English   /   Kannada   /   Nawayathi

اچھی حکمرانی کا خواب اوراس کی یہ تعبیر

share with us

چنانچہ جاٹ برادری نے اس کی یاددہانی کے لئے تحریک شروع کی جو دیکھتے ہی دیکھتے تشدد میں بدل گئی۔ ٹرین اورروڈ ٹرانسپور ٹ معطل ہوگیا۔ جابجا ریلوے اسٹیشن ،بسیں وغیرہ کو نذرآتش کردیا گیا۔غیر جاٹ باشندوں کی املاک کو لوٹا اورجلایا گیا۔ غرض یہ کہ پوری ریاست جل اٹھی۔پولیس اور فوج کی فائرنگ میں ڈیڑھ درجن سے زیادہ افراد مارے جاچکے ہیں۔ ہریانہ کی دیکھا دیکھی یوپی، راجستھان اور دیگرریاستوں میں بھی رزرویشن کا مطالبہ زورپکڑ نے لگا ہے ۔راجستھان سے بھی تشدد کی خبریں آرہی ہیں۔ راستے مسدود کرنے کی وبایوپی اوردہلی بھی پہنچ گئی ہے۔
سرکار کی غلط تدبیر:
حکومت حالات کا مقابلہ سچائی کے بجائے عوام کو مغالطہ دے کر کرنا چاہتی ہے اور سرکار سیاسی داؤں پینچ میں مشغول ہوگئی ہے۔ریاستی سرکار نے فوراً اعلان کردیا کہ جاٹ برادری کو اوبی سی میں شامل کرنے کا بل آئندہ اسمبلی اجلاس میں پیش ہوگا ۔مرکزنے ونکیانائیڈو کی قیادت میں ایک کمیٹی بنادی ہے۔ تاثریہ دیاجارہا ہے کہ جاٹ برادری کو ہرحال میں رزرویشن میں شامل کرنے کی تدبیرہوگی، حالانکہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹ کے فیصلے اس کے خلاف ہیں۔ پرتشدد مظاہرین کے سامنے ’’گھٹنے ٹیک دینے‘‘ جیسی کیفیت دیکھ کر دیگر اقوام میں بھی جوش آرہا ہے۔
گزشتہ پارلیمانی الیکشن سے قبل یوپی اے سرکار نے عجلت میں جاٹوں کو اوبی سی کوٹے میں شامل کرلیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے اس قانون کو کالعدم کردیا۔ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ جاٹ برادری ان معیارات پر کھری نہیں اترتی جن سے اس کا استحقاق رزرویشن کے لئے تسلیم ہو۔ یہ بات بھاجپا کو بھی معلوم ہے۔اس کے باوجودلوک سبھا الیکشن سے قبل مودی نے جاٹ برادری سے وعدہ کرلیا۔ انہوں نے دوسرا وعدہ سابق فوجیوں کو ’’ایک رینک ایک پنشن کا‘‘کا کیا تھا۔ فوج میں کیونکہ جاٹ برادری کی بڑی حصہ داری ہے، اس لئے اس کا سروکار ان دونوں وعدوں سے ہے جن کو سرکار نے پورا نہیں کیا ۔ اس لئے جاٹ برادری میں بھاجپا سرکار سے ناراضگی ہے۔ 
یہاں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ’’ایک رینک ایک پنشن ‘‘سے مراد کیا ہے؟ اس کویوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک رینک سے ایک فوجی تیس سال قبل ریٹائر ہوا۔اس وقت اس کی تنخواہ کے میزانیہ پر اس کی پنشن مقرر ہوئی۔ اسی رینک سے دوسرافوجی اب ریٹائر ہوتا ہے جب کہ تنخواہیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ اس کی جو پنشن اب اس کی آخری تنخواہ کے مطابق طے ہوگی وہ سابق والے سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔ فوجیوں کا مطالبہ یہ ہے، اوریہ درست مطالبہ ہے،ایک ہی رینک سے ریٹائر ہونے والے ہرفوجی کی پنشن موجود ہ کے برابر ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ جو غریب تیس سال قبل ریٹائر ہوا وہ تو سو، دوسوروپیہ پائے اورجو اب ریٹائر ہورہا ہے وہ ہزاروں پائے۔ گرانی کا اثر سب پر یکساں ہے۔ ضعیفی میں خرچہ کچھ اوربڑھ جاتا ہے۔یہ اصولی مطالبہ ہے۔ اس کو تسلیم کرنے سے آنا کانی اس لئے کی جارتی ہے کہ اس کا خزانہ پر بار بہت پڑیگا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جس ملک کی حفاظت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے فوجی مطمئن نہیں ، اس کے عوام کیونکر مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں؟ فوجی ہمارے محسن ہیں۔ان کی خبرگیری میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے ۔ لیکن حکومت کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔فوجی کی مورتی پر پھول مالا چڑھادینا اورسرجھکادینا کافی نہیں، ریٹایرمنٹ کے بعد خود اس کی اورڈیوٹی کے دوران اس کی موت کی صورت میں اس کے اہل خانہ کی فکر ہونی چاہئے۔
مودی جی نے جاٹ ریزرویشن کا وعدہ ووٹ کی خاطر کیا تھا۔ سرکاربن گئی تووہ بھول گئے۔اب یہ سوال کیا جارہا ہے کی جاٹ رزرویشن کی کیا ضرورت ہے؟ تو سنئے۔جاٹ برادری کا آبائی پیشہ یا تو کاشتکاری ہے یا فوج اورپولیس کی سروس ۔ پیڑھی در پیڑھی آراضی کی تقسیم درتقسیم کی بدولت اب اکثر خاندانوں کی آراضی اتنی کم رہ گئی ہے کہ اس کی پیداوار سے ضروریات زندگی پوری نہیں ہوتیں۔ پہلے لوگ سادگی سے زندگی گزارلیتے تھے، اب نوجوان نسل ہوا سے باتیں کرنے لگی ہے۔ سرکارکی بے تدبیریوں اورصارفیت کے سیلاب کی بدولت دکھاوا بڑھ گیا ہے۔ چنانچہ ٹیپ ٹاپ کے مصارف مار لیتے ہیں۔
تیسرافیکٹر یہ ہے کہ تعلیم کا پھیلاؤ تو ہوا لیکن معیار اورلیاقت پر توجہ نہیں دی گئی۔ طلباء کی نظر سند اور سرٹی فکیٹ پررہتی ہے۔ پرائیویٹ کالجوں نے بھاری بھرکم فیس لے کر بڑی بڑی ڈگریاں تو تھما دیں،مگرلیاقت نہ ہونے کی وجہ سے ان سے نوکری نہیں ملتی۔چنانچہ چپراسی کی اسامی کے لئے بھی ہزارہا ڈگری یافتہ امیدوار ہوتے ہیں۔ اس لئے نوجوانوں میں شدید بے چینی اورمایوسی ہے۔چنانچہ وہ جلدی سے تشدد کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ ان کے فکری اورمعاشرتی مسائل پر غورکرنے کی فرصت کسی کو نہیں۔ان کو سیاسی اغراض کو حاصل کرنے کا آلہ کار بنایا جارہا ہے۔
ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ جاٹ بڑی محنتی اورسادگی پسند قوم ہے۔لیکن نئی نسل میں تبدیلی آئی ہے۔ٹی وی کے سیریلس اورفلموں میں ہائی سوسائٹی کے مناظر کی بدولت ان میں دکھاوے اوربناوٹ کی حرص پیداکردی ہے۔ آمدنی کی قلت اوربے روزگاری کے سبب مزاج میں درشتی کو جگہ مل گئی ہے۔ اوپر سے سنگھ پریوار کی بغلی تنظیموں نے ان کے خون کو کھولا دیا۔ان میں عقل پسندی کے بجائے عسکریت پسندی کے رجحان کو ہوادی جاتی اورسرکار سے اس کو شہ ملتی ہے۔ پولیس کاڈراورقانون کا احترام جاتا رہا ۔ یہی نوجوان ہریانہ میں اس تحریک کے سرخیل بن گئے۔اب یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اس تحریک نے مختلف برادریوں کے درمیان تلخی پیدا کردی ہے۔ ذات برادری کی بنیاد پر تفرقہ کے جوبیج اس میں بودئے گئے ہیں ان کی فصل بہت گراں پڑے گی۔ لیکن حکومت حقیقت پسندی سے کام لینے کے بجائے مصلحت کوشی اوردھوکہ میں ڈالنے کی راہ پر چل پڑی ہے۔
اصل مسئلہ بے روزگاری:
ان نوجوانوں سے پوچھیں کہ ان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ 99فیصد کا جواب ہوگا ’بے روزگاری’۔اتنی زمین نہیں کہ پورا گھر اس میں لگا رہے۔ مویشی پالنا اس لئے دشوار ہوگیا کہ گائے کے نام پر مویشی تاجروں کو پریشان کیا جارہا ہے۔ گھریلو دھندے اور چھوٹی صنعتیں سرکاری پالیسی کے بدولت تباہ ہوچکی ہیں۔سرکاری نوکری ملتی نہیں۔جہاں جاؤ ایس سی؍ ایس ٹی اوراوبی سے کا لیبل لگاملے گا۔ جو جگہیں عام زمرے میں ہیں ان میں ایک ایک اسامی کے لئے ہزارہاامیدوار ہیں۔سیاسی جوڑ توڑ اوررشوت خوری کا زور ہے ۔ غرض ہرنوجوان پریشان ہے۔یہ صورتحال معاشی انحطاط کی بدولت پیداہوئی۔سرکار روزگار کے مواقع فراہم کرانے میں ناکام ہے۔ اب سے چالیس سال پہلے جب ملک کی معیشت نے خوشحالی کی جانب قدم بڑھایا تھا، جب ’بلند بھارت کی بلند تصویر، ہمارا بجاج ‘‘ کا نعرہ گونجا تھا ،ایک نئے درمیانی طبقہ نے وجود پایا تھا اور بجاج اسکوٹرفخر کی علامت بنا تھا۔ یہ جب ہوا تھا تب چھوٹی صنعت اورتجارت میں اچھال آیا تھا ۔ روزگار کے مواقع کھلے تھے ۔ ایک نوکری چھوڑدی اوردوسرے دن اس سے اچھی مل گئی۔ لیکن آج حال الٹا ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر میں نیا روزگارملتا نہیں ۔ملتا ہے تو تنحواہ کم اورکام بے تحاشہ ۔ایسے میں یہ لگتا ہے کہ ریرزویشن سے مسئلہ حل ہوجائیگا۔ حالانکہ یہ بھی سراب ہے۔ دوچار کو نوکری ملنے سے پوری قوم کا بھلا نہیں ہوگا۔ بات تبھی بنے گی جب ملک کا ماحول درست رہیگا۔ گائے اورمندرمسجد کے نام پر ہلڑ بند ہوگا اورکاروبارسکون سے چل سکیں گے۔ ہریانہ میں جو ہوا ، وہ خوشحالی کی طرف نہیں بربادی کی طرف لیجاتا ہے اوراس کے لئے پوری طرح مرکزاورریاست میں برسراقتدا ر پارٹی ہے جو جمہوری اقدار کی پامالی میں دریغ نہیں کرتی۔
آخری بات
ہم بات اچھی حکمرانی کی کررہے تھے۔ قصہ لے بیٹھے رزرویشن اور’’ایک رینک ،ایک پنشن کا‘‘ حکمرانی کا حال سب پر عیاں ہے۔ ہرجگہ سیاسی غنڈہ گردی پھل پھول رہی ہے۔قوم پرستی ایک مخصوص فکر کی اجارہ بن گئی ہے۔ سنگھی نظریہ سے اختلاف کا مطلب ہوگیا ہے انٹی نیشنل ہونا۔ غوروفکر، مکالمہ اوراظہارخیال کی آزادی پر ایک طرفہ پہرے داری ہے۔ خودچاہے جو کچھ بکتے پھریں، کوئی پوچھنے ولا نہیں۔ دوسرازبان بھی کھولے ، یا نہ بھی کھولے، با ت بے بات نشانہ بنایا لیا جاتا ہے، موت کے گھاٹ اتاردیا جاسکتا ہے۔ جیل میں ڈلوایا جاسکتا ہے۔ ابھی دودن قبل مہاراشٹر کے ضلع لاتور میں ایک باریش مسلم ایس آئی کے ساتھ شدید بدسلوکی ہوئی ۔سرکارخاموش تماشائی ہے۔ جے این یوطلباء ، اساتذہ اورصحافیوں کے ساتھ دہلی کی عدالت میں مارپیٹ ہوئی ۔یہ بھی حکمرانی میں بے جا جانب داری اورکمزوری کی کہانی ہے۔وکیلوں کی عسکریت پسندی کہ یہ مظاہرہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ملک بھر میں وکلاء کے ایک گروہ کا رویہ بن گیا ہے کہ عدالت میں کیس جانے سے پہلے ہی ملز م کو مجرم قرار دیدیا جائے۔ ملزم کو اپنی صفائی عدالت میں پیش کرکے انصاف حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالی جائے۔ جو وکیل ملزم کی طرف سے پیش ہونا چا ہے، اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ قانون بے بس ہے۔ نفاذ قانون کرنے والوں کا ا ن کو کوئی خوف نہیں۔گویا قانون کی حکمرانی اورسرکار کے اقبال کو خاک میں ملایاجارہا ہے۔
جے این یو کے طلباء کے خلاف جو طوفان اٹھا ،اس میں اب یہ بات راز نہیں رہی کہ ٹی وی چینلز نے جوویڈیو چلائے ، وہ حقیقت سے بعید تھے۔ اب صحافت بھی سیاست زدہ ہوگئی۔اس کااعتباراوروقار انہی کے ہاتھوں خاک میں مل گیا۔ ان کی نظر میں فرد کی آزادی، عزت اوروقار کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی ہے۔اس کی جان کی کوئی پرواہ نہیں۔ لیکن فرضی کہانیاں نشر کرنے والوں کے سامنے حکومت بے بس ہے ۔ جب کہ دبے کچلے طبقے کے طلباء پر یلغارہورہی ہے۔ جے ای یو کے جن چھ طلباء کو نشانہ بنایا گیا ان میں تین دلت، ایک نہایت مفلس اورایک اقلیتی طبقہ کا ہے۔ روہت بھی غریب دلت تھا ۔ دلت ہرجگہ دلے جارہے ہیں۔قانون کے محافظوں کے مزاج کااندازہ دہلی کے پولیس کمشنرکے اس بیان سے ہوتا ہے کہ’’ جن طلباء پرپولیس کو شک ہے وہ حاضر ہوکر اپنی بے گناہی ثابت کریں۔ ‘‘ بہت خوب۔ جس نے کوئی گناہ نہیں کیا، اس سے مطالبہ ہے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرو ، حالانکہ قانون کہتا ہے ملزم کا گناہ ثابت کرنے کا بار استغاثہ پر ہے۔
لب لباب یہ ہے کہ اچھی حکمرانی کا جووعدہ مودی جی نے کیا تھا، ان کی سرکار اورپارٹی کو اس کی کوئی فکر نظرنہیں آتی۔ حکمرانی بس یہ رہ گئی ہے کہ سنگھ پریوار کی بغلی تنظیمیں جو چاہیں کرتی پھریں۔ ان کوسرکار اور قانون سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ جن بے قصوروں پروہ انگلی اٹھادیں ، ان کو گرفتارکرلیا جائے۔ ان کو ملک کا غدارقراردیدیا جائے اوران سے مطالبہ کیا جائے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرو۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا