English   /   Kannada   /   Nawayathi

من کی بات! کیا مسائل کا حل یہی ہے؟

share with us

1222559 مربع میل میں پھیلا ہوا وسیع و عریض، کشادہ سینہ رکھنے والا ملک رنگ رنگ اور متنوع ثقافت اور تہذیب کا مالک ہے، جس کا کلچر پوری دنیا میں مشہور اور سراہا جاتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں بڑی اہمیت کا حامل اورمختلف مذاہب کا حسین سنگم ہے، افراد کا میل جول دیدنی ہے۔ جہاں اعداد و شمار کے مطابق ہندو ازم سے تعلق رکھنے والے 79.8 افراد ہیں اور مذہب اسلام سے متعلق 14.2 افراد 2.3 فیصد آبادی کرسچن ہے۔ مذاہب کا یہ خوبصورت ملن اس ملک کی شان اور عظمت میں چار چاند لگا دیتا ہے اور اس کی قدروں کو بلند کرتا ہے۔ اس کے وقار کی رفعتوں کو آسمان تک پہنچایاتا ہے اور اس کی عظمت و وقعت کا نشان ہے۔ 26 جنوری 1950ء سے یہ ملک اپنے ضابطے،اپنے قوانین رکھتا ہے، جن کی بنیادیں جمہوریت پر ٹکی ہوئی ہیں، اس نظام جمہوری کی عمر 67 سال ہے، جو شخص واحد کی عمر سے بھی ابھی زائد نہیں، مگر اس قلیل مدت میں ملک بہت سے مسائل سے دوچار رہا اور ان مسائل کے حل کا تدارک بھی کیا جاتا رہا، وقتاً فوقتاً ملک مشکل حالات سے گذرا، کبھی کبھی حالات نے ایسی شکل اختیار کی کہ جمہوری نظام کی چولیں ہل گئیں اور نظام ٹوٹتا محسوس ہوا مگر پھر اقلیتوں کے اعتماد نے اسے سنبھال لیا مگر مسائل جنم لیتے رہے، جن کی نوعیتیں مختلف رہیں اور ہندوستانی افراد ان سے لڑتے رہے اور انتظامیہ ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہی، کبھی کامیاب رہی اور کبھی ناکامی کی صورت میں وہ عوام کے عتاب کا شکار ہوئی اور جمہوری نظام کے باعث انتظام و انصرام کی ذمہ داریوں کے لائق نہ سمجھ کر آزاد کردی گئیں۔
اس ضمن میں مختلف محاذ اور پارٹیوں نے جنم لیا، جن کے اقتدار کی چاہ اور کرسی کی الفت نے ہندوستان کو بہت مشکل حالات سے دوچار کیا، ملک موجودہ وزیر اعظم جو بات تو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی کر رہے تھے مگر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بی جے پی نے ان کی کس شبیہ کا فائدہ اٹھایا۔ 17مئی 2014 ء کو جب نریندر مودی نے حلف نامہ پڑھا اور بڑے بڑے وعدے کئے تو لگا اس ملک کی تقدیر چمک اٹھی اور یہ تو ملک کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے مگر تقریباً ایک سال آٹھ ماہ کی مدت گذرنے کے بعد حالات ناقابل بیان ہیں اور مسائل کا انبار جس سے چھٹکارے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ وہ ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ ہو یا دیگر مسائل ہوں ہر محاذ پر حکومت پوری طرح ناکام نظر آئی ہے۔ روزگار کا مسئلہ ہو، تعلیم کا مسئلہ ہو، نظر دوڑاتے جائیے سوچتے سوچتے تھک جائیں گے اور ماتم کریں اپنی بدقسمتی پر کہ کس کے دورِ اقتدار میں جینا نصیب ہوا، جب یہ حکومت تشکیل پائی تو دالوں کی قیمت 30 سے چالیس روپئے کلو کے درمیان ہوا کرتی تھی، جو آج 180 سے دوسو روپئے کے درمیان ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مہنگائی کس قدر بڑھی ہے۔ہمارے ملک میں جہاں ایک کثیر تعداد غریبی کی زندگی گذارتی ہے وہاں یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ہے، جسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ کوئی بات نہیں، اس پر ہدف و تنقید بنانا غلط ہے، موزوں نہیں ہے۔ اگر اس مہنگائی کے نقصانات کا اندازہ کرنا ہو تو گذارئیے غریبوں کے جھونپڑوں میں کوئی رات اور اندازہ کیجئے مہنگائی کی مار کا، جب آپ دیکھیں گے سردی سے ٹھٹھرتے اور بھوک سے تڑپتے افراد جو عیش و عشرت کی زندگی نے مال و دولت کی چکاچوند سے آنکھوں سے چھپا رکھی ہے تو سمجھ میںآجائے گااور پول کھل جائے گی ترقی کے دعووں کی اور معلوم ہوجائے گا کہ کن حالات اور کیفیات سے دوچار ہے۔ ان چند افراد کا نام ہندوستان نہیں جن پر وزیر اعظم کی نگاہ ہے بلکہ ملک کے ان تمام افراد سے مل کر بنتا ہے جو اس میں رہتے اور بستے ہیں، اس کی عزت و وقار کی خاطر وقت آنے پر جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دوسرا وہ جو اس سرزمین پر کثیر تعداد میں ہے، وہ زراعت سے تعلق رکھتا ہے جو دھوپ کی شدت میں سخت زمین کے سینے کو چیرتا ہے اور ہمارے لئے غلہ فراہم کرتا ہے اور ملک کی ترقی میں گراں قدر حصہ لیتا ہے، اس کا حال یہ ہے کہ خودکشی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں اور کر بھی کیاسکتے ہیں؟ جسم کو چور کرنے والی محنت کے بعد انہیں میسر ہی کیا آتا ہے؟ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں جومِلوں پر کسانوں کا بقایا ہے وقت پر ان کی رقم نہیں مل پاتی، کھاد کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں، بوائی، جتائی، سنچائی یہ تمام کرنے کے بعد جب فصل اُگ آتی ہے اور پیداوار لے کر کسان منڈی میں نکلتا ہے تو خرچ بھی وصول نہیں کر پاتا۔ آلو جب کسان بیچتا ہے تو دس روپئے کلو اور جب اس کو خریدتا ہے تو ذرا تیل اور نمک کے اضافے کے بعد وہی دو سو روپئے کلو۔ نتیجہ سامنے ہے، نہ جانے کتنے کسان بچے تعلیم سے محروم ہوگئے، کتنے نوجوانوں کے حوصلوں کو اس غریبی نے چور چور کردیا، اگر اس کڑے سچ کی جھلک دیکھنی ہو تو جا کر دیکھئے بندیل کھنڈ میں جہاں تقریباً پچاس ضلعے خشکی کا شکار ہیں۔ 
اور ایک کثیر تعداد کھانے کی لذت سے محروم ہے۔پیٹ بھرنے کی تاب نہیں لاپارہی ہے، اگر یہ تحقیق کی جائے کہ ہمارے وزیر اعظم نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کئے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے اس مدت میں سیر سپاٹا کیا، تفریح کی اور حالات جب زیادہ نازک ہوئے تو ’’من کی بات‘‘ کہہ ڈالی، کیا یہ من کی بات مسائل کا حل ہے؟ کیا یہ بھوکوں کے لئے روٹی ہوسکتی ہے؟ کیا یہ غریب کے لئے چھت اور مزدور کے لئے بستر ہوسکتی ہے؟ اس سلسلے میں وزیر اعظم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟ کیا ان کا اپنے دل کی بات کہہ دینا کافی ہے؟ لوگوں کے دلوں میں کیاہے؟ وہ کن حالات سے لڑ رہے ہیں؟ اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ اگر ہے تو عملی نمونے کہاں ہیں؟
کیا ہیں ان کے اقدامات؟ اگر انہوں نے عملی زمین میں کاشت کی ہوتی تو انہیںآنسو نہ بہانے پڑتے، احتجاجات کا شکار نہ ہونا پڑتا۔عجیب مزاج کا شخص اس بار ہمارا حکمراں ہے، جس کی تقریریں سنی جائیں تو دنیا میں اس سے زیادہ عظیم کوئی سربراہ کوئی نظر نہ آئے اور اگر زمینی سطح پر دیکھا جائے تو کچھ لکھنے اور کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے گرتے آنسو اور ’’واپس جاؤ‘‘ کے نعرے ترجمان ہیں کہ اس کی عملی پرواز کہاں تک ہے؟ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ تشدد نہ برتا جائے، ایسے الفاظ نہ کہے جائیں جو کسی کے جذبات کو مجروح کرتے ہیں مگر کہنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے۔ اگر کارروائی کی ہوتی تو کیا سرِعام رسوائی ہوتی؟ دیگر ممالک کے غم میں تو شریک ہیں مگر ہند میں کوئی ایسا کام ان سے نہیں ہوا جو ان کے درد کا غماز ہو۔ علاوہ چند آنسو کے جو اس وقت گرے جب وہ مخالفت جھیل رہے تھے،یہ بھی ایک اسرار ہے کہ وہ آنسو محبت کے تھے یا پچھتاوے کے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا