English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا سارا کھیل شری شری کا ہی ہے؟

share with us

اچانک ایک دن ایک بہت بڑے فوٹو پر نظر پڑی جس کے درمیان میں بابا شری شری روی شنکر تشریف فرما تھے۔ داہنے صدر جمہوریہ اور بائیں وزیر اعظم۔ اسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوا کہ مسئلہ وہ نہیں ہے بلکہ دھرم کرم کا کوئی پروگرام ہے۔ اس کے بعد ایک عجیب بات یہ دیکھنے اور سننے میں آئی کہ دریائے جمنا اس کے گرد دو ہزار ایکڑ زمین۔ کسانوں کی کھڑی فصلیں، دریا پر حکومت کا کنٹرول، زمین پر کس طرح کے پروگرام کرنے پر پابندی بھی اور جمنا کی آلودگی اور فضائی آلودگی کی نگرانی کے محکمے چپ؟ اور معلوم کرنے والے مارے مارے پھر رہے ہیں کہ اس پروگرام کی اجازت کس نے دی اور ہر جگہ سے جواب ملتا ہے کہ ہم نے نہیں دی۔ لیکن کام کی رفتار ہے کہ ہر دن تیز ہوتی جارہی ہے اور بابا شری شری پورے شاہانہ انداز سے اس طرح نظر آتے ہیں جیسے ہر محکمہ کی اجازت ان کی جیب میں ہے۔
سب سے اہم بات یہ تھی کہ جب سرکاری پروگرام نہیں ہے تو پھر شہرت کی حد تک 150 ملکوں سے آنے والے اور اپنے ملک کے چپہ چپہ سے آنے والے 35 لاکھ مہمانوں کے لئے جو لال قلعہ سے زیادہ شان و شوکت کا مہامندر تیار ہورہا ہے اسے تیار کرنے والے صرف فوجی کیوں؟ اور جس سامان سے یہ سب تیار ہورہا ہے وہ فوج کا سامان کیوں؟ اور 2 ہزار ایکڑ زمین پر ہر قسم کا کام کرنے والوں میں کوئی ایک بھی انجینئر، مستری، لوہار، کاریگر اور مزدور غیرفوجی کیوں نہیں؟ اور درجنوں ٹرکوں، ٹریکٹروں، باربرداری اور کھدائی کی مشینوں اور ٹینکوں میں غیرفوجی کیوں نہیں؟ ہر چیز فوج کی اور ہر ہاتھ فوجی کا کیوں؟ اچانک خبر آئی کہ صدر محترم نے شرکت سے انکار کردیا اور وزیر اعظم کے سامنے مسئلہ کھڑا ہوگیا کہ وہ اس کے باوجود شرکت کریں تو کیسے اور نہ کریں تو کیا عذر کریں؟
اس واقعہ پر یاد آیا کہ 35-30 سال پہلے دیوبند میں دارالعلوم کا جشن صدسالہ اور جشن دستار بندی کے پروگرام کا فیصلہ کیا گیا جس میں ہندوستان کے علاوہ دنیا بھر سے فضلاء دارالعلوم اور پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور ساؤتھ افریقہ سے دارالعلوم کے فارغ عالموں کے علاوہ عالم اسلام کے جیدعالم اور سربراہانِ مملکت کی شرکت کی بھی توقع کی جارہی تھی۔ مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں۔ دارالعلوم والوں نے یہ سوچ کر انہیں مدعو نہیں کیا تھا کہ خالص مذہبی، دینی اور اسلامی اجتماع ہے۔ وہ شاید شرکت کرنا پسند نہ کریں؟ لیکن ہوا اُلٹا کہ محترمہ سے جس کسی مسلمان وزیر نے یا لیڈر نے دارالعلوم کے جشن کا ذکر کیا تو وزیر اعظم نے شکایت کے طور پر کہا کہ ہمیں تو انہوں نے بلایا ہی نہیں۔ اور پھر ہر وزیر اور ہر مسلمان لیڈر دیوبند گیا اور کہا کہ آپ لوگوں نے وزیر اعظم کو کیوں نہیں بلایا؟
اور پھر پورے اہتمام سے ایک وفد نے انہیں دعوت دی اور وہ اس لئے آئیں کہ وہ اپنے کو ایک سیکولر ملک کی وزیر اعظم ثابت کرنا چاہتی تھیں اور لاکھوں کی تعداد میں اتنے عالم اور دنیا بھر کے دانشور انہیں کہاں ملتے؟ شری شری جی کے پروگرام کے بارے میں بھی بار بار کہا گیا کہ وزیر اعظم کے بارے میں ابھی طے نہیں ہے کہ وہ شریک ہوں گے یا نہیں؟ اور ہمارا کہنا ہے کہ وہ شریک ہی نہیں ہوں گے بلکہ وہی وہ ہوں گے۔ اس لئے کہ ہمارا خیال ہے کہ یہ سب ان کا ہی کرایا ہوا ہے۔ انہوں نے 2014 ء کے الیکشن میں بابا رام دیو کو استعمال کیا تھا اور انہیں دنیا بھر کے درجنوں ملکوں میں کالے دھن کی فرضی فائل بناکر دی تھی اور وہ ایک ماہر معاشیات کی طرح عوام کے سامنے اعداد و شمار سے ثابت کرتے تھے کہ کالا دھن آنے کے بعد روپیہ اور ڈالر کی ایک حیثیت ہوجائے گی اور ملک میں ڈھونڈے غریب نہیں ملے گا۔ بابا رام دیو تو اب بنئے کی طرح نون تیل لکڑی بیچ رہے ہیں۔ اب وزیر اعظم نے دوسرے سفید پوش بابا شری شری کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ ایسے ہی جیسے بنگال میں ممتا بنرجی کے مقابلہ میں نیتاجی سبھاش چندر بوس کے گھر سے ایک پوتے کو لاکر کھڑا کردیا۔
اس کے بعد بعض ماہرین کا شور مچانا کہ ہر قانون کے پرزے کردیئے اور ہر پابندی کو ٹھوکر ماردی اور اب یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ ’الف‘ سے لے کر ’ے‘ تک سارا کام فوج نے کیوں کیا اور ضرورت کی کیل سے لے کر ٹینک تک سارا سامان جو اگر کرایہ پر لیا جاتا تو شاید دس کروڑ میں بھی نہ ملتا اور اگر شہر کے کاریگروں، مستریوں اور مزدوروں سے بنوایا جاتا تو چھ مہینے میں بھی بن کر تیار نہ ہوتا وہ دو ہفتے میں کیسے ہوگیا؟ ملک میں وہ کون باشعور ہے جسے یاد نہ ہو کہ دہلی میں کامن ویلتھ کے موقع پر معزز مہمانوں کے لئے بنایا گیا جو پل وی آئی پی بنایا گیا تھا اور وہ خود بخود گرگیا تھا۔ اس جگہ پر صرف ایک ہفتہ میں فوج نے دوسرا پل بناکر کھڑا کردیا تھا جو برسوں کھڑا رہے گا۔ وہاں بھی فوج کا استعمال اس لئے ہوا تھا کہ مرکز اور دہلی دونوں جگہ کانگریس کی حکومت تھی۔ اور جب حکومت اپنی ہو تو فوج تو اپنی ہوگی ہی۔ اب اس سے چاہے جنگ کرالیجئے چاہے سیلاب میں مدد لے لیجئے یا چاہے اسے اتراکھنڈ کے طوفان میں اتار دیجئے یا کشمیر کے سیلاب کا مقابلہ کرالیجئے اور یا 26/11 کے موقع پر کمانڈوز کو جھونک دیجئے۔ وہ اُف نہیں کریں گے۔
جمنا کے کنارے نہیں بلکہ جمنا کے اوپر اور ارد گرد دو ہزار کروڑ ایکڑ زمین پر شری شری روی شنکر نے عالمی ثقافتی فیسٹیول کیلئے جیسے شاہانہ انتظام کئے ہیں اور 35 لاکھ مہمانوں کے متعلق کہا ہے کہ وہ ہوٹلوں میں ٹھہریں گے۔ ان کی مہماں نوازی پر ہزاروں کروڑ روپئے خرچ ہوگا اور جس پروگرام میں جمنا کے پانی کے قطروں سے زیادہ روپئے خرچ ہونے والے ہوں وہاں اگر کوئی پانچ کروڑ کا جرمانہ کردے تو اس کی پانچ روپئے کی برابر بھی حیثیت نہیں ہے۔ اس لئے کہ نام ہی صرف شری شری روی شنکر کا ہے پردہ کے پیچھے تو کوئی اور ہے یعنی وہ ہے جس کے اشارہ پر پندرہ دن سے رات دن فوج لگی ہے۔
اپنے بزرگوں کا احترام مودی صاحب کا کوئی نیا عمل نہیں ہے۔ اٹل جی بھی جب وزیر اعظم تھے تو ہم نے خود ٹی وی پر دیکھا تھا کہ جگت گرو شنکر آچاریہ کے قدموں پر انہوں نے سر رکھا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پھر وہ شنکر آچاریہ ایک قتل کے مقدمے میں پھنسے اور بسوں میں دھکے کھاتے کچہری میں دیکھے گئے۔ لیکن بزرگوں سے عقیدت اپنی جگہ ہے۔ مودی صاحب بھی اب بابا رام دیو کے ساتھ نہیں۔ شری شری روی شنکر کے گلے میں ہار ڈالتے اور ان کے کاندھے پر شال ڈالتے نظر آتے ہیں۔ اب بظاہر 2019 ء تک وہی این ڈی اے کی نیّا پار لگاتے نظر آئیں گے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ اب 40-30 لاکھ مسلمان شریک ہوتے ہیں۔ یہ اجتماع بھی تین دن کے ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی مرکزی یا صوبائی حکومت یہ نہیں بتاسکتی کہ کبھی کسی نے ان سے سو روپئے کی بھی مدد مانگی ہو۔ 1978 ء میں مراد آباد میں اجتماع تھا۔ اس وقت ڈی ایم اجے وکرم سنگھ ہمارے دوست تھے۔ ایک ملاقات میں انہوں نے شکایت کی کہ تین لاکھ آدمی آرہے ہیں اور ہم نے معلوم کرایا کہ ہم کیا مدد کریں؟ تو جواب آیا کہ آپ آکر سن لیجئے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ پورے ملک میں ہر سال کہیں نہ کہیں اجتماع ہوتا ہے لیکن پانچ فوج تو کیا پولیس کو بھی زحمت نہیں دی جاتی۔ اور کسی نے نہ سنا ہوگا کہ بھگدڑ میں کتنے مرے یا آتے جاتے کتنے حادثے ہوئے۔
عالمی ثقافتی فیسٹیول کے بارے میں دہلی پولیس پریشان ہے کہ اتنے بڑے پروگرام کے لئے کانسٹرکشن سرٹی فکیٹ ہر کسی ایجنسی نے دینے سے انکار کردیا۔ بھگدڑ پارکنگ یا مٹی کے بجائے بالو پر بنی عمارت اور لاکھوں کے بیٹھنے کا انتظام پر پولیس کیسے قابو پائے گی؟ لیکن مرکزی وزارت داخلہ نے تمام خدشات کے باوجود دہلی پولیس کو خط بھیجا ہے کہ پنڈال میں کسی بھی خدشات کے پیش نظر ضروری حفاظتی اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ اور یہی بات ثابت کرتی ہے کہ چہرہ بے شک شری شری روی شنکر کا ہے لیکن ماسٹر مائنڈ کوئی اور ہے۔ خدا کرے ہمارا اندازہ غلط ہو۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا