English   /   Kannada   /   Nawayathi

بابری مسجد کی کھدائی اور کے کے محمد کے انکشافات

share with us

ایک تو سیاسی ہے جس کے لیے اس نے بی جے پی کو آگے بڑھایا ہے۔ دوسرا تہذیبی وثقافتی ہے جس کے لیے سنسکار بھارتی اور وشو ہندو پریشد وغیرہ کو آگے بڑھایا ہے جبکہ تیسرا تصنیفی کام ہے جس کے ذریعہ سے گائیڈ لائن تیار کرنے کے ساتھ تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ کو سنگھ کی آئیڈیالوجی سے جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔ رام جنم بھومی کو لیکر دیگر مقامات کے ساتھ دہلی یونیورسٹی میں سیمینار کا انعقاد اور سروچی اور سوریہ پر کاشن سے لٹریچر کی اشاعت جیسے امور خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ یہ پہلو ایسا ہے جس میں آر ایس ایس کو بڑی کامیابی مل رہی ہے۔ ابھی چند دنوں پہلے سنگھ مفکر راکیش سنہا کی دو کتابیں ’سنگھ اور راج نیتی‘ و ’راج نیتی اور دھرم نرپیکچھتا‘ سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کس جہت اور نوعیت سے کام کیاجارہا ہے۔ اس معاملے میں مسلم تنظیمیں چاہے وہ جماعت اسلامی ہند، جمعیۃ العلماء ہو یا جمعیۃ الحدیث یا مسلم مجلس مشاورت ہوں یا سیاسی پارٹیوں میں کانگریس، راشٹریہ جنتادل سب پیچھے ہیں۔ گزشتہ دنوں لالو پرشاد یادو نے اعلان کیا تھا کہ سنگھ کے توڑ کے لیے اسی طرح کی ایک تنظیم قائم کی جائے گی۔ سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور دوسرے کانگریس لیڈروں نے بھی جب امبیڈکر اور سردار پٹیل کو نریندرمودی کی نگرانی میں سنگھ آئیڈیالوجی سے جوڑنے کی کوشش ہوئی تو کہا گیا کہ کانگریس اس کے لیے کام کرے گی لیکن یہ سطور لکھے جانے تک کوئی ایک کام سامنے نہیں آرہا ہے۔ تصنیف اور میڈیا کے ذریعہ جو ذہن بنانے کا کام چل رہاہے اس کا اندازہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور خاص طور سے مسلم تنظیموں کو نہیں ہے۔ ہمارے یہاں ہمیشہ اسی وقت بیانات جاری ہوتے ہیں، جلسے جلوس کیے جاتے ہیں، کانفرنس ہوتی ہیں جب معاملہ ہاتھ سے نکل جاتاہے۔
اسی تناظر میں ایک الگ طرح کی منصوبہ بندی سامنے آرہی ہے اور وہ ہے آثار قدیمہ میں اپنی خدمات دے چکے کیرالہ کے کے کے محمد اور ان کی کتاب۔ ان کی کتاب سے پوری طرح رام جنم بھومی تحریک اور سنگھ کی آئیڈیالوجی کی تائید وتوثیق ہوتی ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب میں ’میں ہندوستانی‘ میں کل ملاکر یہی کہا ہے کہ بابری مسجد رام مندر کے ملبہ پر تعمیر ہوئی تھی۔ ان کا یہ بھی کہناکہ بائیں بازو کے تاریخ دانوں نے ایودھیا پر گمراہ کیا ہے جبکہ میں نے جو کچھ بھی جانا اور کہا ہے وہ تاریخی سچ ہے۔ متنازعہ مقام پر 14کھمبے ملے تھے اور سبھی کھمبوں پر گنبد کھدے ہوئے تھے۔ یہ 11ویں اور 12ویں صدی کے مندروں میں پائے جانے والے گنبدوں جیسے تھے۔ گنبد ایسی نو علامتوں میں ایک ہے جو مندر میں ہوتے ہیں۔ یہ بھی صاف ہوگیا تھا کہ مسجد ایک مندر کے ملبے پر کھڑی ہے۔ ان دنوں میں نے اس بارے میں انگریزی کے کئی اخبارات میں لکھا تھا۔ لیکن میرے اس خیال کو صرف ایک اخبار نے شائع کیا اور وہ بھی ’ایڈیٹر کے نام خط‘ میں۔ ملیالم میں لکھی اپنی کتاب کے حوالے سے انھوں نے ایک اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بائیں بازو کے تاریخ دانوں نے آلہ آباد ہائی کورٹ کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان کے مطابق آثار قدیمہ کے اس وقت کے ڈائریکٹر بی بی لال کی سربراہی میں ایک وفد نے کھدائی کا جائزہ لیا تھا۔ کے کے محمدبھی اس وفد میں شامل تھے۔ انڈین ہسٹوریکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین عرفان حبیب کی قیادت میں کمیٹی کی کئی میٹنگیں ہوئی تھیں۔ ایودھیا معاملہ بہت پہلے حل ہوگیا ہوتا۔ اگر مسلم دانشور بائیں بازو کے تاریخ دانوں کی برین واشنگ کا شکار نہ ہوئے ہوتے۔ رومیلا تھاپر، بین چندرا اور ایس گوپال جیسے تاریخ دانوں نے دلیل دی تھی کہ 19ویں صدی سے پہلے مندر کی توڑ پھوڑ اور ایودھیا میں بودھ جین مرکز ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ تاریخ داں عرفان حبیب، آرایس شرما ، ڈی این جھا، سورج بین اور اختر علی نے اس کی حمایت کی تھی۔ یہ لوگ تھے جنھوں نے مسلم گروپوں کے ساتھ مل کر ایودھیا معاملے کا ایک پرامن حل نکالنے کی کوششوں کو پٹری سے اتاردیا۔ ان میں سے کئی نے سرکاری میٹنگوں میں حصہ لیا اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی کھل کر حمایت کی۔ عیاں رہے کہ محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) نے پروفیسر بی بی لال کی سربراہی میں 1976-77میں متنازعہ مقام کا جائزہ لیا تھا پھر 2002-2003میں الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم سے متنازعہ ڈھانچے والی جگہ پر کھدائی کرائی گئی تھی۔ اس کھدائی میں کئی مسلم آفیسروں اور مزدوروں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ کے کے محمد کے مطابق اس کھدائی سے تقریباً 50ویسے چبوترے ملے جیسے متنازعہ ڈھانچے کے اوپر تھے۔ کھدائی میں مندر کے اوپر بنے کلش کے نیچے لگایا جانے والا گول پتھر ملا۔ جو صرف مندروں میں لگایاجاتا ہے۔ اسی طرح گنگا جل چڑھانے کے بعد اسے باہر لے جانے والا سسٹم (جو کہ مگرمچھ کی شکل کا ہوتا ہے)بھی ملا۔ یہ سسٹم صرف مندر میں ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیراکوٹا کی بہت سی چھوٹی چھوٹی مورتیاں بھی برآمد ہوئی تھیں۔ ان کے مطابق متنازعہ ڈھانچہ توڑے جانے کے وقت پتھر پر لکھی ایک تحریر کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ اس تختی پر رام کو بالی اور دس سروں والے یعنی راون کا قتل کرنے والے بھگوان وشنو کے روپ میں مخاطب کیا گیا تھا۔ یہ تحریر ناگری رسم الخط میں تھی۔ اس تختی کو بھارت سرکار کے اے پی گرافی ڈائریکٹر ڈاکٹر کے بی رمیش اور ناگپور یونیورسٹی کے پروفیسر شاشتری نے پڑھاتھا۔ ناگری زبان 11ویں اور 12ویں صدی میں رائج تھی۔
کے کے محمد نے جس طرح بابری مسجد کے مقام سے کھدائی کے دوران نکلے باقیات کو رام جنم بھومی مندر سے جوڑ کر پیش کیا ہے وہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ سے قطعی میل نہیں کھاتے ہیں۔ آرکیالوجیکل سروے نے اپنی رپورٹ کو اپنے یہاں سے شائع ہونے والے رسالہ ’انڈین آرکیالوجی‘ میں شائع کیا ہے۔ 1976-77کے شمارہ میں اس کھدائی کی جو رپورٹ شائع ہوئی ہے وہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اڈوانسڈ اسٹڈی شملہ کے پروفیسر بی بی لال اور آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا کے شری کے وی سندرا راجن کے زیر انتظام ہوئیں۔ اس کام کو اس شہر کے قدیم حصہ کے دو علاقوںیعنی رام جنم بھومی ٹیکری اور ہنومان گھڑی کے مغرب میں واقع کھلے میدان پر مرتکز کیا گیا البتہ چند خندقیں سیتا کی رسوئی میں بھی کھودی گئیں۔ ان کھدائیوں سے اس شہر پر پہلی انسانی آبادی سے لیکر بعد تک کی مسلسل شہادتیں ملیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’دوسرے مقامات جیسے متھرا، سراوستی اور کوشمبھی وغیرہ سے حاصل کیفیت کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا معقول ہوتا ہے کہ رام جنم بھومی علاقہ میں انسانوں کی آبادی کا آغاز ساتویں صدی قبل مسیح میں ہوا۔ اس آغاز سے اس ٹیکری پر انسانوں کے آباد ہونے کا سلسلہ تیسری صدی عیسوی تک جارہی رہا اور اس دور کی کئی تعمیرانی شہادتیں ملتی ہیں۔
اس بنیاد پر عبدالرحیم قریشی نے اپنی کتاب ’ایودھیا کا تنازعہ رام جنم بھومی۔ فسانہ ہے حقیقت نہیں‘ میں لکھا ہے (۱) ایودھیا زیادہ سے زیادہ ساتویں صدی قبل مسیح کے اوائل سے آباد ہوا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے ایودھیا میں کوئی انسانی آبادی نہیں تھی اس مقام پر ساتویں صدی قبل مسیح میں انسان پہلی مرتبہ آباد ہوئے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ جب رام چندر جی پیدا ہوئے ہوں گے اور زندہ رہے ہوں اور یہ ایودھیا ضلع فیض آباد کے دریائے سریو کے نزدیک نہیں ہے۔ (۲) موجودہ ایودھیا سے انسان تیسری صدی عیسوی سے گیارہویں صدی عیسوی تک آبادی کئی سو سالوں تک ترک کرچکا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایودھیا جو اجڑ چکا تھا دوبارہ آباد ہونا شروع ہوا تقریباً اسی عہد میں جبکہ مسلمان شمالی ہند پر حکومت کررہے تھے اور (۳) ان کھدائیوں میں جو قدیم اشیاء برآمد ہوئیں وہ مہریں، سکہ اور مٹی کی مورتیاں وغیرہ ہیں لیکن کوئی مجسمہ یامجسمہ کا کوئی حصہ ان چیزوں میں نہیں پایا گیا اس کا مطلب یہ ہے رام جنم بھومی ٹیکری یا سیتا کی رسوئی میں کوئی مندر نہیں تھا خیال رہے کہ ایک ہند ومندر میں اس مورتی کے علاوہ مندر منسوب ہوتا ہے کئی مورتیاں دیواروں میں ستونوں پراندرونی چھت پر اور بیرون میں سیکھرہ پرہوتی ہیں اس کامطلب یہ ہے کہ پہلے زمانہ میں ایودھیا مندروں کا شہر نہیں تھا جیسا کہ اب ہے۔
آثار قدیمہ کے رسالے ’انڈین آرکیالوجی‘ کے 1979-80میں اس کے بعدہوئی کھدائی پر ایک رپورٹ شائع ہوئی لیکن اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1976-77کی رپورٹ میں جو نتائج بتائے گئے تھے چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ ان کی یہ رپورٹ توثیق کرتی ہے۔ 1976-77کی رپورٹ میں کہا گیا کہ گپتا دورکی شہادت نہیں ملی لیکن مزید کھدائیوں پر گپتا دور کی تعمیر کا ایک حصہ ظاہر ہوا۔ اس دور کے برتن پائے گئے، 1976-77کے بعد کی کھدائیوں میں مختلف سائزوں کے تولنے کے بٹوں کے محروطی ٹکڑے جو شیب شنگ سلیمانی اور سنگ مروارید وغیرہ کے بنے تھے تمام سطحوں پر پائے گئے اور نیم قیمتی پتھروں کے بنے پرفدوں اور جانوروں کی شکار میں لٹکانے والی چیزیں پائی گئیں۔ 1979-80کی کھدائیوں کے بعد یہ پروجیکٹ ختم کردیاگیا اور مزید کھدائی نہیں کی گئیں کیونکہ شری رام کے دور کے آثار کے پائے جانے کی کوئی امید نہیں تھی، اور نہ ہی رامائن سے نسبت رکھنے والی کوئی شئے دریافت ہوئی۔
آرکیا لوجی آف رامائن سائٹس پروجیکٹ کے تحت کھدائیوں سے پہلے بنارس ہندو یونی ورسٹی کے شعبہ قدیم تاریخ ہندو کلچر وآثار قدیمہ کے پروفیسر کے نارائن نے کھدائیاں کیں جن میں کوئی قابل ذکر دریافت نہیں ہوئی۔ پروفیسر نارائن اور پروفیسر بی بی لال کی ایودھیا میں کھدائیوں سے متعلق رپورٹس میں کسی دور قدیم یا عہد وسطی کے مندر کے باقیات کے ملنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ 1976-77میں ایودھیا شہر کے ان مقامات کی جن کی نسبت شری رام چندر جی سے کی جاتی ہے یعنی جنم استھان، سیتا کی رسوئی اور ہنومان گڑھی پر کھدائیاں کی گئیں ان مقامات پر کھدائیوں میں کوئی چیز ایسی نہیں ملی جس کو شری رام چندر جی یا ہنومان یا ان کے دور سے منسوب کیا جائے۔ 1979-80کھدائیوں کے دوسرے مرحلہ میں ایودھیا کے اطراف اور دریا کے کنارے چودہ مقامات پر کھدائیاں کی گئیں اور 1976-77کے بعد جنم استھان، ستیا کی رسوئی یا منومان گڑھی میں کوئی کھدائی نہیں کی گئی اس کا صاف مطلب ہے کہ آرکیا لوجسٹ بی بی لال اور اے ایس آئی کے ذمہ دار یہ رائے بناچکے تھے کہ ان تین مقامات پر مزید کھدائیاں بے سود اور بیکار ہیں کیونکہ جوکچھ وہاں پایا گیا ا س کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملی۔
بعد میں بی بی لال آر ایس ایس کے پروپیگنڈہ اور نظریات کا شکار ہوگئے اور یہ کہنے کی کوشش کی کہ بابری مسجد کے اطراف ستونوں کی بنیادوں کی باقیات تھیں اور انھوں نے بابری مسجد علاقہ کی مزید کھدائیوں کے مطالبہ کومزید آگے بڑھایا۔ ان کے اس بیان پر جواہر لعل نہرو نیورسٹی کے کلچرل اینڈ انٹلکچویل ہسٹری کے پروفیسر کے این پانسکر نے تبصرہ کیا اور کہا ’’ یہ بیان ان کی اس سرکاری رپورٹس سے مختلف ہے جو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے رسالہ ’انڈین آرکیالوجی ایک ریویو‘ 1997، 1979-80میں شائع ہوئی ہیں اور ان کے ایودھیا کی آرکیالوجی پر کئی مقالوں سے مختلف ہے جن میں انھوں نے کہیں بھی ستون کی بنیادوں کا ذکر نہیں کیاہے‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’ایودھیا کے جنم بھومی علاقہ سے گپتا عہد سے لیکر عہد وسطیٰ تک کی سطحوں تک کوئی قابل ذکر چیز نہیں ملی، کیا اس ستون کی بنیادوں کی بات عمداً چھپائی گئی تھی یا آر ایس ایس کے نظریات کو آگے بڑھانے کے لیے اس بات کو پیش کیا گیاہے‘‘۔ محکمہ آثار قدیمہ نے اپنے مفروضہ کی بنیاد ’ستونوں کی بنیاد‘ پر رکھی ہے۔ یہ ستون 6x6یا 6x8فٹ تھی۔ صرف ایک ستون کا کچھ حصہ ملاہے۔ غالباً یہ ان 14 مختلف آرائشی ڈیزائن والے ستونوں کا حصہ ہوگا جنھیں بابری مسجد میں استعمال کیا گیاتھا۔ 40سے 65دیگر ستون کیا ہوئے۔ کیاانھیں بابری مسجد کی تعمیر کے وقت توڑ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اورحصوں میں تبدیل کردیا گیا یا انھیں دھول بناکر سری اور چونے میں ملادیا گیا۔ جو ڈھانچہ کھدائی میں دریافت کیا گیا ہے اس کا طرز تعمیر اور اس اسٹائل کے مطابق نہیں ہے جو اس زمانے میں شمالی ہندستان میں رائج تھی۔ اس دور کا اب کوئی بڑا مندر نہیں ملتا جس میں مستطیل ہال کھمبوں پر ایستادہ ہو، اس کے برعکس اس کی ساخت بالکل مسجدوں جیسی ہے اور بابری مسجد کے پلان کے مطابق ہے۔ مندروں کا اندرونی حصہ عام طور سے بند اور تنگ ہوتا ہے مگر مسجدوں کا کشادہ اور چوڑا ہوتا ہے۔ دسمبر 1949سے دسمبر 1992تک کوئی مسلمان بابری مسجد کے احاطہ میں داخل نہیں ہوسکا یہ بیراگیوں اور ہندوؤں کے قبضہ میں تھا کوئی نہیں جانتا کہ ان 43برسوں کے طویل عرصہ میں ان لوگوں نے کیا چیزیں اندر لائیں اور کیا اندر رکھیں اور اب یہ ٹوٹا مجسمہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو اس احاطہ میں رکھی گئی اور ملبہ میں ملیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ یہ ٹوٹا ہوا نامکمل مجسمہ کس طرح مقدس اور دیوی دیوتا کا جوڑا ہوگیا۔ آخری بات یہ کہ اے ایس آئی ہڈیوں کا تذکرہ تو کرتی ہے لیکن یہ نہیں بتاتی ہے کہ اس مقام پر ہڈیاں کیسے آئیں۔ ہائی کورٹ نے اے آیس آئی کو ہڈیوں کے سائز، تعداد اور چینی برتنوں کے سائز اور تعداد کو ریکارڈکرنے کا حکم دیا تھا اے ایس آئی نے اس حکم کی تعمیل نہیں کی۔ ان حالات میں کے کے محمد کے رام جنم بھومی پر کھدائی سے متعلق اپنی رپورٹ کو سامنے لانے کا مقصد کیا ہے، صاف ہوجاتا ہے کہ معاملہ کس رخ پر جارہا ہے اور فرقہ پرست طاقتوں کے عزائم کیا ہیں۔(

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا