فریق مخالف پر رد کرنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے، وہ خوب صورت اسلوب میں کی جانے والی بحث (جدال احسن ،النحل :۱۲۵)ہے نہ کہ طنز و تشنیع اور نزاع پیداکرنے والا طرز۔
اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ اسلام اپنا نظام زبردستی لوگوں پر تھوپتا ہے؟ نہیں بالکل نہیں، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو لوگوں میں پائی جاتی ہے۔رواداری کے تعلق سے قرآن کا سب سے بنیادی اصول یہ ہے کہ : دین میں کوئی جبر نہیں۔ (البقرہ:۲۵۶) یہ انسان کی آزادی فکر و عقیدہ کا سب سے اہم اعلامیہ ہے۔ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کے فکر و عقیدہ کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ ہر فرد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جس نظریے کو چاہے اختیار کرے اور جسے چاہے رد کردے۔ اس کا محاسبہ کرنے والی ذات خدا کی ذات ہے، وہ قیامت کے دن اس کا محاسبہ کرے گی۔ دنیا میں اس بنیاد پر ایسے شخص کے ساتھ برا اور غیر اخلاقی طرزِ عمل اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ اسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔آتعالی کا ارشاد ہے :
’’اس لیے اے نبی تم اس دین کی طرف دعوت دو اور ثابت قدم رہوجیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور ان لوگو ں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور کہو کہ ا? نے جو کتاب اتار ی ہے اس پر میں ایمان لایا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔ا? ہی ہمار ااور تمہار ارب ہے۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ہمارے اور تمہارے درمیان کو ئی جھگڑا نہیں ہے۔ا? ہم سب کو جمع کریگا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے‘‘۔(الشوری:۱۵) حضرت عمر? کا ایک رومی غلام حضرت عمر?کی وفات تک ان کے پاس رہا۔ حضرت عمر چاہتے تھے کہ وہ اسلام قبول کرلے تو وہ اسے کسی اہم عہدے پر فائز کردیں لیکن اس نے اسلام قبول نہیں کیا اپنی وفات کے وقت حضرت عمر نے اسے آزاد کردیا۔ انسانی رواداری کا ایک اہم نمونہ یہ ہے کہ رسول ﷺ کسی غیر مسلم کے جنازے کو بھی دیکھ کر اس کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔ (بخاری) ہجرت کے بعد پیغمبرِ اسلام کو یہ قوت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ مدینہ میں قائم یہودیوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کردیں، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اس کی بجائے آپ نے انھیں امتِ متحدہ کا حصہ بناکر ان کے اندر پائے جانے والے نفرت و کدورت کے جذبات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے تحت مذہبی رواداری پر مبنی جو حقوق غیر مسلم فریقوں کو حاصل ہوئے ان میں سے دو یہ تھے :
ایک یہ کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو بھی مذہبی و سیاسی سطح پر وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ دوسرے یہ کہ دونوں فریق مل کر دشمنوں سے اس امت متحدہ کی حفاظت کریں گے۔ دونوں مل کر دفاعی اخراجات کے اور ذمہ داریاں اٹھائیں گے۔اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کامل داخلی خود مختاری دی گئی ہے۔ چناں چہ قرآن کہتا ہے: ’’عیسائیوں کو چاہیے کہ وہ انجیل کے مطابق فیصلہ کریں۔‘‘ (المائدہ: ۴۷)
اہم بات یہ ہے کہ انجیل پوری طرح سے محرف ہے۔ جس وقت قرآن نازل ہوا، وہ محرف اور انسانی خرد برد کا شکار تھی، لیکن اس کے باوجود انھیں اس کی اجازت دی گئی۔ان احکام کے تحت عہدِ نبوی ہی میں خود مختاری ساری آبادی کے ہر گروہ کو مل گئی تھی۔ جس طرح مسلمان اپنے دین عبادت قانونی معاملات اور دیگر امور میں مکمل طور پر آزاد تھے، اسی طرح دوسرے مذاہب و ملت کے لوگوں کو بھی کامل آزادی حاصل تھی۔‘‘ (ص:۴۱۸) چنانچہ فقہ میں یہ بات مسلّم ہے کہ اسلامی مملکت کے غیر مسلم شہریوں کو اس بات کی اجازت حاصل ہوگی کہ وہ اپنی پسند کے کھانے اور پینے جیسے محرمات کا بھی اپنے نظریے کے مطابق استعمال کرسکیں۔ ان پر اس سلسلے میں کوئی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔حالاں کہ اس بنیاد پر ایسا کیا جا سکتا تھا کیوں کہ کچھ ایسے کھانے اور پینے کی چیزیں وہ استعمال کرتے تھے جن کا تعلق عیسائیوں کے مذہب یا عقیدے سے نہیں ہے۔بلکہ وہ کئی اعتبار سے خود ان کے لیے بھی نقصان دہ ہے اسی کے ساتھ اسلامی سوسائٹی پر اس کا جو اثر پڑتا ہے وہ ظاہر ہے۔ اسلامی تاریخ میں مذہبی رواداری کی قابلِ رشک مثالیں ملتی ہیں۔دمشق کی مسجد کبیر کی توسیع کے لیے ولید بن عبدالملک نے ایک چرچ کے کچھ حصے کو اس میں شامل کر لیا جب عمر بن عبد العزیز خلیفہ ہوئے تو انھوں نے مسجد کے اس حصے کو توڑ کر چرچ کو واپس کردیا۔یہ مثالیں قرآن میں مذہبی رواداری کے تصور اور تلقین کے عین مطابق ہیں۔ قرآن میں کہا گیا ہے: ’’تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف کا رویہ اختیار نہ کرو، انصاف کرو۔‘‘ (المائدہ :۸) مذہبی رواداری کی ایک اہم مثال اس آیت میں بیان کی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ:اگر ا? تعالی آپس میں لوگوں کا ایک دوسرے کے ذریعے دفاع نہ کرتارہتا توغیر مسلموں کے عبادت خانے ،گرجے مسجدیں ،اور یہودیوں کے معبد اور وہ مسجدیں بھی ڈھادی جاتیں جن میں ا? کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے۔(سورہ حج:۴۰)بہت سے مسلم حکم رانوں نے نہ صرف غیر مسلم عبادت گاہوں کی سرپرستی کی ،ان کی تعمیر میں مدد کی ،بلکہ خود سے اس کی تعمیر بھی کرائی۔اس کی مثالیں عہد اموی میں بھی ملتی ہیں اور آج بھی متحدہ عرب امارات میں جس طرح دبئی کی حکومت نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مندر بنانے کیلئے زمین دینے کی پیش کش یا منظور دی ہے ساری دنیا نے دیکھا ،اس سے بحث نہیں کہ کیا وہ صحیح ہے یا غلط لیکن مذہبی رواداری کا ثبوت 
آج بھی مل رہا ہے۔اس سے قبل ماضی میں مغلیہ سلطنت کے دور میں خود اورنگزیب نے بنارس میں متعدد مندر کیلئے زمین الاٹ کی تھی جس کی کاپی بنارس ہندو یونیورسٹی کے میوزیم میں موجود ہے۔ہاں ادھر کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں جس سے عدم رواداری کی جھلک ملتی ہے لیکن اسے اسلام سے کسی صورت منسلک نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح طالبان کے ذریعے گوتم بدھ کی مورتی کوتوڑنے کی مثال اسلامی اصولوں سے انحراف کی مثال ہے۔اسی طرح آج مختلف نیوز چینل پر آئی ایس نامی بدنام زمانہ تنظیم کی حرکتوں کو بھی دیکھا جار ہا ہے جس میں مورتی توڑنے سے لیکر انسانوں کے ساتھ وحشی اور درندے کی طرح سلوک کیا جا رہا اور عورتوں کو باندی وغیرہ بنانے کی بات کہی اور دیکھائی جاری ہے جس کو ان کے مطابق اسلامی اسٹیٹ کے نام سے موسوم کیا جا رہا ہے۔ایسی انحراف کی دیگر مثالیں بھی مل جائے گی لیکن اس پر اسلام کے اصولوں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔چونکہ یہ جگ ظاہر ہے کہ وہ جو اقدامات کر رہے ہیں ان کی اسلام کبھی اجازت نہیں دے سکتا اور ان کی وجہ سے عام مسلمانوں کی جان بھی جار ہی ہے۔آج شام میں دنیا چڑھ دوڑی ہے صرف آئی ایس کے نام پر ،حالانکہ وہاں نشانہ صرف عام انسان ہی ہیں جس سے براہ راست فائدہ حکمراں طبقے کو مل رہا ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہاں ہر طرف چیخ وپکار کی آواز بلند ہو رہی ہے لیکن آئی ایس کے پردے کے پیچھے اس پر تالیاں بجا ئی جا رہی ہے کہ یہ آئی ایس کا ٹھکانہ ہے جبکہ روس سے لیکر فرانس تک نے عام مسلمانوں کی بستیوں اور شہروں پر راست حملہ کر کے کھنڈروں میں تبدیل کر دیا ہے۔
لیکن کیا رواداری کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنی پہچان کھودے؟ نہیں اور بالکل نہیں، مذہبی رواداری کے نام پر غیرمسلموں کا طریقہ اپنانا حرام ہے، اور ان کے مذہبی عقیدے اور تہواروں کی تائید کرنا کفر ہے، غیرمسلم کو اپنے مذہب پر چلنے کا پورا اختیار ہے لیکن مسلمان اگر ان کے عقیدے کی تائید کریں تو خود ان کا اسلام ہی باقی نہیں رہے گا۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے جو کسی سہارے کا محتاج نہیں، مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں عقائد، عبادات، معاملات اور پرسنل لا میں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی شریعت کی تابعداری کریں۔ اسی لیے سنن ابی داؤد کی روایت کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو دوسروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں ‘‘۔ (صحیح ابوداؤد: 4031)حالانہ ہندوستان میں رواداری کا مفہوم کچھ بدل گیا ہے۔خود مسلم سیاسی لیڈران سے لیکر مذہبی رہنما تک برادران وطن کے مذہبی تیوہاروں میں شریک ہوتے ہیں اور ان کے مذہب کے مطابق وہ سارے افعال انجام دیتے ہیں جس کے کرنے سے ایک مسلمان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ،اسے وہ مذہبی رواداری کا نام دیتے ہیں جو سراسر غلط ہی نہیں بلکہ شرک ہے۔مذہبی رواداری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان کی مشابہت اختیار کریں ،اور نہ یہ ہے کہ ہم ان کے تیوہاروں میں حصہ لیں۔ یہ امر واقع ہے کہ آج دنیا میں مساوات، امدادِ باہمی، علمی جدوجہد اور نوع انسانی کے ساتھ ہمدردی کی جو تحریکیں جاری ہیں وہ سب کی سب اسلام ہی سے مستعار لی گئی ہیں۔ اسلام نے جلوہ گر ہوکر حکومتی نظاموں کا ڈھانچہ بدل دیا۔ دنیا کے اقتصادی نظام میں انقلاب برپا کردیا۔ اسلام نے ایک ایسا مکمل نظامِ حیات پیش کیا جو مسلمانوں ہی کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا کیلئے ایک رحمت ثابت ہوا۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جن کے سامنے نہ صرف میری بلکہ ہر انصاف پسندانسان کی گردن جھک جانی چاہئے۔
مذہبی رواداری کے تعلق سے ہمیں صرف اصولی قوم ہی نہیں کہ وہ رواداری کے اصول و نظریات میں یقین رکھتی ہو بلکہ عملی قوم بھی ہونا چاہیے۔ مذہبی راوداری کی وہ روشن مثالیں جو ماضی میں ملتی ہیں، حال میں بہت کم ہوگئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصول و نظریات کے حوالے سے جب بھی ہمیں مثالیں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ہم عموماً اپنے ماضی سے ہی اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔ ماضی میں ہماری ذہنیت دین کی اصولی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں تشکیل پائی تھی۔ حال میں ہمارا ذہن موجودہ سیاسی حالات و واقعات سے زیادہ متاثر ہے۔ بلکہ بسا اوقات یہ محسوس 
ہوتا ہے کہ اسی نے ایک اصول کی حیثیت اختیار کرلی ہے کہ جو تمہارے ساتھ جیسے کرے تم بھی اس کے ساتھ ویساہی کرو۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ :’’تم موقعہ پرست مت بنو کہ کہنے لگو کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھا معاملہ کریں گے تو ہم ان کے ساتھ اچھا معاملہ کریں گے اور اگر وہ ہمارے ساتھ برا معاملہ کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ برا معاملہ کریں گے، بلکہ تم خود کو اس بات کا عادی بناو کہ اگر تمہارے ساتھ کوئی برائی کے ساتھ پیش آئے تو تم بھلائی کے ساتھ پیش آو۔ عیسائیت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تم اپنے دشمنوں سے بھی پیار کرو۔ظاہری طور پر یہ چیز انسان کی عام فطرت سے ہٹ کر محسوس ہوتی ہے، قرآن میں اس سے ملتی جلتی بات یہ کہی گئی ہے کہ : ’’تم برائی کوبھلائی سے دفع کرو۔ جب تم ایسا کروگے تم دیکھوکہ تمہارا کٹّر دشمن بھی تمہارا گہرا دوست ہوگیا۔‘‘ (فصلت: ۳۴) مذہبی رواداری کے مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے حالات و واقعات میں بھی جن کی براہِ راست زدہم پر پڑتی ہو، کھلا ہوا نقصان ہمارے سامنے ہو، ہمیں وسیع القلبی کے ساتھ اس کی پاس داری کرنی چاہیے۔ حضرت علی? کا قول ہے کہ نیکی خود اپنا انعام ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم جو نیکی کررہے ہوں ہمیں اس کی متوقع اورپسندیدہ جزا بھی ملے۔اس وقت اسلامی اصولوں پر فخر کی بجائے ان کو برت کر دکھا نے کی ضرورت ہے۔ایک داعی قوم کی حیثیت سے ہمار ا یہ فریضہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ وسیع النظری اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں۔اس سے قطع نظر کہ دوسروں کا معاملہ ہمارے ساتھ کیا ہے۔یہی رسول کا اسوہ اور اصحاب رسول کی سنت ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا