English   /   Kannada   /   Nawayathi

حسنِ بھٹکل

share with us

عبد باری ، بندۂ خدا، یکے از بندگان بارئ تعالیٰ المسمیٰ عبدالباردی فکردے قبیلہ کا چشم و چراغ، مقبول عام و خاص، المعروف باری مولانا، اہلیان، بھٹکل واطراف بھٹکل کے دلوں کو فتح کرنکے اللہ رب العزت کی بارگاہ جاپہنچا، اوصاف حمیدہ، اخلاق ستودہ، سرشت صافی، دل آئینہ، طبیعت مخیر، سینہ شفاف، چہرہ ہشاش، مہر ہ بشاش ، مزاج گوہر، سرخ رو اور سرخرو ان گنت اوصاف کے مالک ،تنِ تنہا مولانا عبدالباری مرحوم کی شخصیت تھی، مقبولیت کایہ عالم تھا کہ معاشرہ کا ہر فرد بڑا چھوٹا،مردو زن ، شیب و شباب ، امیروغریب، اور عالم و جاہل عقیدت کی حدتک محبت کرتا تھا، جو بندہ اللہ سے محبت کرتا ہے اللہ رب العزت اپنے سے مقرب فرشتہ جبرئیل کو حکم دیتے ہیں کہ میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر، پھر وہ فرشتوں کا سردار تمام آسمانوں میں رہنے والوں کے درمیان منادی کرتا ہے کہ اللہ رب العزت فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی ان سے محبت کرو، اس منادی پر لبیک کہتے ہوئے تمام آسمان والے اس بندہ کو چاہتے لگتے ہیں، یہی حکم زمین والوں پر نازل ہوتاہے،اور اسکی مقبولیت زمین والوں کے دلوں پر ڈال دی جاتی ہے ، تمام زمینوں اور آسمان والے اس بند ے کو ٹوٹ کر چاہنے لگتے ہیں،وہ بندہ عبدالباری کی شباہت میں بھٹکل کی سرزمین پر پیدا ہوجاتا ہے ،اور موت پاتا ہے ، اس محبت کو سارا شہر دیکھتا ہے ، ہندو ،سکھ ،عیسائی بھی دیکھتا ہے، شجر حجرطائر بھی دیکھتا ہے، جماد نبات ابرسیاہ بھی دیکھتا ہے، کیمرہ اور میڈیا کی آنکھ بھی دیکھتی ہے ، فیوضع القبول فی الارض کی تفسیر و تشریح معنوی اور عملی دنوں اسی کو کہتے ہیں ، سچ ہے وہ ایک اختر تابندہ تھا، لوگ اس سے اجالوں میں رہنے کے قرینے پوچھتے تھے، یعنی مال و دولت حاصل ہونے کے بعد امیرانہ زندگی گذرانے کے آداب سیکھتے تھے، وہ نباض وقت ہر پوچھنے والے کی دکھتی رگ کو پکڑتا تھا، اور اسطرح اس کی رہنمائی کرتا کہ وہ زندگی بھر اس کا معتقد ہوجاتا تھا، آج وہ عدم کا مسافر بنا مگر ہم کو شبان بلوائے غم میں سرگرداں چھوڑدیا، سچ ہے، کہ وہ شام کا سورج بھی تھااور صبح کا تارہ بھی ایک صبح کی تازگی اور ان کی روئیدگی کا سبب بنتا ہے تو دوسرا شام کی تاریکی کو روشن اور تیرگئی شب کو کافور کرتا ہے ، سچ ہے کہ وہ حرف مقدس باری کا معنوی پیکر تھا، جسے عبدیت کے لاحقہ نے بشریت کا خاکہ پہنادیا تھا، عجیب بات تھی کہ متانت ،شانِ خطابت ، شکل و جاہت ، رعب و حشمت اور پیارو محبت ایک قالب میں آیااُس قالب کا نام عبدالباری بن گیا تھا، 
وقار و مروت کے اس پیکر نے اپنے فاضلانہ اخلاق اور کریمانہ اوصاف سے بھٹکل اور اہلِ بھٹکل کے حسن کو دوبالا کردیا تھا، معنوی اور ظاہری طور پر شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کردیا تھا، وہ محسنِ قوم تھا، بھٹکل اور جامعہ کا ایک ایسا سپوت تھاجس نے تیس پینتس سالوں میں مقبولیت اور شہرکی تمام منزلوں کویکہ و تنہا طئے کیا ، ماضی کی شان و شوکت نہ خاندانی وجاہت ،مال و دولت نہ امیرانہ طمطراق، نہ مناصب اور نہ سرکاری فخرو مباہات جو کچھ تھا وہ ان کی بے پناہ محبتوں کا حسن، بے مثال کارگردگی کا حسن، وسعت فکرونطر کا حسن ،عزتِ نفس کا حسن،پرکشش شخصیت کا حسن، علمی قابلیت کا حسن، علم و عمل کا حسن ، خلوص و للہیت کا حسن، چاہت وا پنائیت کا حسن، تبسم زیرِ لب، اور پیاری مسکراہت کا حسن، عبادت و ریاضت کا حسن، اللہ و رسول ﷺ اور والدین کی اطاعت کا حسن، بڑوں کے اکرام و عظمت کا حسن چھوٹوں پر پیار وشفقت کا حسن اور اپنی قوم و وطن کی جانثاری اور بے لوث خدمت کا حسن اور ان تمام حسن کے کمال نے انہیں باکمال بنادیا تھا، اور اسی کمالِ عروج اور عروج و کمال نے مل کر مولانا کو حسنِ بھٹکل بنادیا ، جس طرح مولانا کی زندگی کے عکس و نقش اہلِ بھٹل بھلا نہ سکیں گے اسی طرح مولانا کے جنازہ کے جلوس کے عکس و نقش بھی بھلانہ سکیں گے۔ 
واہ رہے حضرت انسان اور ارے بے ثباتئ حیات انسان، کرشمہ ساز قدرت کی کارکردگی بھی کتنی عجیب ہے ، امیدو آرزو کی خاک اور شوق و حسر ت کی خاکستر کو ایک مشت خاک میں رکھا ، اورکن کے افسوں سے خاکدانِ ارضی پر پھینک دیا، وہ فیکون بن کر مشتِ خاکی یعنی انسان کی شکل میں ابھرا، امیدو آرزو کی خاک اور شوق و حسر ت کی خاکستر کے عناصر اس کے وجود میں ایسے پیوست ہوگئے ہیں کہ اس کی زندگی کے ہر لمحہ اور اس کی کارکردگی کے ہر لحظے میں نمایاں ہونے لگتے ہیں، خوشیوں سے خوش ہونا، غموں سے گھبرانا، روشنی سے اپنی شمع حیات کو بڑھانا اور تاریکی سے جی چرانا ، بہاروں پر جان چھڑکنا ،خزان و برگِ .......اور ویرانی سے مایوس ہونا، کبھی رقص نشاط کرنا اور کبھی سینہ ماتم ، کبھی رونا، اسکے مزاج ، اور طبیعت کا حصہ ہے، 
آج دل نچڑتے ہیں، جگر کٹتے ہیں، اور سرگرانی میں سر کرتے ہیں، غم وا ندوہ کے پہاڑ ٹوٹے ہیں، ہر طرف سناٹے ،ہر سمت اندھیرے، ہر جگہ دھندلکا، چاروں اور خاموش، فضاسکت، ہواصامت، منظر جامد ،شہر سوگوار، دیدۂ و دل اشکبار ، جامعہ نا شکیب و جامع مسجد کے منبر ومحراب دلفگار ، الغرض سارا معاشرہ لرزہ براندام ہر شجر انگشت بدنداں، ہر فردنگ، ہر بولنے والا گنگن، پر لکھنے والے کا قافیہ تنگ اورہر چہرہ شوریدہ رنگ ہوگیا ہے، اس لئے کہ قوم ووطن کا ایک محبوب ترین شخص ان کے درمیان نہیں رہا یعنی جناب مولانا عبدالباری صاحب ندوی کی وفاتِ حسرت آیات ہوگئی، اناللہ وانا الیہ راجعون، ہم سب نے انا للہ کہا، مغفرت کی دعائیں کی ،تعزیتی کلمات ادا کئے، ایک دوسرے سے مل کر غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کی، ہمارے دین اسلام میں ہر مرض کی دوا ہے، ہر غم کا مداوا ہے، اور ہر مصیبت کو دور کرنے کا علان اور دعا ہے ، جب مصیبت اتنی شدید ہوجائے ، صبر شکیب کا دامن چھوٹ جائے اور جذبات بے قابو ہونے لگیں توہمارے پیار نبیﷺ کے اس نسخہ کو آزمائیں ، فرماتے ہیں اذا اُصیب احدکم فلیذکر مصیبۃ لی ,فانہا اعظم المصائب، رواہ ابن سعد، جب تم میں سے کسی پر کوئی مصیبت آئے تو وہ فوراً اس کو یاد کرے،جو اس کو میری جدائی پر ہوگی، اس لئے کہ وہ ہر مسلمان کے لئے سب سے بڑی مصیبت ہوگی۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا