English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہم ابھی اپنی اساطیرمیں اُلجھے ہوئے ہیں!

share with us

ابھی چنددن پہلے ہندوستان کی (سب سے بڑی) ملی تنظیم جمعیت علماے ہند کااجلاس ہوا،اسی دن آل انڈیاجمعیتِ اہل حدیث کااجلاس ہوا، اس سے دوہفتے قبل آل انڈیاملی کونسل کااجلاس ہواتھااوراب کل پرسوں ایک انٹرنیشنل صوفی کانفرنس ہونے کوہے ۔ گویادس پندرہ دنوں کے اندراندرمسلمانانِ ہندکے’’نمائندہ‘‘اداروں اورمتعددمکاتبِ فکرکی مرکزی تنظیموں کے قومی سطح کے جلسے منعقدہوئے یاہورہے ہیں، ان میں سے ہرایک کے اپنے خاص مقاصدہیں، اغراض ہیں اورکچھ خاص منصوبے ہیں، جن کوروبعمل لانے کے لیے یہ جلسے برپاکیے جارہے ہیں،ملی کونسل نے ہندوستان میں موجودہ وقت میں عدل وانصاف کی صورتِ حال پرتبادلۂ خیال کے لیے اجلاس کیاتھا، جمعیت نے اظہارِ یکجہتی اورملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کی مخالفت کے لیے اجلاس کیا،اہلِ حدیث کانفرنس کااہم ایجنڈہ داعش کی سرگرمیوں کوغیراسلامی، غیرشرعی اورغیرانسانی قراردیناتھا،جبکہ انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کامقصدیہ بتایاجارہاہے کہ اس کے ذریعے امن وامان کاپیغام عام کیاجائے گا،اس کانفرنس کے اربابِ بست وکشادبزعمِ خویش یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ اسلام کے لیے صرف لفظِ اسلام کافی نہیں،اس کے ساتھ ’’صوفی‘‘کاسابقہ بھی لگاناہوگا، انہی صوفی کانفرنس والے لوگوں نے گزشتہ مہینے ایک دہشت گردی مخالف کانفرنس بھی کی تھی اوراس میں سرِ عام، اسٹیج سے اُن مسلمانوں کوہی دہشت گرد قراردیاگیا، جوان اصحابِ جبہ ودستارسے فکری ہم آہنگی نھیں رکھتے؛ حالاں کہ اس کے فورابعدمیرٹھ کے ایک جلسے میں جمعیت کے دوسرے دھڑے کے جنرل سکریٹری مولامحمودمدنی نے کشادہ ظرفی کاثبوت دیتے ہوئے کہاکہ وہ لوگ بھی ہمارے اپنے ہیں اورہم مسلک ومشرب کی بنیادپرآپسی انتشارکوبرداشت نہیں کریں گے۔ 
ویسے ایک عالمی پیمانے کاجلسہ فروری کے اواخرمیں حیدرآبادمیں بھی ہواتھا، اس کامرکزی موضوع سیرتِ پاک اوراس کے مختلف پہلووں سے نسلِ نوکوآشناکرناتھا، اس میں بھی دیگرجلسوں کی طرح ہندوبیرونِ ہندکے علما، محققین ومفکرین کی بھاری تعدادنے شرکت کی تھی، داعش کاموضوع بھی اُس سیرت کانفرنس میں زیرِ بحث آگیاتھااورحیدرآبادکے انگریزی اخباروں نے اسی کوہائی لائٹ کیاتھا۔
ابھی بہت سے ملی جلسے ہونے ہیں، یوں بھی اپریل ،مئی کے مہینے ہندوستان میں ملی ودینی جلسوں کے حوالے سے مشہورہیں، اسلامی مدارس کے جلسے ہماری تحریرسے خارج ہیں، جوعموماً حفاظ کی دستاربندی یاکسی اورہنگامی موضوع پرکیے جاتے ہیں، ہماری تحریرکاموضوع صرف ملی ادارے اوران کے جلسے ہیں، کیاآپ کوحیرت نھیں ہوتی کہ مسلمانوں ہی کی زبوں حالی وپسماندگی کودورکرنے کے لیے ہمارے یہ ادارے قومی سطح کااجلاس کرتے ہیں، ان کے ایجنڈوں میں ایک اہم ایجنڈہ اتحادواتفاق بھی ہوتاہے، مگرہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک ہی دن ہمارے ملک کے مسلمانوں کی دوبہت بڑی تنظیموں کااجلاس ہوتاہے، دونوں کااسٹیج الگ ہے، ان کے جلسوں میں شریک ہونے والے لوگ الگ ہیں، ان اسٹیجوں پربیٹھے ہوئے رہنمایانِ قوم کے چہرے بظاہرایک جیسے ہیں، مگراذہان میں ایک دوسرے کے تئیں نفرت کی حدتک اجنبیت گھرکیے ہوتی ہے؛حالاں کہ دونوں اجتماعات کامقصدتقریبایکساں ہوتاہے، دونوں ہندی مسلمانوں کے اصلاحِ احوال کی صورتوں کی تلاش ودریافت کرنے کے لیے برپاکیے جاتے ہیں ۔ جن دنوں میں ہمارے ان عظیم اداروں کے اجتماعات ہوئے ہم نے انہی دنوں میں دیکھاکہ دہلی کی ہی سرزمین پرہندووں کے مشہور رہنماشری شری شنکرکی زیرِ سرپرستی ایک عالمی سطح کاکلچرل فیسٹیول منعقدکیاگیااوراس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی، اس کاایک الگ مقصداورنصب العین تھا؛مگرایک چیزجوہمیں برادرانِ وطن کے سماجی، تہذیبی ومذہبی اداروں اورشخصیات کے ذریعے منعقدکیے جانے والے اجلاسوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ جب رام دیوکے ذریعے کوئی اجلاس ہوتاہے، توصرف رام دیوکے ہی ذریعے ہوتا ہے اوراس میں سارے ہندوشریک ہوتے ہیں،شری شری شنکرکے ذریعے ہوتاہے،تواس میں بھی سارے ہندوشریک ہوتے ہیں، آرایس ایس والے کوئی اجتماع کرتے ہیں، تواس میں وی ایچ پی اوردیگرچھوٹی بڑی ہندوتنظیموں کے لوگ،ان کے ذمے داران بھی لازماً شریک ہوتے ہیں اوروہ سب مل کراپنی قوم کے مسائل ومشکلات کاتجزیہ کرتے، لائحہ عمل بناتے اورعملی اقدامات کرتے ہیں۔گویاان کے مابین فکری ہم آہنگی ہے، عملی اعتبارسے ان کے طورطریقے مختلف ہوسکتے ہیں؛ لیکن مرکزی خیال ان کے اداروں کایکساں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سماجی طورپراگرچہ ان کے مابین برادریوں کے جھگڑے ہیں، مگریہ چیزان سب کے مابین قدرِ مشترک ہے کہ وہ سب ایک خاص مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، جبکہ ہماراالمیہ گزشتہ کئی صدیوں سے یہ ہے کہ ہمارے تحت الشعورمیں اسلامیت سے کہیں زیادہ خاص مسلک ومشرب، اس کے مذہبی وسیاسی نظریات وافکاراوراس کے طے کیے ہوئے معتقدات وتصورات گھرکیے ہوئے ہیں، یہ ایک ناقابلِ انکارحقیقت ہے کہ گوبظاھرہمارے ملی ادارے ہندی مسلمانوں کی نمایندگی کادعوی کرتے ہیں؛ مگرفی الحقیقت وہ ایک خاص مکتبِ خیال سے منسلک افراداورانسانی جماعت کی نمایندگی کرتے ہیں، مسلمان ہونے کے باوجودہم آپس میں بہت زیادہ فکری بُعدرکھتے ہیں، ہمارے درمیان پچانوے فیصدمشترک قدریں، جبکہ صرف پانچ فیصدوجوہِ اختلاف ہیں،مگرہم بوجوہ اتفاقی اقدارکوبنیادبناکراپناملی تشخص قائم کرنے کی جدوجہدکی بجاے پانچ فیصداختلافی قدروں کواُچھالتے اورایک دوسرے پراپنی برتری ثابت کرنے، ایک دوسرے کونیچادکھانے اوردوسرے کے بالمقابل اپنی بلندقامتی کوثابت کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ 
یہی وجہ ہے کہہمارے ان نمائندہ اداروں کے ذریعے برپاکیے جانے والے اجتماعات بظاہر توبڑے کامیاب ہوتے ہیں ، ان میں ملک کے گوشے گوشے سے مسلمانوں کی ایک معتدبہ تعدادشریک ہوتی ہے، ان اجلاسوں میں مسلمانوں کے مسائل کے تدارک کے لیے بڑی عمدہ تجاویزپیش اورپاس کی جاتی ہیں، حکومتوں پرپریشرڈالنے کے بھی منصوبے بنتے ہیں، مگرزمینی سطح پرایساکچھ بھی نھیں ہوتا؛ بلکہ کچھ دنوں کے بعدملک کے کسی اورخطے میں اُسی جیسے ایک اوراجتماع کااشتہاراورخبرہماری نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے، جس میں مسلم مسائل پرفکروغوراوران کے حل کی تدبیرکی جانی ہوتی ہے ۔ 
حالاں کہ کم ازکم ہندوستان کے سماجی وسیاسی پس منظرمیں اگرمسلمانوں کی واقعی فلاح وبہبودہوسکتی ہے، تواس کی واحد شکل یہ ہے کہ تمام مسلمان، ان کے تمام ملی، سماجی، مذہبی وسیاسی ادارے مل کرسوچیں، اسٹیج ایک ہوناچاہیے اوراس پرتمام ترمکاتبِ فکرکے اربابِ فکروبصیرت اشخاص جمع ہوں اوروہ سب مل کرہندی مسلمانوں کودرپیش چیلنجزکامداواکرنے پرتبادلۂ خیال کریں اورپھرعملی خاکہ بنائیں، اس حقیقت سے انکارکی کوئی گنجایش نہیں کہ ملی وحدت کے بغیرنہ مسلمانوں کے مسائل ہونے ہیں، نہ ان کی مشکلات دورہونی ہے اورنہ ان کی حرماں نصیبیوں کاسلسلہ تھمناہے،یہ الگ بات ہے کہ خدمتِ قومی کے نام پرچنداداروں اورافرادکی چاندی ہوتی رہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا