English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسٹارٹ اپ مہم سے کاروبار ہوگا آسان

share with us

وزیراعظم نریندرمودی نے اس اسکیم کے تحت نئے کاروباریوں کو سرکار کی جانب سے دی جانے والی مجوزہ سہولیات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس سے کاروبار کا شروع کرنا آسان ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ اسٹارٹ اپ کیلئے 10ہزار کروڑ کا فنڈ بنایاگیا ہے۔ اس فنڈ میں چار سال تک ہر سال 2500 کروڑ روپے جمع کئے جائیں گے۔وزیراعظم مودی نے اسٹارٹ اپ اسکیم سے اسٹینڈ اپ یوجنا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سرکار چاہتی ہے شروع کئے گئے نئے کاروبار اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوں۔ اس کیلئے ان کی سرکار پوری کوشش کرے گی۔ اس مہم میں نوجوانوں کی شمولیت پر فوکس کیاجائے گا۔
اسٹارٹ اپ انڈیا لانچ پروگرام کی ابتدا میں مرکزی وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے کہا کہ سرکار سائنس پرمٹ راج ختم کرکے کاروبار کرنا آسان بنانا چاہتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اسٹارٹ اپ کمپنیوں کو پٹینٹ فیس میں 80فیصد رعایت دی جائے گی۔ حکومت تین سال تک ان کمپنیوں کوکوئی جانچ نہیں کرے گی۔ اگر کوئی کمپنی کسی وجہ سے ناکام ہوری ہے تواسے 90دنوں کے اندر بند کیا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے دیوالیہ قانون میں ضروری ترمیم کی گئی ہے۔ اسٹارٹ اپ کمپنیوں کے ساتھ سرکار بھی کاروبار کرے گی تاکہ ان کو ہر سطح پر مدد مل سکے۔ جو کمپنیاں پہلے سے کام کررہی ہیں وہ بھی اس مہم میں شامل ہوسکتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ کمپنی پانچ سال پرانی ہو اوراسکا ٹرن اور 25 کروڑ سے زیادہ نہ ہو۔
اس پروگرام میں انوویشن کو بڑھاوا دیاجائے گا، جن کے تحت 5لاکھ اسکولوں کے 10لاکھ بچوں کی شناخت کی جائے گی جو انوویشن کو آگے بڑھانے کا کام کریں گے۔ مرکزی وزیربرائے فروغ انسانی وسائل نے بھی نئی تعلیمی پالیسی کو بزنس سے ہم آہنگ کرنے پر زور دیاہے تاکہ بچے روایتی انداز میں آگے بڑھنے کے بجائے ان کے دماغ میں آنے والے آئیڈیاز کو عملی شکل دے سکیں۔ ان کیلئے ملک گیر سطح پر فی الحال 35 انوویشن سینٹر بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس سے تعلیم کو روزگار یا کاروبار سے جوڑنے کا قدیم خواب پورا ہوسکے گا۔ ملک میں دھیرے دھیرے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد میں کمی واقع ہوگی۔
کارپوریٹ کی طرح اسٹارٹ اپ لفظ بھی امریکہ میں گڑھا گیا ہے، جس کا استعمال اب دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہونے لگاہے۔ اسٹارٹ اپ سے مراد شروع کیاگیا یا شروع ہونے والا نیا کام یا کاروبار ہوتا ہے۔ اس طرح اسٹارٹ اپ بزنس شروع کرنے والے نیا کاروباری کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سرکاری اداروں بزنس ڈولپمنٹ پروگرام سے متاثر یا تربیت یافتہ نئے کاروباری سے کئی معنی میں الگ ہوتا ہے۔ عام طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ کئی نوجوانوں کو جب نوکری نہیں ملتی توآخر میں وہ مجبوری میں طے کرتے ہیں کہ بزنس ڈولپمنٹ پروگرام کے تحت ٹریننگ لے کر کوئی کام یا کاروبار شروع کریں۔ عام طور پر ایسے نوجوان چھوٹے یا منجھولے بزنس شروع کرتے ہیں اور ساتھ میں نوکری تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جس دن انہیں ٹھیک ٹھاک نوکری مل جاتی ہے وہ کاروبار سے وداعی لے لیتے ہیں۔ جبکہ اسٹارٹ اپ بزنس کرنے والے زیادہ تر نوجوان ہنر مند ہوتے ہیں جو کاروبار میں اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں۔ وہ نیاکاروبار، نئی تکنیک، نئی سوچ، نئی مصنوعات کے ساتھ نئے طریقہ سے بزنس کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چھوٹے سائز کا کام ہی نہیں بلکہ کمپنی بناکر درمیانی درجہ کا بزنس کرنے کا ارادہ وصلاحیت رکھتے ہیں۔فائنینس کمیشن نے اپنے ساتویں پانچ سالہ منصوبہ 1985-1990 ) میں خودانحصاری Self relianceکا تصور پیش کا تصور پیش کیاتھا۔ اس کے تحت ایسے گروپ بنانے کی صلاح دی گئی تھی جو ساتھ مل کر کاروبار کریں مثلاً ایک شخص کے پاس بزنس کیلئے کوئی یونیک آئیڈیا ہے۔ دوسرے کے پاس تجربہ، تیسرے سرماریہ کاری کرسکتا ہے تو یہ تینوں کمپنی بن کر کاروبار کو شروع کریں۔ سرکار شعبۂ مائیکرو اسمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزیز(MSME)کے ذریعہ ایسے کاروبار کو سپورٹ کرے تاکہ یہ بزنس اپنے پیروں پرکھڑا ہوسکے،اس پر کسی بھی سرکار نے توجہ نہیں دی۔لمبے عرصہ کے بعد ملک میں اسٹارٹ اپ جیسی اسکیم شروع ہوسکی ہے۔ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے اس کو خوش آمدید کہا ہے۔ اس اسکیم کے تاخیر سے شروع ہونے کی ذمہ داری لیتے ہوئے (وہ وزیرخزانہ رہ چکے ہیں) کہا کہ یہ کام بہت پہلے شروع ہوجانا چاہئے تھا۔ 
اسٹارٹ اپ کا تصور نیا ہونے کے باوجود دنیا کے ممالک میں اسٹارٹ اپ کاروبار میں بھارت پیچھے نہیں ہے۔ بلکہ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔2010میں 480اسٹارٹ اپ کاروبار تھے۔ نیکام کی ایک رپورٹ کے مطابق 2014میں 179اسٹارٹ اپ میں 14500کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوئی اور 65000لوگوں کو روزگار ملا۔ 2015میں 400اسٹارٹ اپ میں نوارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔ اتنی جلدی اتنی بڑی سرمایہ کاری کسی سیکٹر میں نہیں ہوپائی۔ کہا جارہا ہے کہ 100کروڑ ڈالر سے زیادہ ویلیو رکھنے والی اسٹارٹ اپ کمپنیا اب بھارت میں آرہی ہیں۔100کروڑ ویلیو کی بھارت میں کمپنیوں کی تعداد 57فیصد ہوگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اسٹارٹ اپ کمپنیوں سے 2020تک 2لاکھ 50ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی۔ آنے والے دنوں میں بنگلور 20فیصد، دہلی این سی آر میں 23فیصد، ممبئی میں 17اور دیگر میں 23 فیصد نوکریاںآئیں گی۔ اسٹارٹ اپ میں کرناٹک، آندھرا پردیش اورراجستھان سے آگے رہے۔
بارہویں پانچ سالہ یوجنا تک بھارت کا تجربہ رہا ہے کہ نیا کاروبار شروع کرنے والے نوجوانوں میں صرف 25فیصد ہی بزنس شروع کرنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ شروع کئے گئے کاروباروں میں سے آدھے تین سال میں بند ہوجاتے ہیں۔ اس طرح بھارت میں نیا کاروبار شروع کرناواس کو اپنے پیروں پرکھڑا کرکے چلانا بہت مشکل ہے۔ بھارت میں کاروبار چلانا کتنا مشکل ہے یہ بات ورلڈ بینک کی ڈوینگ بزنس رپورٹ 2016میں صاف نظرآتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 189نمبرمیں سے صرف 54نمبر حاصل ہونے کی وجہ سے بھارت130ویں پائیدان پر رہ کر پھسڈی ممالک میں شامل ہے۔ جبکہ نیوزی لینڈ، ڈین مارک، ساؤتھ کوریا، گریٹ برٹین وامریکہ وغیرہ اول سات رینکنگ والے ممالک کو 82سے زیادہ نمبر حاصل ہوئے۔ بھارت میں نیابزنس شروع کرنا اوربھی زیادہ مشکل ہے۔ بھارت 180 دیشوں میں 155ویں مقام پر ہے۔ بھارت سے اچھی حالت جن وادی چین کی ہے، جو رینکنگ میں 84ویں نمبر پر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جن ممالک میں کاروبار شروع کرنا اور اس کو چلانا آسان ہے وہ ہی ملک ترقی یافتہ وامیر ہوپاتے ہیں۔ جن ممالک میں بزنس کرنا دوبھر ہوتا ہے وہ ابھی بھی ترقی پذیرحالت میں ہیں۔ برکس ممالک میں بھارت بزنس کرنے ونیا کاروبار شروع کرنے میں سب سے پیچھے ہے۔ جب تک بھارت میں کاروبار شروع کرنا اورچلانا آسان نہیں ہوگا بھارت کے ڈولپ وامیر ہونے کا خواب دیکھنا فضول ہے۔ورلڈ بینک کی 
2016ڈوینگ بزنس رپورٹ کے مطابق بھارت میں موجودہ مودی سرکار نیا کاروبارشروع کرنے واس کو کھڑا کرنے میں آنے والی دشواریوں سے واقف ہے اور انہیں دور کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ 2015رپورٹ میں بھارت 134ویں نمبرپر تھا وہ ایک سال میں چار پائیدان کی ترقی کرکے 130ویں نمبر پر آگیا ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق مودی سرکار لال فیتا شاہی پر کنٹرول کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔ نئے کاروباریوں کو سرمایہ کاری کرنے کیلئے کی گئی کوششوں کی بھی رپورٹ میں تعریف کی گئی ہے۔ ایسا مانا جارہا ہے کہ اگر بھارت اقتصادی سدھار کرکے کاروبار کو بڑھانے کی کوششیں جاری رکھتا ہے تواگلے پانچ سالوں میں وہ چین کے برابر پہلے 100رینکنگ والے دیشوں کی لسٹ میں آسکتا ہے۔
دیش ودیش سے اسٹارٹ اپ پروگرام میں حصہ لینے آئے ادیوگ پتیوں نے مودی کی کوششوں کی تعریف کی۔ اس موقع پر بھارت کے اسٹارٹ اپ ہب بننے کی امیدیں بھی ظاہر کی گئیں۔اس میں دورائے نہیں کہ اسٹارٹ اپ بزنس سے جی ڈی پی میں بڑھوتری کے ساتھ ڈولپمنٹ ہوگا اور روزگار کے موقع بڑھیں گے۔ لیکن اسٹارٹ اپ اور میک ان انڈیا مہم کی کامیابی کیلئے وزیراعظم مودی اور ان کی پارٹی کے لیڈران کو اوچھی فرقہ وارانہ ونفرت کی سیاست کو بدلنا ہوگا۔ حزب اختلاف کانگریس کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے ہوں گے،ورنہ جی ایس ٹی ودوسرے اقتصادی بہتری کے منصوبہ جوں کے توں پڑے رہ جائیں گے۔ پارٹی کے دوسرے رہنماؤں کے مذہبی جذبات بھڑکانے والے غیر ذمہ دارانہ بیانوں پر لگام لگانی ہوگی۔ خراب ماحول میں کاروبار کی کامیابی کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ اسٹارٹ اپ جیسی مہم دیش کی ترقی کیلئے ضروری ہے تواسٹارٹ کیلئے شانتی کا ماحول بنانا سرکار اور عوام دونوں کی ذمہ داری ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا