English   /   Kannada   /   Nawayathi

بابری مسجد کی شہادت سے مجوزہ صوفی کانفرنس تک

share with us

اِسی لئے اِن دونوں(سنگھ پریوار و نرسمہا راؤ) سے مسلمانوں کی ناراضی اپنے شباب پر تھی ۔جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔نرسمہا راؤ لابی کو اِس کی سخت فکر لاحق ہوئی کہ مسلمانوں کی شدید ناراضی کانگریسی کشتی کو لے ڈوبے گی۔ ۱۹۹۶ء کا پارلیمانی الیکشن اس کے لئے موت و زیست کا سوال تھا۔ اور کچھ ایسا ہی ہُوا بھی کہ مسلمانوں نے ۱۹۹۶ء کے پارلیمانی الیکشن میں کانگریس کو ایسا سبق سکھایا کہ مدتوں وہ سبق اسے یاد رہے گا۔
۱۹۹۹ء کی بات ہے کہ دہلی کی ایک ملاقات میں جب مسٹر ملائم سنگھ یادو صدر سماج وادی پارٹی سے مَیں کچھ مسلم مسائل پر گفتگو کر رہا تھا تو دَورانِ گفتگو انھوں نے ایک موقع پر کچھ جَھلَّا کر کہا کہ:ہم سے ہی سارا حساب آپ لیں گے؟ کانگریس سے حساب نہیں لیں گے؟ میں نے بَرجستہ اور بِلا تکلُّف جواب دیا کہ:لے لیا ہے اس سے حساب۔جبھی تو سڑک پر گھوم رہی ہے۔ اب اس سے اور کیا حساب لیں؟ ملائم سنگھ نے بات کا رُخ بدل کر دوسری بات شروع کردی۔
کانگریس کی نرسمہا راؤ لابی نے ۱۹۹۵ء میں پورے ملک کا سَروے کرایا کہ :ہندوستانی مسلمانوں کا کون سا طبقہ اکثریت میں ہے؟سَروے کا مقصد یہ تھا کہ: اس اکثریتی طبقہ کو رام کرکے ۱۹۹۶ء کا پارلیمانی الیکشن کسی طرح جیت لیا جائے۔سَروے رپورٹ میں بتایا گیاکہ: ملک میں’’بریلوی خانقاہی‘‘ مسلمانوں کی تعداد اَسِّی (۸۰) فی صد ہے۔بَس پھر کیا تھا کروڑوں روپے کا بجٹ مختص ہوگیا کہ اس اکثریتی طبقے کے بعض زیر دام آنے والے مذہبی حضرات کی خدمت میں مختلف ناموں اور مختلف طریقوں سے نذرانہ شکرانہ کی شکل میں کچھ پیش کرنے اور اپنی بات آگے بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ رابطہ کی خدمت انجام ینے کے لئے ایک پہنچے ہوئے مَہاشے جی منتخب ہوئے کہ بااثر مذہبی حضرات سے رابطہ کرکے انھیں کانگریس کے حق میں رام کریں۔ اس رابطہ کا سلسلہ کہاں سے اور کیسے شروع ہوا ؟اور کیا کیا مَراحل پیش آئے ؟یہ تو اندرونی بات ہے جسے متعلقہ افراد ہی جانتے ہوں گے۔
لیکن! باضابطہ مُہم شروع ہونے سے پہلے ایک روز ایسا ہوا کہ:لگ بھگ مئی جون ۱۹۹۵ء میں ایک نمائندۂ خصوصی میرے آفس (مٹیا محل دہلی ) میں تشریف لائے۔ اورتھوڑی دیر مسلم مسائل پر گفتگوکرنے کے بعد انھوں نے ارشاد فرمایا کہ: کسی اطمینان کی جگہ چلتے ہیں تاکہ تفصیل سے کچھ گفتگو ہوسکے۔ چنانچہ وہ مجھے لے کر پرگتی میدان(نئی دہلی) پہنچے اور وہاں ایک جگہ بیٹھ کر تمہیدی گفتگو کرنے کے بعد انھوں نے فرمایا کہ: ’’اہلِ سنَّت کی کوئی مضبوط و متحرک ہندوستان گیر تنظیم نہیں ہے ۔جب کہ دیوبندیوں کی جمعیت علماء پورے ملک میں سرگرم ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اہلِ سنَّت کی ایک ایسی تنظیم بنائی جائے جواس سے بھی بڑی ہو۔ یہ کام آپ کر سکتے ہیں۔ اور اِس کے لئے فنڈ کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘
اس بڑی پیش کش کے سننے کے ساتھ ہی میری’’ چَھٹی حِس ‘‘بیدار ہوچکی تھی۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ:’’آپ کا خیال تو اچھا ہے ۔لیکن چند ماہ بعد ہی پارلیمانی الیکشن کی ہَماہَمی شروع ہونے والی ہے۔ اِس لئے بہتر ہے کہ: ابھی اِس بات کو یہیں رہنے دیں اور الیکشن ختم ہونے بعد کسی روز مل بیٹھ کر تفصیلی گفتگو کر لیتے ہیں اور ایک لائحۂ عمل بنانے کے بعد کام شروع کر دیا جائے گا۔‘‘ میرا جواب سن کر وہ کچھ زیادہ ہی مُرجھائے نظر آئے اور مجلس برخاست ہوگئی۔ مَہاشے جی کا ایک روز فون آیا اور بڑے تپاک سے فلسفیانہ انداز میں سلسلۂ کلام شروع کیا اورایک گھنٹہ بیس منٹ تک گفتگو کرتے رہے۔ جس میں خاص زور اور اِصرار اِس بات پر تھا کہ: نرسمہا راؤ سے ملاقات کر لیجیے۔ اس کے ساتھ ہی بڑے مہذَّب انداز میں(بینَ السُّطُور) کچھ خصوصی عنایتوں اور نوازشوں کی بھی پیش کش تھی۔میں نے دوٹوک انداز میں مَہاشے جی کو جواب دیا کہ:’’بابری مسجد کی شہادت میں کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح سے نرسمہا راؤ کا بھی ہاتھ ہے۔ اِس لئے مَیں راؤ سے ملاقات نہیں کر سکتا۔‘‘
انھیں ایام(۱۹۹۵ء) میں ایک صاحب جو مِلِّی مسائل میں برسوں سے دہلی میں سرگرم تھے اردو صحافی بھی ہیں وہ میرے پاس (مٹیا محل دہلی) آئے اوردیر تک مجھ سے گفتگو کرتے رہے۔ انھیں بھی میں نے جواب دیدیا۔ وہ مایوس و نامراد واپس لوٹے۔ صحافیِ مذکور آج کل بھی ذاکر نگر (جامعہ نگر نئی دہلی ۲۵) میں چلتے پھرتے اور ٹہلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ابھی اِسی مارچ (۲۰۱۶ء) کے آغاز میں وہ اچانک مجھ سے ملے اور ۱۹۹۵ء کی اپنی کوشش اور ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ: ’’آپ کسی طرح قابو میں نہ آسکے ۔ورنہ آپ کے لئے معاملہ بہت لمبا تھا۔‘‘
عجز و نیاز کے ساتھ بارگاہِ اِلٰہی میں سجدۂ شکر ادا کرتا ہوں کہ:اُس نے اپنے ایک بندۂ ناتواں کو ایک بہت سنگین امتحان میں کامیاب و با مُرادبنایا ۔اور:
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جُنبِش میں
جسے غرور ہو آئے مجھے شکار کرے
دو ڈھائی ماہ پہلے ’’عُلما و مشائخ بورڈ‘‘ کے ایک نمائندۂ خصوصی میرے پاس (دارُ القلم دہلی) آئے اور انھوں نے انٹرنیشنل صوفی کانفرنس و سیمینار بِالْخُصوص سیمینار کے تعلق سے گفتگو کی۔
سب کچھ سننے کے بعد میں نے صاف الفاظ میں اپنی شرکت سے انکار کردیا۔جب کہ اُس وقت اِس صوفی کانفرنس و سیمینار کے تعلق سے کوئی چرچا تھا نہ ہی لوگوں کو اس کے بارے میں کچھ علم تھا۔ خود مجھے بھی پروفیسر طاہر القادری اور شری نریندر مودی کی شرکت کا کچھ علم نہ تھا۔نمائندۂ خصوصی کی طرف سے عدمِ شرکت کی وجہ پوچھے جانے پر میں نے جواب دیا کہ:’’دہلی کے تیس (۳۰) سالہ سیاسی و صحافتی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں یہ رائے قائم کی ہے اور یہ فیصلہ مَیں نے کیا ہے۔‘‘بعد کی ایک گفتگو میں اسی نمائندۂ خصوصی نے کہا کہ بورڈ کے صدرِ محترم آپ سے ملاقات کے لئے دارُا لقلم آنا چاہتے ہیں ۔میں نے کہاکہ :وہ میرے پاس تشریف لائیں ۔یا۔ مَیں ان کے پاس جا کر ملاقات کروں۔ یہ توبڑی اچھی بات ہے ۔مگر اِس وقت اِس موضوع پر کوئی ملاقات و گفتگو مناسب نہیں ۔یہ جواب میں نے اِس لئے دیا کہ :اپنے فیصلہ اور موقف سے کسی قیمت پر مَیں دست بردار نہیں ہو سکتا تھا اور وہ اپنی منزل کی طرف اتنے آگے بڑھ چکے تھے کہ قدم پیچھے نہیں ہٹا سکتے تھے۔ ایسی صورت میں اِس موضوع پر کوئی ملاقات و گفتگو نہ صرف یہ کہ بے سود رہتی بلکہ خطرہ اِس بات کا تھا کہ: گفتگو کے کسی مَرحلے میں کسی طرف سے کوئی تلخی اور پھر بَدمَزگی نہ پیدا ہو جائے۔اور کسی کے تعلق سے کوئی نازیبا تبصرہ کسی کی زبان سے نہ نکل جائے۔سیاسی پارٹیاں جس کو قریب کرکے اس سے کچھ کام لینا چاہتی ہیں اُس کے مزاج و معیار کو سامنے رکھ کر ہی کوئی بات کرتی اور تجویز پیش کرتی ہیں۔ یا۔ اُس کی تجویز پر غور کرتی اور اسے آگے بڑھاتی ہے۔چنانچہ مقدس شخصیات کے لئے کوئی تقدُّس نُما عنوان تیار کرتی ہیں اور پھر انھیں اپنے دامِ فریب کا شکار بناتی ہیں۔جسے فریب خوردہ لوگوں کو سمجھنے میں اکثر اوقات کافی دیر ہو جاتی ہے۔ اور آنکھ اُس وقت کھلتی ہے جب وہ کسی دَلدل میں پھنس چکے ہوتے ہیں۔
انٹرنیشنل صوفی کانفرنس و سیمینار (۱۷؍ تا ۲۰؍ مارچ ۲۰۱۶ء۔ نئی دہلی) کی تیاریاں زور وشور کے ساتھ جاری ہیں۔ ملکی و غیر ملکی بہت سے عُلما و مشائخ کی آمد و شرکت کا چرچاہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام و خواص کے ذہنوں اور ان کی محفلوں میں یہ سوالات بھی گردش کر رہے ہیں کہ:
(۱)سیکڑوں مدعو حضرات بِالْخُصوص غیر ملکی مندوبین کی آمد و رفت فائیو اِسٹار ہوٹلوں میں قیام و طعام اور متعلقہ اِنتظامات کے اِخراجات کروڑوں میں ہیں۔ اس کے لئے مسلمانوں کے مالی تعاون اور چندہ کی کوئی خبر نہیں۔ آخر اتنی خطیر رقم اور اتنا بڑا فنڈ کہاں سے آرہا ہے؟
تعلیم و تجارت و صنعت و حرفت اور رفاہی اُمور کے لئے مختلف وزارتوں اور محکموں کی سرکاری مراعات اور طرح طرح کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے اورفائدہ پہنچانے کے قانونی و جمہوری عمل کی بات الگ ہے ۔اس کا باضابطہ تحریری ریکارڈ اداروں تنظیموں اور وزارتوں و محکموں کے دفاتر میں موجود ہوتا ہے۔ جنھیں لینے اور دینے والے فریق بِلا جھجھک دوسروں کو بتاسکتے ہیں۔ کسی بھی حکومت کی طرف سے اس طرح کا تعاون ملنا اور اسے حاصل کرنا سارے ہندوستان میں رائج و معمول ہے جسے کوئی شخص غلط اور بُرا نہیں سمجھتا ہے۔ مگر خالص مذہبی پروگرام منعقد کرنے کے لئے کوئی بھی حکومت کسی طرح کا بھی کوئی مالی تعاون کر ہی نہیں سکتی ہے۔ ہاں! صرف ایک صورت ہے کہ بِلاحساب و کتاب کا پیسہ جس طرح ایم ایل اے اور ایم پی کے الیکشن میں پارٹیاں خرچ کرتی ہیں اور انتخابی امیدوار اپنے ووٹروں پر خرچ کرتے ہیں اُس طرح کی کوئی صورت اختیار کی جائے ۔ مگر کہاں سے آرہا ہے؟کہاں جا رہا ہے؟کتنا آرہا ہے اور کتنا جا رہا ہے؟لینے دینے والا کوئی فریق اِس طرح کے سوالات کا جواب کُھل کر دینے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتا۔یعنی مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ: غالباً ’’نامعلوم ذرائع‘‘ کے کثیر سرمایہ سے اِس صوفی کانفرنس و سیمینار نئی دہلی کا اِنعقاد ہو رہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کے کسی دَور میں صوفیہ و مشائخ کے کسی طبقہ نے ’’مشکوک بلکہ مذموم ذرائع‘‘ سے تصوف کی کبھی کوئی خدمت کی ہے؟ اور ایسی کسی خدمت کو کسی صوفی مشرب میں کبھی رَوَاسمجھا گیا ہے؟
(۲) پروفیسر طاہر القادری بانیِ ادارہ مِنْہاجُ الْقُرآن لاہور کے بعض مذہبی تجاوُزات و اِنحرفات ایسے ہیں کہ :پاکستان کے ذِمَّہ دار و مستند عُلما و مشائخ میں سے کسی ایک بھی ایسی معروف و مُعتمد شخصیت۔ یا۔ کسی مرکزی سنِّی ادارے مثلاً: دار العلوم حِزبُ الاحناف لاہورو جامعہ نظامیہ رضویہ لاہورواَنوار العلوم ملتان اور دارالعلوم امجدیہ کراچی و دارالعلوم نعیمیہ کراچی وغیرہ میں سے کسی کا نام پیش نہیں کیا جاسکتا جس کی کوئی تائید و حمایت پروفیسر طاہر القادری کو حاصل ہو۔ بلکہ اختلاف اور شدید ناراضی کا ماحول پایا جاتا ہے۔پروفیسر طاہر القادری کے تعلق سے کم از کم جو بات کوئی شخص کہہ سکتا ہے وہ یہ کہ ’’مشکوک و مُتَّہم ‘‘ شخص ہیں۔اور مشکوک و مُتّہم شخص۔ یا۔ جگہ سے دور رہنے کی ہدایت ہے۔ جیسا کہ اہلِ سنَّت کے بزرگ ترین عالم شیخُ الاسلام حضرت مولانا سید محمدمدنی میاں اشرفی کچھوچھوی دَامَ ظِلُّہٗ الْعَالی نے اپنے ایک (مُکالَمَاتی )تازہ بیان میں پروفیسر طاہر القادری کے تعلق سے یہی ہدایت فرمائی ہے۔ایسی صورت میں پروفیسر طاہر القادری کو اِس کانفرنس و سمینار میں مدعو کرکے خواہ مخواہ کے اِختلاف و اِنتشار کو دعوت دینے اور ہندوستان کے بے شمار عُلماے اہلِ سنَّت کو ناراض کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اور یہ بھی ایک عجیب حادثہ ہے کہ وہابیوں کی امامت قبول کرنے والے طاہر القادری کو نہایت سختی کے ساتھ اِنکارِ امامت کا اعلان کرنے والے بورڈنے دعوتِ بلا ضروت وحاجت دے کر دورۂ ہند اور شرکتِ کانفرنس وسیمینارکی زحمت ہی کیوں دی؟
(۳) وِگیان بھون نئی دہلی ایسی وی آئی پی جگہ ہے جہاں شاید ہی اب تک کسی مسلم تنظیم کا کوئی پروگرام ہوا ہو۔اِس وِگیان بھون کے انتخاب کی حکمت و مصلحت یہی سمجھ میں آتی ہے کہ شری نریندر مودی وزیر اعظم حکومتِ ہند صوفی سیمینار کااِس وِگیان بھون میں اِفتتاح کرتے ہوئے اِفتتاحی خطاب بھی فرمائیں گے ۔جس کا منتظمین کی طرف سے باضابطہ اعلان ہو چکا ہے۔جب کہ تصوف کا نفرنس و سیمینار میں کسی سیاسی لیڈر کی شرکت کی ضرورت ہی کیا تھی؟اورآخر صرف ایک سیاسی شخصیت کو اِس پروگرام میں مدعو کرنے اور اسے خطاب کرنے کا موقع دینے کا مقصد کیا ہے؟
شری نریندر مودی کو بحیثیتِ وزیر اعظمِ ہند مدعو کیا جاسکتا تھا تو شری کیجرِیوال (صدر ’’عام آدمی پارٹی‘‘ )کو بحیثیتِ وزیر اعلیٰ دہلی کیوں مدعو نہیں کیا گیا؟ اور بعض دوسری سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کو بھی تو مدعو کیا جا سکتا تھا؟تنہا شری مودی کی شرکت و اِفتتاح و خطاب ایسے سوالات کو جنم دیتے ہیں جن کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ۔اِس کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ سیکڑوں عُلما و مشائخ کے جُھرمٹ میں شری نریندر مودی کی موجودگی اور انھیں خطاب کرتے ہوئے جب کروڑوں لوگ میڈیا کے ذریعہ دیکھیں گے سنیں گے تووہ نہ صرف یہ کہ: گجرات قتلِ عام ۲۰۰۲ء بھول جائیں گے۔ بلکہ بہت سے لوگوں کے نزدیک اِس طرح قابلِ قبول ہوجائیں گے کہ شری مودی کی کشِش انھیں نظریاتی مسلم دشمن بھاجپا سے قریب کردے گی اور بھاجپا مسلمانوں کے سیاسی حلقوں اور مسلم ووٹروں میں اچھی طرح اپنی گھس پیٹھ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی؟
صوفی کانفرنس و سیمینار نئی دہلی کے تعلق سے ایک مختصر ترین تبصرہ یہ ہو سکتا ہے کہ: پروفیسر طاہر القادری پاک و ہند کے مذہبی حلقے میں ایک مخصوص مِنہاجی جِدَّت پسندانہ شہرت کے حامل ہیں۔ شری نریندر مودی ہندو پاک کے سیاسی حلقے میں اپنے قدامت پسند ہندتوا وَادی نظریہ کے لئے مشہور ہیں۔اور اِس کانفرنس و سیمینار کے پلیٹ فارم سے پروفیسر طاہر القادری کو مذہبی قائدِ اعظم اور شری نریند مودی کو سیاسی قائدِ اعظم کی حیثیت سے منظرِ عام پر لانا کسی پوشیدہ حکمتِ عملی کا مقصد نہ ہو تب بھی اس کا نتیجہ تقریباً یہی نکلے گا اور ضرور نکلے گا۔
کاش! اِس صوفی سیمینارو کانفرنس کا محدود پیمانے پر ہی سہی اپنے وسائل و ذرائع سے اِنتظام اور پھر اِنعقاد کیا جاتا تو اِس طرح کے بہت سے سوالات پیدا ہی نہ ہوتے۔ اور سیمینار و کانفرنس کو عُلما و مشائخِ اہلِ سنَّت کی تائید و حمایت عام طور سے حاصل ہوتی اور بھرپور حاصل ہوتی۔امامُ الْھِند حضرت شاہ ولی اﷲ محدِّث دہلوی اور بعض عُلماے خانوادۂ ولی اللّٰھی عزیزی دہلی کی کتب و رسائل میں تحریفات و اِلحاقات کے مذموم عمل اور بعض فرضی و جعلی تحریرات منسوب بہ عُلماے خانوادۂ ولی اللّٰھی عزیزی دہلی کی نشان دِہی کرکے حضرت شاہ رفیعُ الدِّین محدِّث دہلوی کے نواسے کے پوتے سید ظہیرُ الدِّین احمد عُرف سید احمد ولی اللّٰھی دہلوی نے اپنی ایک تحریر میں جس شعر پر اپنی بات ختم کی ہے وہی شعر نذرِ قارئین کرکے مَیں سلسلۂ تحریر کو موقوف کر رہا ہوں کہ:
مَنَتْ آنچہ حق بود گفتم تمام
تو دَانی دِگر بعد اَزیں وَالسَّلام

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا