English   /   Kannada   /   Nawayathi

گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے

share with us

جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بڑی اور چھوٹی مسجدوں کے امام، عیدگاہوں کے متولی، اردو کے ممتاز شاعر اور ایسے مواقع پر بھوکے کتوں کی طرح ہمیشہ دوڑنے والے اور اپنے کو مسلمانوں کا مسیحا بتانے والے اٹل جی کے ساتھ ہوگئے۔ لیکن وہ جنہیں مسلمان کہتے ہیں وہ گجرات کا حساب صاف کرنے سے پہلے نرم نہیں ہوئے اور اٹل جی جنگ ہار گئے۔
یہ ایسی ہار تھی کہ اڈوانی جی اور ان کی پوری ٹیم برداشت نہ کرسکی اور وہ اس کے علاوہ کچھ نہ کرسکی کہ پانچ سال اس نے پارلیمنٹ میں کانگریس کو آٹھ آٹھ آنسو رُلایا اور ایک ایک بل کو پاس کرانے میں سونیا گاندھی نے خون تھوک دیا۔ 2009 ء میں بی جے پی کو اُمید تھی کہ قوم اسے پھر موقع دے گی۔ اڈوانی جی کے سر پر اس نے تاج رکھ دیا اور ان کے ہاتھ میں تلوار بھی دے دی۔ اسے توقع تھی کہ ملک اٹل جی کی شکست کا بدلہ لے گا اور اڈوانی کے تاج کو سونے کا کلس بنوا دے گا۔ لیکن اس الیکشن میں اس سے بھی بری ہار ہوئی۔ اور اس کا نتیجہ ہی وہ تلخی تھی کہ پانچ سال کے بعد ہر کسی کو کہنا پڑا کہ 1952 ء سے آج تک کوئی سیشن اتنا ناکارہ نہیں گذرا جتنا 2009 ء سے 2014 ء کا رہا۔ اڈوانی جی حزب مخالف کے لیڈر تھے ان کی تلوار سُشما سوراج کے ہاتھ میں تھی اور ہر بی جے پی کا ایم پی صرف ایک کام کررہا تھا کہ اجلاس نہیں چلنے دینا ہے۔ اور بار بار ایسا ہوا کہ ایک مہینہ کے لئے اجلاس شروع ہوا اور پورا مہینہ بغیر کوئی بل پاس کرائے ختم ہوگیا۔
2014 ء شری مودی کے نام رہا اور انہوں نے جن ہتھیاروں سے یہ جنگ لڑی ان ہتھیاروں کو 1952 ء سے آج تک کسی نے استعمال نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ملک کے عوام بتائیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ یہ نہ سوچیں کہ اگر چاند ستارے مانگیں گے تو انہیں نہیں ملیں گے وہ تو بس مانگ لیں۔ اور پھر مودی صاحب نے اپنا پٹارہ کھولا جس نے روزگار مانگا اسے روزگار دے دیا، جس نے مہنگائی کی شکایت کی اس کے لئے ہر چیز سستی کردی، جس نے اچھے دن مانگے، اسے اچھے دن دے دیئے غرض کہ جس نے گھوڑی مانگی اسے گھوڑی دے دی اور جس نے ہاتھی مانگا اسے ہاتھی دے دیا۔ انہوں نے وہ باتیں کیں جو عوام کے دل میں تھیں۔ جیسے عوام سمجھ رہے تھے کہ ملک میں سب کچھ ہے بس حکومت بے ایمان ہے۔ کھانے کی ہر چیز اتنی ہے کہ غریب بھوکا نہیں مرسکتا۔ مگر ذخیرہ اندوزوں نے دبا رکھا ہے اور حکومت ان کی سرپرستی کررہی ہے۔ مودی صاحب نے دینے کو چائے والے کا ایسا بیٹا بنایا کہ ملک پاگل ہوگیا اور وہ ہوگیا جس کے بارے میں لوگوں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا کہ کبھی ایک پارٹی کی حکومت بن جائے گی۔
مودی سرکار کا یہ دوسرا سال چل رہا ہے۔ رواج کے مطابق بجٹ سیشن کو صدر نے خطاب کیا۔ ان کا شکریہ ادا کرنے کی تحریک پیش ہوئی اور وزیر اعظم کی حیثیت سے مودی صاحب نے ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر شروع کی۔ انہوں نے جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے اقوال سنائے۔ صدر محترم کی نصیحت یاد دلائی۔ انہوں نے درجنوں بار اس پر روشنی ڈالی کہ ایوان کیا ہے؟ اس میں حکومت کو کیا کرنا چاہئے اور حزب مخالف کو کیسا کردار ادا کرنا چاہئے؟ جیسے ایوان بحث کی جگہ ہے تو بات بحث کی حد میں رکھی جائے تب ہی کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ صدر صاحب کے جملے مودی نے دہرائے کہ ایوان بحث کے لئے ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا اس سے ملک فکرمند ہے۔ وہ چٹکی لینے سے بھی نہیں چوکے اور کہہ دیا کہ کچھ اراکین کی عمر تو بڑھی ہے لیکن اس میں ذہنی پختگی نہیں آئی۔ غرض کہ وہ اپوزیشن سے تعاون بھی مانگتے رہے اور یہ بھی کہتے رہے کہ ان کی حکومت یوپی اے کی ناکامیوں کو بھی ٹھیک کرنے میں لگی ہے۔ اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہمارے کاموں کو دیکھ کر ’’وہ‘‘ کہہ رہے ہیں کہ یہ اتنے کم وقت میں اتنا زیادہ اور اتنا اچھا کام کیسے کرلیتے ہیں؟
وزیر اعظم کی حیثیت سے مودی صاحب کی پوری تقریر اس ایک مطالبہ کے گرد گھومتی رہی کہ ایوان میں ہم جو بل پیش کریں انہیں پاس کرادیا جائے۔ ورنہ ملک کا بھی نقصان ہوگا، عوام کا بھی نقصان ہوگا اور اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور صدر پرنب مکھرجی کی نصیحتوں کی بھی پامالی ہوگی۔
جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جب 2014 ء میں پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس ہوا تھا اس کی رسمی کارروائی کے بعد اڈوانی جی، سُشما سوراج، ونکیا نائیڈو، مرلی منوہر جوشی اور ان تمام بی جے پی کے ممبران سے جو گذرے ہوئے دس برسوں میں بھی ممبر تھے پورے ایوان سے اور پورے ملک سے معافی منگوائی جاتی تھی کہ انہوں نے دس برسوں میں حزب مخالف ہوتے ہوئے ایوان اور عوام کا اتنا نقصان کیا ہے جو ایک صوبہ کا ایک سال کا بجٹ ہوتا۔ وہ سب اس وقت تک معافی مانگتے جب تک قوم انہیں معاف نہ کردیتی۔ لیکن انہوں نے یہ نہ کرکے اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور صدر کے سبق سنانا شروع کردیئے اور یہ بھول گئے کہ انہوں نے اس وقت کیا کیا تھا جب وہ حزب مخالف کے نمائندے تھے؟
ہوسکتا ہے مودی صاحب نے وہ نہ دیکھا ہو جو ہم نے دیکھا ہے کہ ایک تعلقہ دار کے گھر خدمت گاروں کی فوج ہے اور ایک منیجر بھی ہیں جن کے ہاتھ میں پورا نظام ہے۔ وقت بدلتا ہے اور تعلقہ داریاں ختم ہوتی ہیں۔ مگر عادتیں نہیں چھوٹتیں اور نوبت یہ آجاتی ہے کہ نواب صاحب کہلانے والے بس نام کے نواب رہ جاتے ہیں۔ اور وہ منیجر جنہوں نے ہمیشہ اپنی مٹھی میں سب رکھا تھا وہ بھی نواب صاحب کو چھوڑکر چلے جاتے ہیں۔ اور اپنے گاؤں پہونچ کر ہر وہ کام کرتے ہیں جو نواب کرتے تھے۔ لباس، نشست و برخاست اور کھان پان کے ساتھ بیگم اور بچوں کو بھی وہی بناتے ہیں جو برسوں دیکھتے رہے تھے۔
یہ ایک گھر کی کہانی نہیں ہے نہ جانے کتنے ایسے واقعات ہیں۔ یہی کہانی اب پارلیمنٹ میں دہرائی جارہی ہے۔ شری مودی اور ان کے وزیر ایسے ہی خون کے آنسو رو رہے ہیں جیسے سونیا گاندھی، منموہن سنگھ اور راہل گاندھی رویا کرتے تھے۔ اور راہل گاندھی نیز دوسری پارٹی کے لیڈر وہ کررہے ہیں جو اڈوانی جی اور سُشما سوراج کیا کرتے تھے۔ مودی صاحب کی سمجھ میں اتنا آسان سبق نہیں آتا کہ بچہ جس کلاس میں جاتا ہے وہ اسی کلاس کی کتاب پڑھتا ہے۔ ہائی اسکول کے لڑکے کو بی اے کے کورس کی کتاب دے کر اس کا امتحان لینا حماقت نہیں تو کیا ہے؟
اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور صدر محترم نے کانگریسیوں سے نہیں کہا تھا کہ ایوان بحث کے لئے ہوتا ہے۔ وہ سب مودی کمپنی سے کہا تھا۔ مودی کمپنی نے اگر اطاعت کی ہوتی تو بتاتے کہ جب ہم سے کہا کہ ایوان بحث کے لئے ہوتا ہے تو ہم نے مان لیا تھا۔ اور جب کہا کہ بل پاس نہیں ہوں گے تو ملک کا نقصان ہوگا۔ تو ہم نے بل پاس کرادیئے تھے۔ لیکن ہاؤس کا ریکارڈ موجود ہے کہ مودی کمپنی نے کسی کی نہیں مانی تھی اور نہ ہاؤس چلنے دیا تھا اور نہ بل پاس ہونے دیئے تھے تو آج کا حزب مخالف وہ کیسے نہ کرے جو بی جے پی نے ہمیشہ کیا۔ اور بتایا کہ حزب مخالف کو کیا کرنا چاہئے؟ آج راہل کی قیادت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ صرف نقل ہے۔ اور مودی کو اس کی نقل کرنا ہے جو دس برس منموہن کرتے رہے۔ اب قوم نے راہل کو گالیاں دینے کا کام سونپا ہے تو وہ گالیاں دے رہے ہیں اور ہنگامہ کررہے ہیں۔ اور اس قوم نے مودی کو گالیاں کھانے کا منصب عطا کیا ہے تو انہیں بغیر شور مچائے گالیاں کھاتے رہنا چاہئیں۔ رہا ملک کا نقصان تو وہ بھی جتنا مودی کمپنی نے کیا ہے اتنا تو کرلینے دیا جائے اور اگر بہت تکلیف ہورہی ہے تو آج ہی سب سے ہاتھ جوڑکر اور کان پکڑاکر معافی منگوادی جائے۔ اس کے بعد غور ہوگا کہ ’ماردیا جائے کہ چھوڑ دیا جائے۔‘

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا