English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملک کو دوبارہ ٹکڑے ہونے نہیں دیں گے :مولانا ارشد مدنی

share with us

مولانانے جمعےۃ العلماء ہند کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہاکہ جمعےۃ کے اکابرین نے اس ملک کے لئے جوقربانیاں دی ہیں وہ اب بھی تاریخ میں موجود ہیں ۔ لیکن آج ملک کے جو حالات پیدا ہورہے ہیں اس سے محسوس ہورہا ہے کہ اقلیتوں کے خلاف مرکز میں برسر اقتدار حکومت ایک منظم سازش کررہی ہے اور ان کو ان کے حقوق سے دستبردار کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے اس ملک کے لیے جو کیا ہے ا س کی مثالیں اب موجود ہیں لیکن آپ نے اس ملک کے لیے کیا کیا ہے اس کی مثالیں آپ پیش کیجئے۔ آج سار ے ملک میں شمال سے لے کر جنوب تک اور مشرق سے لے کر مغرب تک کے اقلیتوں میں خوف وہراس کا ماحول ہے۔ مولانا محترم نے اسی صورتحال کا مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج فرقہ پرست طاقتیں اس ملک کو آگ لگانا چاہتی اور یہاں کی آپسی محبت اور بھائی چارگی کو ختم کے دراڑیں پیدا کرنے کی کوشش میں ہے۔ آج وہ کہتے ہیں ہندوستان میں بسنے والے تیس کروڑ سے زائد مسلمان اور عیسائی کا دین بدل کو ان کو اپنے مذہب میں لینا چاہتے ہیں۔ ملک ایک مرتبہ ٹکڑے ہوا ہے اور اب وہ دوبارہ ملک کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں لیکن جمعیت علماء ہند اس کو ہونے نہیں دے گی۔ مولانا نے آزادی سے پہلے جمعیت کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ جب ملک آزاد ہوا تو بعض طاقتوں نے سوچا تھا کہ اس ملک کا دستور سیکولزم نہیں ہوگا ۔ اس وقت جمعیت علماء ہند ہی تھی جس نے امبیڈکر اور گاندھی کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا کہ ہم سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے کیے جائیں ، ان کوششوں کے بعد ہندوستان ایک سیکولر ملک قرار پایا اور اس ملک کو سیکولزم پر برقرار رکھنے کے لے مسلمان انتھک کوشش کرے گا۔ انہوں اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اگر خدانخواستہ اس ملک کی سیاسی پارٹیاں سیکولزم کو ختم کرنے کے لیے متحد ہوجائیں تو اس وقت بھی مسلمان سیکولزم کو باقی رکھنے کے لیے جاں توڑ کوشش کرے گا۔ مولانا نے ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہ مٹھی بھر فرقہ پرست طاقتیں یہ ڈھونگ رچ رہی ہیں کہ اکثریت ہمارے ساتھ ہے ، ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کی اقلیتیں اگر ایک جگہ جمع ہوجائیں تو پھر جو لوگ اکثریت کہتے ہیں وہ اقلیت میں آجائیں گے۔۔ مولانا نے اپنے خطاب میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار پر اٹھائے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ یونیورسٹیاں ہمارے باپ داداؤں نے بنائی ہے اور اس کی تاریخ بھی موجو د ہے اور یہ سب آپ کے باپ دادا نے نہیں کیا ہے لیکن ان سب کے باوجود اس کے اقلیتی کردار پر روڑے اٹکارہے ہیں اور اس کا اقلیتی وجود ختم کرنے کی سازش میں ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کی بات ہورہی تھی اس وقت جمعیت علماء ہند نے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ اور دیگر سیاسی لوگوں سے بات چیت کرکے اس کا اقلیتی کردار بحال کیا ۔ مولانانے بی جے پی ایم پی آننت کمارکی جانب سے دئیے گئے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگراسلام کا رشتہ دہشت گردی سے جڑا ہوتا تو تیرہ سو سال میں اس ملک کو آگ لگ گئی ہوتی ، میں کہتا ہوں کہ دہشت گرد تم ہو جو اس ملک کے امن وامان اور یہاں کے دکھ سکھ کو آگ لگانا چاہتے ہو۔ ان کے ایم پی اور سیاستدانوں کے اس طرح کے بیانات سے حکومت کچھ نہ کارروائی کررہی ہے او رنہ ہی ان کو روک رہی ہے۔ 
کانگریس ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ رہی ہے پارلیمنٹ کے اندر بھی اور باہر بھی :غلام نبی آزاد
کانگریس کے اپوزیشن لیڈر جناب غلام نبی آزاد نے کہا کہ جولوگ ملک کی تاریخ نہیں پڑھتے ہیں ان کو ملک کے بار ے میں معلومات نہیں ہے۔ انہوں نے جمعیت علماء ہند اور مولانا سید ارشد مدنی کو ا س کانفرنس کے انعقاد پر خصوصی مبارکبادی پیش کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان میں جو لڑائی چل رہی ہے مسلمان اور ہندؤوں کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی نظریات کی ہے اور اس کو اپنے اعلیٰ اخلاق کے ذریعہ اپنے قریب کریں۔ انہوں نے کہا کہ چاہے وہ ہندو فرقہ پرستی ہو ، یا مسلم یا سکھ فرقہ پرستی ہوہم اس کا کبھی ساتھ نہیں دیں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ داعش سے زیادہ آرایس ایس کی بھی اتنی ہی مذمت کرتے ہیں جتنی دوسری فرقہ پرست طاقتوں کی کررہے ہیں اور اس فرقہ پرستی کو ختم کرنے کے لیے ہم سب کو آگے آنا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کا اردو میں لکھا گیا پیغام بھی پڑھ کر سنایا ۔ 
پاکستان بھجوانے کی دھمکی دینے والے خود بنا بتائے پاکستان چلے جاتے ہیں:سوامی سہائے
سوامی سہائے نے اس موقع پر پوری محفل کو جھنجوڑتے ہوئے کہا کہ میں جمعیت علماء ہند کو اس لیے مبارکباد دے رہاہوں کہ انہوں نے ہندوستان کو آزاد کرنے کے لیے جس طرح سے پرچم اٹھایا تھا آج ہندوستان کو ایک رکھنے کی کے لیے پرچم اٹھائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم پر نشانہ سادھتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم ملک کو ایک پریوار کہتے ہیں لیکن وہ خود اپنی پریوار کی فکر نہیں کرتے۔ انہوں نے ملک کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں نفرت کی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں اوران دیواروں کو جلد ہی گرانا ہوگا ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ انہوں نے آزادئ ہند میں مسلمانوں کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ آج کچھ لوگ مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرتے ہیں اور جو اس طر ح کی بات کرتے ہیں وہ خود بغیر دعوت اور کسی کو بتائے پاکستان پہنچ جاتے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا جب کہ مسلمان ہماری آستھا کا احترام کرتے ہیں تو ہمیں بھی مسلمانوں کے عقیدے کا احترام کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو اسلام امن وآشتی کاپیغام دیتا ہے وہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم کیسے دے سکتاہے؟؟ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششیں نہیں ہورہی ہیں بلکہ سازشیں ہورہی ہے اور وہ اس بات کی کوشش میں ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑا جائے لیکن اگر اس کی حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو ہندوستان کے بڑے بڑے سیاستدانوں کا جو قتل کیا گیا ہے وہ انہی لوگوں نے کیا ہے جو اب دہشت گردی۔۔
ملحوظ رہے کہ تلاوتِ قرآن پاک سے آغاز ہونے والے اس اجلاس میں عوام کا ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر دیکھنے کو ملا، سکھ، عیسائی ،بدھ دھرم کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی لیڈران نے اپنے اپنے خیالا ت کا اظہار کیا،ا ور تمام لوگوں نے عدمِ رواداری کی شکایت کی،ا ور ظلم و ستم کو روکنے اور کچھ فرقہ پرستوں پر نکیل کسنے کی اپیل کی۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے کئی ریاستوں سے مسلمانوں نے شرکت کی تھی ، اسٹیڈیم میں جگہ تنگ ہوگئی توپڑوس کے اسٹیڈیم میں بھی تل دھرنے کو جگہ نہ رہی بالآخر عوام باہر ہی کھڑ ے ہوکر جمعیۃ سے اپنی محبتوں کا ثبوت دیا اور صدر جمعیۃ مولانا ارشد مدنی صاحب کے دعائیہ کلما ت پر جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

اجلاس کے تمام تصاویر اس لنک پر کلک کر دیکھ لیں

http://www.fikrokhabar.com/index.php/daily-photos/test-22/category-1194

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا