English   /   Kannada   /   Nawayathi

شریعت اسلامیہ کو نقل سے دیکھیں،عقل سے نہیں!

share with us

شریعت اسلامی کا مدار فوزوفلاح اخروی ہے، یہی بنیادی فرق اسلامی احکامات اورعدالتوں واسمبلیوں کےقوانین کے مابین ہے جس کی وجہ سے دنیوی عدالتیں تمام حقوق واحوال کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں،
PERSONAL LOW
شخصی و ذاتی احوال
Common Low
مشترکہ قانون،جو ملک کے تمام باشندوں پر یکساں نافذ ہوتے ہیں،لیکن شریعت مطہرہ اس تقسیم کو نہیں تسلیم کرتی بلکہ شریعت کے پیغامات ہمہ جہت و عالمگیر اور معاشرت و معاملات،تہذیب و ثقافت،اجتماعی و انفرادی،خانگی وبیرونی،ملکی وملی سیاسی وسماجی الغرض تمامہائے شعبہائے حیات انسانی کو پیش آنے والے احوال و مسائل کو محیط ہوتے ہیں،
ہمارے ملک عزیز میں بنیادی طور پر رائج "سول کوڈ" سےدو قسم کے احوال و قوانین نافذ ہوتے ہیں،"CIVIL CODE"جس میں یقینی طور پر "criminal CODE"یعنی جرائم پر تادیبی قوانین ملک کے ہر ایک باشندے کے لئے برابر ہیں،اس میں نسل و رنگ،مذھب و مسلک،ذات پات کی وجہ سےکوئی تفریق و امتیاز نہیں ہوتا،البتہ سول کوڈکا ہی ایک حصہ personal LOWکہلاتا ہے جو ملک کی مختلف اقلیتوں کو ان کے مذھب کی وجہ سے ملتا ہے جس میں مسلمان بھی شامل ہیں،جن کو ان کے مذھبی احکامات کی وجہ سے بعض شعبوں میں اختیارات ملتے ہیں کہ عائلی مسائل"نکاح و طلاق و خلع،ایلاءوظہار،وقف و رضاعت" جیسے معاملات اگر ملکی عدالتوں میں دائر کئے جائیں اور دونوں فریق مسلمان ہوں تو عدالتیں اسلامی قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنے کے پابند ہونگی،
انہیں قوانین کے مجموعے کوMUSLIM PERSONAL LOW یعنی مسلم پرسنل لاء کی آزادی کہا جاتا ہے.اور مسلم پرسنل لاء پر صرف نظری نہیں بلکہ عقلی و اعتقادی طور پر یقین و اطمینان رکھنا ہر مسلمان کا دینی و اسلامی فریضہ ہے نیز شریعت کےکلیات میں کسی بھی طرح کا تغیر وتبدل ناممکن ہے،البتہ جزئیات وفروعات میں فقہ اسلامی واسلامک لاء پر یدطولی رکھنے والےحضراتِ مجتھدین و مفتیان ہی غور و فکر کرکے کلیات سے مسائل کا استنباط و و استخراج کرسکتے ہیں،ٹھیک اسی طرح مسئلہ مسلم پرسنل لاء کا یعنی مسلمانوں کےعائلی حقوق و مسائل کا ہے. جس کے اصول و کلیات قرآن و حدیث کی روشنی میں پتھر کی لکیر ہیں اور جزئی مسائل کی تخریج علماء و فقہائے دین کرسکتے ہیں،عقل و فنون کا ان مسائل میں کوئی عمل دخل نہیں،ہمارے ملک ہندوستان میں عرصے سے مسلم پرسنل لاء میں روشن خیال دانشور حضرات اپنی عقل و نظر کا استعمال کرکے عائلی معاملات پر انگلیاں اٹھاکر ملت اسلامیہ کے لئے پریشانی کا سبب بنتے آرہے ہیں،کبھی وہ تین طلاق کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں،کبھی نان و نفقہ کے مسائل میں گھس کر علامہ گوگل بنناچاہتے ہیں تو کبھی چارشادیوں پر اعتراض کرتے ہیں،عدالتوں میں کیس دائرکیاجاتا ہے یہ مالیخولیائی مفکرین اسلام کے محکمات کی مخالفت کرکے تعلیمات اسلامی کو دقیانوسی ثابت کرکے اپنے لئے فخر کی بات سمجھتےہیں،
شاہ بانوکیس اسی کا شاخسانہ تھا،ایسا ہی کچھ اس وقت ہوا جب ایک غیر
سرکاری تنظیم کے پروگرام میں شرکت کرتے ہوئےکیرالہ ہائی کورٹ کے جسٹس "بی،کمل پاشا" نے خواتین کے حقوق پر بات کرتے ہوئے نہایت بھونڈا،غیر معقول و غیردانشمندانہ قیاس پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب مرد چار شادیاں کرسکتے ہیں توعورتیں چار شادیاں کیوں نہیں کر
سکتیں،خود ساختہ مساوات وتحفظ خواتین کے علمبردار بنتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام نے عورتوں سے بہت سارے مسائل مثلاً جائداد و نکاح وغیرہ میں انکےحقوق چھین لئے ہیں،اسی پر بس نہیں اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے مسلم پرسنل لاءکی دھجیاں اڑانے کی کوشش کی،اور ان سب کےلئے علماء و مذھبی پیشواؤوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں کو ذمہ دار ٹھہرایا،ایسا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی اس طرح کےکچھ دانشوروں نے اپنے متنازع بیانات سے کھلبلی مچانے اور سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے،پر سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ جسٹس بی.کمل پاشا یا دیگر معترضین کیا کبھی یہ برداشت کرپائینگے کہ ان کی اپنی خواتین(مائیں،بہنیں،اور دیگر رشتہ دار) کو ایک ساتھ چار چارمردشادی کرکےاستعمال کریں،اور ان کے بچے کا نسب بھی مجھول ہوجائے اور وہ بن باپ کے کہلائیں اگر ان کےضمیر پران کے عقل نےاس درجہ گھر کررکھا ہے توانہیں اس طرح کی بےحیائی و کم عقلی پر مبنی اعتراضات کرنے کا جواز ملتا ہے،لیکن شریعت محکمہ نے عورتوں پر مردوں کی فضیلت کاصاف صاف اعلان کیا ہے"الرجال قوامون علی النساء"اور اس فلسفے میں انسانوں کےلئے ہزاروں حکمتیں و مصلحتیں پوشیدہ ہیں،جن کوادنی سی عقل والا انسان بھی تجربات ومشاھدات کے آئینے میں پرکھ سکتا ہے،
اسی لئے روشن خیال دانشوروں کے طبقے سے یہی گزارش ھیکہ خدا کے واسطے فقہ اسلامی وشرعی احکامات میں اپنے فن و عقل کے ذریعہ مداخلت ناکریں اور عقل کی کسوٹی پر اسلام کو نارکھیں بلکہ "آمناو صدقنا" کو وطیرہ بناتے ہوئے ملک و ملت کے اجتماعی مسائل پرآواز اٹھائیں اور جو کام جس کا ہے اسی کے حوالے کردیں،کیونکہ ہم سب نےاسلام کا کلمہ پڑھا ہے جس کا مطلب یہ ھیکہ ہم سب نےاپنے آپ کو مکمل طریقے سے اللہ کے حوالے کردیا ہے اب ہم خدائی حکم کے سامنے اپنی عقل کوطاق پررکھ کر"سمع و طاعت"کا مظہر بنیں گے.
اخیر میں ملک کی عدالت عظمی"سپریم کورٹ"سے گزارش ھیکہ وہ اپنی تمام ذیلی عدالتوں اور ججوں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ مسلم پرسنل لاء کاتحفظ کریں ناکہ اس میں مداخلت، کیونکہ پرسنل لاءکےخلاف ججوں کی ذاتی رائے بھی عدالت عظمی و آئینی دستور کامذاق اڑانے کے مترادف ہے.

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا