English   /   Kannada   /   Nawayathi

پولیس تحویل اور اس کے طریقوں پر بھی غور ہونا چاہئے

share with us

6 جنوری کو بنگلور میں مولانا انظر شاہ قاسمی کو ابھی پولیس کی اسپیشل سیل نے گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے عدالت سے 15 دن کی تحویل میں انہیں مانگا تو عدالت نے مولانا کو اس کی تحویل میں دے دیا۔ دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث اور جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اسی وقت مطالبہ کردیا کہ ان کی صحت کی تفصیل روزانہ عدالت کو دی جائے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پولیس کی تحویل کا جو مطلب ہے اسے صرف وہی جانتے ہیں جن پر گذرتی ہے یا وہ جانتے ہیں جنہیں باہر آنا نصیب ہوتا ہے اور وہ زبان کھولتے ہیں ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ حکومت کے ذمہ داروں یا عدالت کے جج صاحبان کو یہ معلوم ہو کہ پولیس ان انسانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ جنہیں وہ اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ افضل گرو نے ایک نمائندہ کو انٹرویو دیتے ہوئے پولیس کی طرف سے دی جانے والی تکلیفوں کی جو تفصیل بتائی تھی اسے جس نے بھی پڑھا ہوگا اس نے یہ کہا ہوگا کہ اگر پولیس اس طرح تڑپانے کے بجائے جان سے مار دے تو بہت بڑا احسان کرے گی۔
ہم جب ڈی آئی آر کے تحت جیل میں تھے تو عدالتی تحویل میں تھے۔ ہر 15 دن کے بعد اگلے 15 دن کی توسیع کے لئے ہمیں عدالت آنا پڑتا تھا۔ اسی وقت وہ ملزم بھی لائے جاتے تھے جو دو چار دن پہلے گرفتار ہوئے تھے اور پولیس نے ان کی گرفتاری دکھائی نہیں تھی بلکہ جرم قبول کرانے کے لئے انہیں نچوڑتی رہی تھی۔ وہ جب عدالت میں لائے جاتے تھے تو ان کی ہڈی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہوتی تھی اور نہ ان سے ٹھیک سے نہ کھڑا ہوا جاتا تھا اور نہ چلا جاتا تھا۔ عدالت نے اگر معلوم کرلیا کہ اس کے یہ چوٹ کیسے لگی؟ تو ایک ہی رٹا ہوا جواب ہوتا تھا کہ ہنگامۂ گرفتاری حضور۔
یہ تمام ملزم آخرکار جیل میں ہی جاتے تھے۔ ہم نے جب ایسے لوگوں کے وہاں انٹرویو لئے تو معلوم ہوا کہ ہنگامۂ گرفتاری وہ جواب ہے جس کے بعد عدالت دوسرا سوال نہیں کرسکتی مقصد یہ ہوتا ہے کہ پولیس گرفتار کرنے گئی لیکن ملزموں نے پولیس سے مقابلہ شروع کردیا اس لئے انہیں قابو میں کرنے کے لئے پولیس کو سختی کرنا پڑی۔ اس ہنگامۂ گرفتاری کا ایک واقعہ اس کے بعد دیکھنے کو ملا۔ ہمارے ایک دوست رام رتن گلاٹی جو مشہور پائل چپل کے مالک تھے ان کے چھوٹے بھائی کو ان کے گھر کے سامنے گاڑی سے اترتے ہوئے راہزنوں نے گولی ماردی۔ وہ گرے تو نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس ان کے جسم کے نیچے دب گیا اور گاڑی میں سے ان کے ایک فوجی دوست وردی میں کیپٹن اترے اور دوسری طرف سے ڈرائیور تو وہ ڈر کر بھاگ گئے لیکن اتنا دیکھ لیا کہ وہ تین تھے۔
گلاٹی کے دوستوں میں ایک پولیس انسپکٹر بھی تھے جو حسن گنج تھانے کے انچارج تھے ان کے زیادہ زور ڈالنے پر ناکہ ہنڈولہ تھانے نے تین لڑکوں کو گرفتار کرلیا اور رات میں ان کا اتنا کچومر بنایا کہ وہ ہر سوال کرنے والے کو کہانی سنانے لگے کہ کیسے اسکیم بنائی۔ کس نے گولی چلائی اور کس نے کہا کہ بھاگ لو۔ صبح کو ہم سب کو بلایا گیا تو جاکر یہ دیکھا کہ تینوں دیوار سے کمر لگاکر بیٹھے ہیں اور ٹانگیں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہم جیسے ہی قریب گئے انہوں نے کہانی سنانی شروع کردی۔ جبکہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ انہیں بتاؤ کہ کیا ہوا تھا؟ ہم نے گلاٹی سے کہا کہ انسپکٹر سے کہو کہ انہیں کھڑا کراکے ان سے سوالوں کے جواب دلوائے۔ انسپکٹر نے کہا کہ یہ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں کہانی وہی سنائیں گے جو انہوں نے کیا ہے۔ ہم نے اس وقت کہا کہ کیا ان کی ٹانگیں ہنگامۂ گرفتاری میں ناکارہ ہوگئی ہیں؟ انسپکٹر نے کوئی جواب دینا چاہا لیکن ان کے جواب سے پہلے گلاٹی اور ہمارے دوست انسپکٹر گھوشال بول پڑے اور کہا کہ آپ انہیں نہیں جانتے یہ اخبار والے ہیں۔
مولانا انظر شاہ کو دہلی کی اسپیشل پولیس نے 15 دن اپنی تحویل میں رکھا اور مولانا انظر شاہ کا کوئی تعلق القاعدہ سے ثابت نہیں کرپائی۔ اس کے بعد بھی دہلی کے پٹیالہ کورٹ سے پھر مطالبہ کیا کہ انہیں مزید کچھ دنوں کے لئے ہماری تحویل میں دے دیا جائے۔ ہم نہیں جانتے کہ مولانا انظر شاہ قاسمی کون ہیں؟ اور مولانا عبدالسمیع کون ہیں؟ لیکن وہ دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں اور مولانا ارشد مدنی نے انہیں معروف عالم دین کہا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی تقریروں کا موضوع کیا ہوتا تھا؟ ہم تو صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ دَور میں 15 دن میں جو اسپیشل پولیس مولانا انظر کا القاعدہ سے تعلق کا ثبوت نہیں حاصل کرسکی وہ مزید 10 دن میں کیا کرلے گی؟ آج ہر کوئی دیکھ رہا ہے کہ چھوٹے بڑے حادثے موبائل میں فیڈ ہوجاتے ہیں جبکہ موبائل والے اور حادثہ والے کا کوئی تعلق بھی نہ ہو۔ اگر مولانا انظر شاہ اور مولانا عبدالسمیع نوجوان مسلمانوں میں جہاد کا جذبہ اور جوش بھر رہے تھے یا اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے تو کسی نے بھی موبائل میں کیوں ان کی کوئی تقریر ٹیپ نہیں کی؟ اور اگر سننے والوں میں سے کسی نے نہیں کی تو اسپیشل پولیس اپنے کسی مخبر سے یہ کام کراسکتی تھی۔ کیونکہ اکثر علماء جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے دینی اور اصلاحی تقریریں کرتے ہیں اور وہی وقت ہوتا ہے جب وہی عالم کسی دوسرے موضوع پر بھی تقریر کرسکتے ہیں اور جہاں تک القاعدہ کا تعلق ہے وہ تو داعش کے بعد پس منظر میں چلا گیا ہے۔
آج کے ہی اخبارات میں ممبئی سے ملی ہوئی ممبرا نام کی ایک بستی کے رہنے والے ایک لڑکے رضوان کے متعلق چھپا ہے کہ رہ برسوں سے دُبئی میں نوکری کررہا ہے۔ ممبئی اے ٹی ایس نے اسے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ لیکن عدالت نے اسے نابالغ ہونے کی وجہ سے اصلاح گھر بھیج دیا ہے۔ اب اے ٹی ایس کے ذمہ دار یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ بالغ ہے۔ رضوان نام کے اس لڑکے نے انٹر تک تعلیم حاصل کی ہے اور حکومت کا یہ قانون ہے کہ ہائی اسکول کے سرٹی فکیٹ میں جو عمر لکھی ہے اسے سپریم کورٹ بھی نہیں بدل سکتا۔ رہا اس کا راشن کارڈ میں یا ووٹر لسٹ میں اندراج تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس کے باوجود ایس ٹی ایس کے ذمہ دار گھر کے کوڑے کو بھی چھان رہے ہیں کہ اسے بالغ ثابت کرسکیں۔ کیا یہ وہ رویہ نہیں ہے جس کے بعد یہ کہا جاسکے کہ سارا کام مسلم دشمنی کے جذبہ سے ہورہا ہے؟ ایس ٹی ایف اسے اپنی تحویل میں لے کر اس سے بہت کچھ قبول کرانا چاہ رہی تھی۔ عدالت نے ہائی اسکول کے حساب سے اسے نابالغ قرار دے کر پولیس تحویل میں دینے کے بجائے اصلاح گھر بھیج دیا۔ اب چاہے وہ اپنے سر کے سارے بال نوچ ڈالیں۔ ہائی اسکول کی تاریخ ہی رضوان کی حفاظت کرے گی۔
ہم کسی بھی مسلمان سے نہیں کہتے کہ وہ حکومت کا وفادار ہو لیکن ہر مسلمان کو اپنے ملک کا وفادار ہونا چاہئے۔ مسلمانوں کو ان کے مذہب نے حکم دیا ہے کہ تم جہاں اور جس ملک میں رہو اس کے قانون کی پابندی کرو اس کے بعد اگر کوئی مسلمان عالم یا غیرعالم ملک کی دشمن طاقتوں سے تعلق رکھتا ہے یا ان کی مدد کرتا ہے تو وہ ملک کا غدار ہے اور ہم چاہیں گے کہ اسے غداری کی پوری سزا دی جائے۔ لیکن حکومت کے ذمہ داروں اور عدالتوں کو ان بیانات کو بھی پڑھنا چاہئے جو ایسے تمام لوگوں نے دیئے ہیں جنہیں عدالتوں نے ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے برسوں جیل میں رکھ کر باعزت بری کیا ہے۔ ان میں ہر کسی نے کہا ہے کہ انہیں ننگا رکھا جاتا تھا۔ انہیں بجلی کا کرنٹ لگایا جاتا تھا اور پیشاب پینے اور وہ بھی ناک سے پینے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ ایسے شرمناک الزام کوئی جھوٹ نہیں لگائے گا۔ ہم نے ہر وہ بات لکھ دی جو ہماری گرفتاری کے بعد ہوئی لیکن اگر کسی نے گالی دی ہوتی یا انگلی بھی لگائی ہوتی تو وہ بھی لکھتے۔ ہم سے بہت بڑے صحافی افتخار گیلانی نے اور بہت بڑے عالم دین گجرات کے مفتی صاحب نے ہر وہ بات لکھ دی جو ہوا۔ اب یہ عدالتوں کے بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا ڈنڈے کے زور سے جھوٹ کو حلق میں ڈال کر نکالنے کا پولیس کو حق ہے؟ اور نہیں ہے تو پولیس تحویل کیا ہوتی ہے؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا