English   /   Kannada   /   Nawayathi

عوامی مسائل اور ان سے بے حسی کا رویہ

share with us

انتظام وانصرام کے نام پر کبھی مرحوم رفیع احمد قدوائی کو یاد کیا جاتا ہے تو کبھی ولبھ بھائی پٹیل کے گن گائے جاتے ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے دور میں اعلیٰ نظم وانتظام کا مظاہرہ کرکے عوام کو راحت پہونچائی درمیان میں ایمرجنسی کے دوران بھی دوسری پابندیوں بلکہ تکلیفوں کے باوجود لوگوں نے آٹے دال کے نرخ کم ہوتے دیکھے مگر اس کے بعد گرانی کو عروج حاصل ہوا تو آج تک اس میں برابر اضافہ ہورہا ہے ملک میں ہر طرف بدامنی اور بے اطمینانی کا راج ہے جس میں شریف لوگوں کے لئے صبح سے شام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔

ان حالات سے کم وبیش پورا ملک دو چار ہے اور فی الحال ان کے سدھرنے کی امید بھی نہیں خدائے تعالیٰ ہر ملک کو ایسے صابر عوام دے جیسے کہ ہندوستان میں ہیں، وہ اپنے مسائل پر قانع ہیں جب شکر دس روپے کلو تھی تب بھی وہ سرکار کو دو چار اچھی بری سناکر خرید لیا کرتے تھے اب وہ۳۳روپے کلو فروخت ہورہی ہے تو بھی حکومت کو جلی کٹی سناکر خرید لیا کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ حالات سے جو جھتے جوجھتے لوگوں کا احساس مردہ ہوچکا ہے کیونکہ بھوکے پیٹ سونے والا بھی یہی کہتا ہے کہ وہ ”پچھلے کرموں کا پھل بھوگ رہا ہے“
مسلمانوں کا حال اور بھی دگرگوں ہے ان کی اقتصادی حالت پہلے ہی خراب تھی اب تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے مزید بدتر ہوچکی ہے پھر بھی کوئی ان کو قابل رحم نہیں سمجھتا کیونکہ شادی وغیرہ جیسی تقریبات پر وہ آج بھی اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ خرچ کرنے سے باز نہیں آتے کوئی کتنا ہی سمجھائے لیکن ان کی ناک کٹنے کے عذر کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔
آج امداد باہمی تحریک کے تحت ہزاروں کام ہورہے ہیں مگر مقامی مسلمان اس میدان میں کامیاب نہیں ہیں۔ اپنی اجتماعی ضرورت کا انہیں نہ آج احساس ہے اور نہ کل تھا۔ حالانکہ یہی مسلمان فسادات پر کروڑوں روپے کی دولت لٹوادیتے ہیں مگر اپنی کمیونٹی کی فلاح وبہبود کے لئے ان کی جیب میں سے کچھ نہیں نکلتا۔ کسی شہر میں ملت کے رکے ہوئے کام پورے کرنے کے لئے مسلمانوں سے چندہ کیجئے تو جھولی میں چند سکے ہی نظر آئیں گے لیکن جب اس شہر میں فرقہ وارانہ فسادکی آفت آتی ہے اور جان ومال کا نقصان ہوتا ہے تو پھر حساب لگاکر بتایاجاتا ہے کہ مسلمانوں کا نقصان کروڑوں سے تجاوز کرگیا ہے حالانکہ اس سے پہلے یہی وہ شہر تھا جو اجتماعی کاموں کے لئے مفلس سمجھاجاتا تھا۔
یہی وہ افسوسناک صورت حال ہے جس کی طرف ملت کے رہنما آئے دن مسلمانوں کو متوجہ کرتے ہیں اور بعض ایسے شہروں کی مثال بھی دیتے ہیں جہاں ملت کے باشعور اصحاب اجتماعی کاموں پر اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں نئی نسل اپنے پیروں پر کھڑی ہورہی ہے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا