English   /   Kannada   /   Nawayathi

پھونکوں سے یہ چراغ بُجھایانہ جائے گا

share with us

ایک دوزخم نہیں سارابدن ہے چھلنی 
دردبے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے 
ملک میں،مرکزمیںآرایس ایس کی ہندوتواوادی اورمتعدد صوبوں میں ہندوتواوادی حکومتوں کے آنے سے،جودرگت عوام الناس کی ہورہی ہے ایسانہیں ہے کہ اس ظلم وستم پرسبھی نے لب سی لئے ہیں،ہرطرف سناٹااور خاموشی ہے۔ایسابھی نہیں ہے،پہلے ملک میں سینکڑوں کی تعداد میں ادیب،قلم کار،سائنسداں،دانشوربڑھتی عدم رواداری ،ہندوتوا،آرایس ایس کے خلاف مرکزی حکومت کوانگشت نمائی کررہے ہیں۔بطوراحتجاج اپنے سرکاری اعزازات کوواپس کررہے ہیں۔ملک کے سب سے اعلی منصب پربراجمان صدرجمہوریہ ہندپرنب مکھرجی ایک سے کئی بارقومی یکجہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،تکثریت کوبرقراررکھنے اورعدم رواداری کے بڑھتے قدم روکنے کی،مرکزی ہندوتواوادی حکومت کوتلقین کررہے ہیں۔ملک ہی نہیں،یوروپ جسے آج پوری دنیامیں انسانی واخلاقی اقدارمیں اوّل اوّل سمجھاجاتاہے۔یہاں کے سماجی ادارے،سیاسی سماجی شخصیات اخبارات ملک میں بڑھتی عدم رواداری اوریونیورسٹیوں میں ہندوتواکے بڑھتے ناپاک قدم،زوروزبردستی پربے لاگ تبصرے کئے جارہے ہیں۔ہندوتواوادی وزیراعظم مودی اوران کے کابینی ساتھیوں پر،ہندوتواپراٹھتی مخالفتوں اوراس پراحتجاجات کاکوئی اثرنہیں۔بلکہ یہ بھی بڑھ چڑھ کرحکومت اورہندوتواپربڑھتی عدم رواداری پرتنقیدواحتجاج کرنے والوں کوہی سنارہے ہیں۔ڈانٹ ڈپٹ رہے ہیں۔اُلٹا چورکوتوال کوڈانٹے والی بات ہے۔
کتنی افسوس ناک بدبخت بات ہے کہ جب ملک کے دستورپرجوانتہائی انسانی اقدارسے پُرہے۔اس پرایمانداری سے چلنے کاحلف لینے والے حکمراں ہی اپنے قول وفکرہی سے دستورہندکی پاکیزگی،اسکی اعلی وارفع مقدس مقام کوگرانے لگیں، تواس ملک کی بقاء وترقی پرانتہائی سنگین سوالات کااٹھنالازمی ہے۔یقیناً ملک میں ہندوتواوادیوں،آرایس ایس کافلسفہ ماننے والوں کی کمی ہے۔انسانی اقدار،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،محبت امن وامان ،کثرت میں وحدت ہمارادیرینہ اثاثہ ہے۔اسی کے مدنظرہمارے بزرگوں نے ملک کی آزادی کے بعد ملک کوچلانے کیلئے دستوراورآئین میں انسانی اقدار،سیکولرزم،جمہوریت،شوشلزم کوشامل رکھا۔دستورہندکے ابتدائیہ ہی میں انسانی اقدارکوخصوصی درجہ دیاہے۔
ہندوتواکاچلن دینے والی آرایس ایس اپنے قیام کے روزاول ہی سے ۱۹۲۵؍ہی سے ملک کوہندوراشٹربنانے کیلئے اُتاروہے۔جس کاجمہوریت ،سیکولزام پریقین نہیں،ہٹلرومسولینی ان کے ہیروہیں۔انسانی اقداراورانسانیت سے ان کونفرت ہے۔مہاتماگاندھی کوہندوتواوادی گوڈسے نے قتل کیا۔آج مرکزمیں ہندوتواوادیوں کی بلاشرکت غیرے حکومت ہے۔اسی کے ساتھ متعددصوبوں میں ہے۔اسی کیساتھ متعددصوبوں میں اگرغیرہندوتواوادی سیکولرپارٹیوں کی حکومت ہیں بھی تومغربی بنگال میں ممتابنرجی،بہارمیں نتیش کماراورلالوپرسادکی طرح ہندوتواوادیوں کے خلاف نیک نیتی کے ساتھ سیکولرلیڈران ایساکرتے نظرنہیں آتے۔سیکولرزم،شوشلزم پرنام نہادسیکولرسماجوادی ملائم سنگھ وان کی سماجوادی پارٹی،سماجواد،جمہوریت اورسیکولرزم پرانتہائی منافقت کررہی ہیں۔پورے ملک میں ملائم سنگھ سے بڑھکرکوئی اورمنافق سیاستداں نہیں؂
ہیں کواکب کچھ نظرآتے ہیں کچھ 
دیتے ہیں یہ دھوکہ بازی گرکھلا
مرکزمیں بی جے پی کے اقتدار میں آنے ہی میں نہیں بلکہ زوال پذیرہوتے ہندوتواکوعروج میں لانے میں مہاشے ملائم سنگھ کاہاتھ نظرآتاہے۔مندرمسجدکامدعاگرم تھا۔غالباً۱۹۸۹؍میں ملائم کی بظاہرسیکولرحکمت عملی نے ملک اورخاص کریوپی میں ہندوتواکوتقویت دی۔نیزگذشتہ پارلیمانی الیکشن کے وقت یوپی میں ملائم سنگھ کی حکومت تھی۔مظفرنگرمیں باربارفرقہ وارانہ فسادات ہوئے،بارباراقلیتوں کی جان ومال کانقصان ہوا،حتی کہ مہاجرکیمپ میں لٹے پٹے کمزورافرادکوانتہائی ٹھنڈی میں باہرکردیا۔ان کے کیمپوں پربل ڈوزرچلائے،ہندوفرقہ پرستوں کوقابومیں رکھنے کیلئے پولس کومعیاری ہدایتیں تک نہ دیں۔ہندوتواوادیوں کوزہریلی منافرت بھری تقاریرکی آزادی تھی۔ان پرسماجوادی کاکنٹرول نہ تھااکثرعین الیکشن پرہی فرقہ وارانہ فسادات ہواکرتے ہیںیہ ہندوتواوادی حکومت کے بننے میں تعاون کرتے ہیں۔ملائم سنگھ اگرمظفرنگرفسادات میں دستوری فرائض ایمانداری سے کرتے توپورے یوپی سے غیرمتوقع طورپر۸۵؍سیٹوں پراکثروبیشتربی جے پی کامیاب نہ ہوتی۔یوپی کی کامیابی نے مرکزمیں ہندوتواکوحکومت بنانے میں آسانی فراہم کردی۔یوں ملائم سنگھ نے ملائم رہتے ہوئے،پھولوں سے سجاکرسنہری تھال میں رکھکرآرایس ایس کی نورنظر بی جے پی کومرکزمیں حکومت بناکرانتہائی مستحکم پوزیشن دے دی۔
کانگریس کے اصولوں ،تعلیمات میں سیکولرزم،سماجوادی ،اخلاقیات شامل ہیں،انسانی اقدار،شوشلزم سے جمہوریت سے بھرپوردستور،آئین ہندبنانے میں کانگریس کارول جتنااہم وتاریخی رہاہے اتناہی ان انسانی اقدارپراسکی منافقت بھی رہی ہے۔اگروہ دستوری وآئینی حق اداکرتی توآج ملک پراورمتعددصوبوں میں بی جے پی کی حکومت نہ ہوتی،اگریہ کہاجائے توغلط نہ ہوگاکہ ہندوتواوادیوں کوغذاوخوراک دینے کاکام کانگریس نے بخوبی انجام دیا،ہندوتواکے ہاتھوں انسانی جان ومال کی تباہی ہوتی رہی،آج وہ اقتدارمیں ہیں۔آخرکس منہ سے آج راہل گاندھی ،سونیاگاندھی اورکانگریس ہندوتوااورآرایس ایس کے خلاف بڑھ چڑھ کربول رہے ہیں۔مودی کوکانگریسی موت کاسوداگرلفظوں میں کہتے رہے۔آج موت کاسوداگرکرّوفرکے ساتھ مرکزمیں براجمان ہے۔
جیل سے رہائی کے بعدکنہیاکمارکی بصیرت آمیز۵۰؍منٹ کی تقریرسے قبل،دن میں پارلیمنٹ میں راہل کی طویل تقریرسنی،بی جے پی آرایس ایس ،ہندوتوا،مودی کی ناکامی پربہت کچھ بولے۔مظلوم طلباء کی حمایت میں بھی بولے۔مگرراہول کی تقریرپرہم کچھ زیادہ پراُمید نہ تھے کہ یہ ہی وہ چشم چراغ ہیں،کانگریسں کے جوملک میں ہندوتواکوبڑھانے کی ذمہ دارہے۔یہ اس سیاسی اکھاڑے کے پہلوان ہیں جن کے دورحکومت میں محض شک وشبہ کی بنیاد پربے شمارمعصوم مسلمانوں کوجیلوں میں سالہاسال رکھاگیا،جنہیں عدالتوں سے باعزت رہائی ملی۔ہندوتواوادیوں کے خلاف قانونی اقدامات کرنے کے بہت سارے دستوری جوازتھے۔سمجھوتہ ایکسپریس،اجمیربم دھماکہ،مکہ مسجد دھماکے،مالیگاؤں دھماکہ۔اعلی پولس آفسرہیمنت کرکرے نے ہندوتواوادیوں کے چہرے سے نقاب ہٹادی ۔جب تک یوں کہاجاتاتھا۔اسلام دہشت کی تعلیم نہیں دیتامگربم دھماکوں میں پکڑے جانے والے سبھی مسلمان ہیں۔اب کہاجانے لگا،آتنگ وادکاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔
بہرکیف ملک میںآج کے اس انتہائی پرآشوب دورمیں مودی اورہندوتواکے بڑھتے ظالمانہ قدم کوروکنے میں اپوزیشن پارٹیاں بالخصوص ممتابنرجی،کیجریوال،نتیش کمار،لالوپرساد کوچھوڑکر اکثروبیشترسیکولرپارٹیاں اورلیڈران جیسے سرفہرست ملائم سنگھ،شردپوار،چندربابونائیڈواورسب سے بڑھکرکانگریس پارٹی وغیرہ،انتہائی بونے نظرآرہے ہیں۔بڑھتی عدم رواداری عدم تشدد،بڑھتے آرایس ایس کے قدم اورہندوتواکے خلاف لاتعدادقلم کاروں،ادیبوں،دانشوران کامیدان عمل میں آنا،اپنے سرکاری اعزازات کاواپس کرناانتہائی اہمیت وافادیت کاقدم ہے۔اسی کے ساتھ طلباء بھی میدان عمل میں ہیں جوخوش آئندبات ہے۔
جواہرلال نہرویونیورسٹی کے طلباء لیڈرکنہیاکمارکامرکزی ہندوتواوادی مودی سرکارکے خلاف میدان عمل میںآنا،گھٹاکے بادلوں میں اُمیدکی زبردست کرن ہیں۔جیل سے کنہیاکی رہائی کے بعدان کا طلباء سے خطاب انتہائی بصیرت آمیزرہا۔ملک کے انتہائی سلگتے مسائل اورمودی سرکارکی ناکامی کے ساتھ آرایس ایس کامضرفلسفہ ہندوتواکے بڑھتے قدم پرمعیاری حقائق رکھے،کنہیاکماراپنی پہلی تقریراوراخبارات اورٹی وی چینلوں پرمودی سرکار،ہندوتواکی مخالفت اورمظلوموں ،مہنگائی سے کچلے جارہے عوام،اقلیتوں ،کسانوں،فوجیوں پراپنی باتوں سے کسی بھی سیاسی لیڈرسے زیادہ عوام کے دل ودماغ پرمثبت طریقہ سے چھاگئے ہیں۔مظلوم،معصوم،دکھ جھیلتے عوام اورطلباء کے سامنے کنہیاکمارکی شخصیت ایک نجات دہندہ لیڈرکی بنتی جارہی ہے جوانہیں ان کے سنگین مسائل سے آزادی دلوائے گا۔کنہیاکمارکی بڑھتی مقبولیت سے ہندوتواوادیوں کے خیمے میں گھبراہت ومایوسیاں ہیں۔وہ کنہیاکی مدلل ٹھوس ومستندباتوں کاجواب معیاری مناسب طریقہ سے نہیں کررہے ہیں۔کوئی اسے گولی سے مارنے کی بات کررہاہے توکوئی اسکی زبان کاٹنے کی بات کررہاہے توکوئی اسے جناح سے تعبیرکررہاہے،نہیں ایساہرگزنہیں ہے ،کنہیاکمار تودستوری تحفظ اورعوام کوملک سے نہیں بلکہ ملک میں مہنگائی،غریبی،بے کاری،اوراستحصال سے آزادی کی بات کررہاہے۔بابائے قوم مہاتماگاندھی کی لائن پرچل رہاہے،وہ توگاندھی وادی ہے یقیناً وہ ایک نیاجناح نہیں ایک نیاگاندھی کااوتارہے گویا،وہ گوڈسے ،ہیگڈیوار،ساورکر،گووالکر،جیسے ہندوتواوادیوں کوچیلنج کیساتھ بے شماربرائیوں کی جڑآرایس ایس کے خلاف آخرتک لڑائی جاری رکھنے کی بات کررہاہے۔روہت ویمولاکی ہندوتواوادیوں کے ہاتھوں خودکشی اورکنہیاکمارپرہندوتوادیوں کے جھوٹے الزامات ،ان سے ملک میں ایک نئی آزادی کوہندوتواوادی روک نہیں سکتے؂
لاکھ آندھیاں چلیں لاکھ بجلیاں گریں 
وہ پھول کھل کررہیں گے جوکھلنے والے ہیں 
ایک نئی آزادی کی لڑائی،جوکنہیاکمارنے شروع کی ہے اس میں قطاردرقطاربڑی بھاری تعداد میں بناامتیازمذہب وبھیدبھاؤسے لوگ شامل ہورہے ہیں۔ہم تماشائی نہیں،ہم بھی اس میں شامل ہوں،یہ وقت کی پُکارہے۔
جاگ اے انساں جاگ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا